جنیدجمشید کو شہادت اس ماہ مبارک میں ملی جس میں کائنات کی محبوب ترین ہستی محمد مصطفیﷺکی ولادت ہوئی۔وہ لوگ کتنے خوش نصیب تھے جنہوں نے آپ ﷺ کی شان اقدس بیان کی اور نعت گوئی کے ذریعے آپ ﷺ کی ثنا خوانی کی سعادت حاصل کی۔ انہی میں ایک حضرت حسان بن ثابتؓ تھے ۔ مکہ کے شعرا نے جب رسول اللہ ﷺ کی ہجو گوئی شروع کی اور اس کے جواب دینے کی ضرورت پڑی تو حضرت حسانؓ اس خدمت کے لیے تیار ہو گئے ۔ایک شاعر نے سرکار دو عالم ﷺکی شان میں گستاخی کرتے ہوئے ہجویہ اشعار کہے ۔ جب وہ اشعار آپﷺکی خدمت میں پیش ہوئے تو آپ ﷺنے حسان بن ثابت ؓسے فرمایا: حسان اٹھو، اور ان اشعار کا جواب دو۔حسان بن ثابت ؓنے جواب کچھ اس طرح سے دیا:
میرے آقا‘ میرے مولا‘ میرے آقا‘ میرے مولا
محمد رسول اللہ، محمد رسول اللہ
جہاں میں ان سا چہرہ ہے نہ ہے خندہ جبیں کوئی
ابھی تک جَن سکیں نہ عورتیں ان سا حسیں کوئی
نہیں رکھی ہے قدرت نے میرے آقا کمی تجھ میں
جو چاہا آپ نے مولا وہ رکھا ہے سبھی تجھ میں
میرے آقا میرے مولا، میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ ،محمد رسول اللہ
بدی کا دور تھا ہر سُو‘ جہالت کی گھٹائیں تھیں
گناہ و جرم سے چاروں طرف پھیلی ہوائیں تھیں
خدا کے حکم سے نا آشنا مکے کی بستی تھی
گناہ و جرم سے چاروں طرف وحشت برستی تھی
خدا کے دین کو بچوں کا ایک کھیل سمجھتے تھے
خدا کو چھوڑ کر ہر چیز کو معبود کہتے تھے
وہ اپنے ہاتھ ہی سے پتھروں کے بُت بناتے تھے
انہی کے سامنے جھکتے‘ انہی کی حمد گاتے تھے
کسی کا نام''عُزیٰ‘‘تھا کسی کو ''لات‘‘کہتے تھے
''ہُبل‘‘ نامی بڑے بُت کو بتوں کا باپ کہتے تھے
اگر لڑکی کی پیدائش کا ذکر گھر میں سن لیتے
تو اُس معصوم کو زندہ زمیں میں دفن کر دیتے
پر جو بھی برائی تھی سب ان میں پائی جاتی تھی
نہ تھی شرم و حیا آنکھوں میں گھر گھر بے حیائی تھی
مگر اللہ نے ان پر جب اپنا رحم فرمایا
تو عبداللہ کے گھر میں خدا کا لاڈلا آیا
عرب کے لوگ اس بچے کا جب اعزاز کرتے تھے
تو عبدالمطلب قسمت پر اپنی ناز کرتے تھے
خدا کے دین کا پھر بول بالا ہونے والا تھا
محمدؐ سے جہاں میں پھر اُجالا ہونے والا تھا
میرے آقا میرے مولا،میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ، محمد رسول اللہ
فرشتہ ایک اللہ کی طرف سے ہم میں حاضر ہے
خدا کے حکم سے جبریل بھی اِک فرد لشکر ہے
سپہ سالار اور قائد ہمارے ہیں رسول اللہ
مقابل ان کے آؤ گے ملے گی ذلتِ کُبریٰ
ہمیں فضل ِخدا سے مل چکی ایماں کی دولت ہے
ملی دعوت تمہیں پر سر کشی تم سب کی فطرت ہے
سنو اے لشکر کفار ہے اللہ غنی تم سے
لیا تعمیرِ زمیں کا کام ہے اللہ نے ہم سے
لڑائی اور مدح و ذم میں بھی ہم کو مہارت ہے
قبیلہ معاذ سے ہر روز لڑنا تو سعادت ہے
زبانی جنگ میں شعر و قوافی خوب کہتے ہیں
لڑائی جب بھی لڑتے ہیں لہو دشمن کے بہتے ہیں
میرے آقا میرے مولا،میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ،محمد رسول اللہ
محمد کے تقدس پر زبانیں جو نکالیں گے
خدا کے حکم سے ایسی زبانیں کھینچ ڈالیں گے
کہاں رفعت محمدؐ کی کہاں تیری حقیقت ہے
شرارت ہی شرارت بس تیری بے چین فطرت ہے
مذمت کر رہا ہے تُو شرافت کے مسیحا کی
امانت کے دیانت کے صداقت کے مسیحا کی
میرا سامان جان و تن فدا ان کی رفاقت پر
میرے ماں باپ ہو جائیں نثار ان کی محبت پر
زباں رکھتا ہوں ایسی جس کو سب تلوار کہتے ہیں
میرے اشعار کو اہل جہاں ابحار کہتے ہیں
میرے آقا میرے مولا، میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ، محمد رسول اللہ
ہم نہیں جانتے خدا نے جنید جمشید کے لئے کیسے کیسے انعامات تیار کر رکھے ہیں‘ ہمیں تو اتنا علم ہے کہ وہ شخص بڑے بڑوں پر بازی لے گیا۔جو عزت اس نے اپنی زندگی میں اور پھر مرنے کے بعد کمائی‘ وہ عشروں بعد کسی کے حصے میں آتی ہے۔خدا نے انہیں خوبصورت‘ میٹھی اور سریلی آواز سے نوازا تھا۔ اپنی عمر کا بڑا حصہ انہوں نے اس آواز کو ملی نغموں اور عشقیہ موسیقی کے لئے استعمال کیا۔ بہت سے بدقسمت اس بات پر رنجیدہ ہیں کہ جنید جمشید کو ایک مذہبی شخصیت کے طور پر کیوں یاد رکھا جا رہا ہے۔ان کے خیال میں جنید جمشید کی اصل پہچان دل دل پاکستان اور وہی پاپ موسیقی تھی جس سے وہ متعارف ہوئے۔دوسرے طبقے کے مطابق جنید جمشید دعوت و تبلیغ اور نعت گوئی کی وجہ سے عزت و شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔ میرے خیال میں یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔جنید جمشید کی اصل پہچان ان کا وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جس میں انہوںنے موسیقی کی زندگی کو خیرباد کہا اور اللہ اور اس کے نبی ﷺ کے دین کے احکامات کے مطابق خود کو ڈھالا۔ یہ بہت بڑا کام تھا۔ یہ کام کوئی عام آدمی کرے تو اتنا مشکل نہیں ہوتا لیکن ایک ایسا فنکار کرے جس کے پیچھے دنیا بھر کی عالمی کمپنیاں چیک لے کر پھریں‘ اسے اپنے اشتہارات میں سائن کرنے کے لئے منہ مانگے دام آفر کریں‘ دنیا بھر سے جسے کنسرٹس کی دعوتیں دھڑا دھڑ موصول ہوں اور جو پاکستان میں خاص طرز کی پوپ موسیقی کا معمار ہو‘ اس شخص کے لئے لذت بھری زندگی سے کنارہ کشی کرنا اور نبی ﷺ کے غلام کی عملی شکل اختیار کرنا آسان نہ تھا۔ ان کی یہی ادا خدا کو بھی پسند آئی ہو گی جس کی وجہ سے وہ کروڑوں دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ افسوس ان لوگوں پر ہے جو سوشل میڈیا کو اس موقع پر بھی لائیکس اور ریٹنگ کے لئے استعمال کر تے رہے۔ یوٹیوب پر کسی ویڈیو میں جہاز کے اندرونی مناظر دکھائے گئے جو غالباً تھائی لینڈ کے کسی جہاز کے تھے‘ اسی طرح ایک جہاز کی ویڈیو بنائی گئی اور موبائل کو ٹیڑھا کر کے اسی جہاز کو گرتا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ سب کچھ اس شخص کی شہادت کے موقع پر کیا گیا جو اس طرح کے جھوٹ ‘ فریب اور غیبت کے قریب بھی نہ پھٹکتا تھا۔
ہم لوگ لاکھ خود کو لبرل یا سیکولر کہتے رہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر لبرل یا سیکولر کے اندر ایک مولوی چھپا ہوتا ہے جو کبھی نہ کبھی‘ کسی نہ کسی صورت میں باہر ضرور آتا ہے۔ ہم جو مرضی کہتے رہیں ‘ ہم لاکھ گانے سن لیں‘ ہزار میوزک شوز اٹینڈ کر لیں‘ جتنا مرضی ماڈرن لائف سٹائل اپنا لیں ‘ہم بھی سکون پاتے ہیں تو کلام الٰہی کی تلاوت‘ اللہ کی حمد اور نبی ﷺ کی مدح و ثناسے پاتے ہیں۔ جنید جمشید کو بھی قرار آیا تو الٰہی کی چوکھٹ پر بھکاری بن کر آیا ‘محمد مصطفیﷺ کے روضہ ٔ اقدس پر آنسو بہا کر آیا!