بلاول اپنے والد کی نصیحتوںپر ضرور عمل کرے گا۔
زرداری صاحب نے اسے سمجھایا ہو گا کہ بیٹا! مغرب کی زندگی چھوڑو اور جا کر اس ملک میں قسمت آزمائی کرو جہاں سینما کی ٹکٹیں بلیک کرنے والے ملک کے اعلیٰ ترین مناصب تک پہنچ جاتے ہیں۔بلاول کو بھی سمجھ آگئی ہو گی کہ اگر وہ مغرب میں زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتا ہے تو زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ وہ والد کے چھوڑے گئے پیسوں پر عیش تو کر لے گا لیکن اپنا نام اور اپنی پہچان کبھی نہیں بنا سکے گا۔ اپنی تعلیمی قابلیت پر اگر اسے زیادہ سے زیادہ بھی کچھ ملا تو وہ کسی ملٹی نیشنل ادارے کی نوکری ہو گی جہاں وہ برسوں بعد ہی کبھی مینیجر کی پوسٹ تک پہنچ سکے گا۔ تاہم ایسا کرنے کے لئے بھی اسے پُرخاراور پُرپیچ رستوں سے گزرنا ہو گا اور پھر بھی ضروری نہیں کہ اسے خاطرخواہ کامیابی ملے ۔ امریکی اور مغربی معاشروں میں اپنی پہچان بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑتا ہے۔ بلاول مائیکروسافٹ کے بل گیٹس یا فیس بک کے مارک زکربرگ کی طرح غیرمعمولی صلاحیتوں کا مالک تو ہے نہیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے کسی میدان میں کوئی تخلیق کرے ‘اس کے نام کا طوطی پوری دنیا میں بولنے لگے اور وہ چند برسوں میں دنیا کے امیر اور بااثر ترین شخصیات میں شامل ہو جائے۔ زرداری صاحب نے اسے بتایا ہو گا کہ بیٹا مغرب کی زندگی میں وہ مزا اور وہ چسکا نہیں جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ہے۔ بلاول کو بھی پاکستان آ کر پتہ چل چکا ہو گا کہ اس کا باپ ٹھیک کہتا ہے۔ جو مزا اور جو عیش و عشرت یہاں ہے‘ وہ باہر کہاں؟ یہاں بلاول یا کوئی سرکاری جادوگر باہر نکلتا ہے تو پوری دنیا
دیکھتی ہے۔ پچاس پچاس گاڑیوں کا قافلہ یوں نکلتا ہے جیسے بابر ہندوستان فتح کرنے نکلا ہو۔ بلاول ایسے خوش نصیبوں کے لئے یہاںموجیں ہی موجیں ہیں جو منہ میں سونے کے چمچ لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ بلاول کو بھی یہ سہولت حاصل ہے کہ جب چاہے وہ اپنی پارٹی کی سندھ حکومت کا سرکاری جہاز یا ہیلی کاپٹر استعمال کرے‘ سرکاری وزیر مشیر،بیوروکریٹس اور پوری مشینری کو اپنے جلسے کامیاب کرنے پر لگا دے اور جب چاہے زکام کے علاج کے لئے عوام کے ٹیکس پر بیرون ملک علاج کے لئے نکل جائے۔ ایسی زندگی کا تو وہ بیرون ملک خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔ بلاول اگر مغرب میں رہے تو اسے بجلی کے بل سے لے کر ٹریفک کے قوانین تک ہر شے کی پابندی کرنی پڑے گی۔ مغرب میں وہ اتنا تو کر سکتا ہے کہ اپنے کالے دھن کو کسی آف شور کمپنی کے ذریعے کسی جزیرے میں چھپا لے لیکن یہ کالا دھن وہ بنائے گا کہاں سے؟ مسئلہ یہاں آ کر کھڑا ہوتا ہے۔ اس کے لئے اسے ہر صورت پاکستان جانا پڑے گا۔ یہ سب نصیحتیں اب بلاول کے کام آئیں گی۔
بلاول شاہ نواز بھٹو بننے سے بھی بچ گیا۔ اسے معلوم تھا اگر وہ اپنے باپ کی بات نہ مانتا تو شاہ نواز کی طرح غیرمعروف زندگی گزارتا ‘ وہ کسی فلیٹ میں پراسرار موت کا شکار ہو جاتا اور دنیا کو پتہ تک نہ چلتا۔ بلاول کو اس کے باپ نے صرف نصیحتیں دے کر ہی میدان میں نہیں اتارا بلکہ کامیابی کی کنجی بھی تھما دی۔ یہ کنجی ذوالفقار علی بھٹو کا نام تھی۔ بلاول کو بھی یقین ہے‘ بھٹو چاہے پھانسی چڑھ گیا مگر اس کانام آج بھی بکتا ہے۔سندھ میں عشروں سے پیپلزپارٹی قابض ہے‘ مجال ہے کہ وہاں معاشی حالات میں ایک فیصد بھی بہتری آئی ہو لیکن صدقے جائیں ان جیالوں کے جو بھوکے ننگے مرنے کو تیار ہیں لیکن بھٹو ان کے اندر سے نہیں نکل سکا ۔ بلاول کواور کیا چاہیے ؟ کیا اسے ایسے اندھے مقلد اور بھوکے ننگے عوام لندن یا نیویارک میں مل سکیں گے؟ بلاول کو اب اپنے انداز گفتگو پر طنز کرنے والوں پر بھی غصہ نہیں آتا ہو گا کیونکہ اسے بتایا گیا ہو گا کہ اس کی والدہ بھی جب ''اذان ہو رہی ہے‘‘ کو ''اذان بج رہا ہے‘‘ کہتی تھیں تو لوگ برا نہیں مناتے تھے بلکہ یہ سمجھتے تھے کہ بیرون ملک سے جس طرح وائسرائے یہاں حکومت کرنے آتے تھے اسی طرح اگر یہ لوگ آتے ہیں اور اردو کی کھال انگریزی کے چاقو سے اتارنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس
میں گھبرانے یا شرمانے کی کون سی بات ہے۔ کم از کم یہ پاکستانی تو ہیں اور اگر یہ ہم پر حکومت نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا کہ ان کے پاس ڈاکٹر عاصم‘ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف جیسے ''انمول ہیرے‘‘ موجود ہیں جو بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی دس دس تاریخیں دیتے ہیں اور ہر بار مکر جاتے ہیں اور جو اربوں کھربوں کی کرپشن کرتے ہیں لیکن نہ عوام اُن کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں نہ ادارے۔ جہاں تک کرپشن کی بات ہے تو بلاول ان الزامات کو اب کبھی سیریس نہیں لے گا اور اس کی وجہ تحریک انصاف ہے۔ پاناما کا انجام بلاول نے دیکھ لیا ہے۔ تحریک انصاف جیسی جماعت نے جس طرح اس کیس سے خود ہی جان نکال دی ہے‘ وہ اپنے باپ پر لگنے والے کرپشن کے الزامات سے کیوں کر گھبرائے گا۔ عمران خان سے تو اسے اب بالکل بھی خطرہ نہیں کیونکہ اس نے دیکھ لیا ہے کہ عمران خان اگر پاناما جیسی کرپشن ثابت نہیں کر سکا اور عدالت میں ثبوتوں کے طور پر محض کتابیں اور اخباری تراشے ہی لا سکا تو وہ سوئس اکائونٹس اور سرے محل پر ان کا کیا بگاڑ سکے گا۔ اسے معلوم ہے حکمرانوں کو مضبوط بنانے میں تحریک انصاف کا سب سے بڑا کردار ہے اور اب جبکہ حکمران جماعت اس بحران سے بھی باہر نکل چکی ہے‘ تحریک انصاف کا گراف تیزی سے نیچے آ رہا ہے۔ باقی رہی سہی کسر آئندہ الیکشن میں پختونخوا کے عوام نکال دیں گے۔ اسے معلوم ہے اس کی اپنی پھوپھی پر بھی لاڑکانہ میں اربوں کی کرپشن کا الزام ہے اور عدالت اس پر یہاں تک کہہ چکی ہے کہ ڈائن بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے لیکن سندھ حکومت نے تو کچھ بھی نہیں چھوڑا‘ اس کے باوجود اس کے بڑوں کا کچھ نہ بگاڑا جا سکا تو وہ کیوں گھبرائے؟۔ بلاول کو سندھ
اور خیبرپختونخوا میں فرق بھی معلوم ہو چکا ہے کہ سندھ ہر آنے والی حکومت میں معاشی طور پر کمزور ہو رہا ہے لیکن وہاں کے عوام پھر بھی بھٹو کے نام پر ووٹ پیپلزپارٹی کو ہی دیں گے لیکن پختونخوا میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں اب تک ایک جماعت کو دوسری مرتبہ حکومت بنانے کا موقع نہیں ملا۔چنانچہ بلاول کو اب تحریک انصاف کی طرف سے بھی کوئی خطرہ نہیں رہا۔ بلاول اپنے والد کے حکم کے مطابق پنجاب میں ڈیرہ جما چکا ہے کہ اسے معلوم ہے اگر آئندہ حکومت میں آنا ہے تو پنجاب کا دل جیتنا ہو گا۔ باپ سر پر ہو تو انسان کو تپتی دھوپ محسوس نہیں ہونے دیتا ‘ بلاول میں جو کمیاں کوتاہیاں ہیں وہ زرداری صاحب تئیس دسمبر کوآ کر دُور کر دیں گے۔ بلاول کو معلوم ہے کہ جس سیاسی جماعت یا لیڈر کو مشکل پیش ہوئی‘ اس کے والد کی مشاورت سے وہ مشکلات اڑن چھو ہو گئیں تو بھلا اس کا والد اپنے بیٹے کے لئے کیا کچھ نہیں کر سکتا۔ زرداری صاحب اسے یہ بھی سمجھائیں گے کہ اگر تم کرپشن یا کسی بحران میں پھنس بھی گئے تو گھبرانا نہیں‘ تم جب چاہو اپنے اصل دیس یعنی لندن‘ دبئی وغیرہ واپس جا سکو گے تاکہ اپنے باپ کی طرح پلٹ کر جھپٹنے کیلئے خود کو تیار کر سکو۔ یہ سب نصیحتیں بلاول کو عملی سیاست میں کھینچ لائی ہیں۔
یہ عوام کی خوش نصیبی ہے کہ ایک ایسا فرمانبردار بیٹا اس ملک پر حکومت کرنے کو تیار ہو رہا ہے جس کے باپ پر سوئس اکائونٹس اور سرے محل جیسے کرپشن کے ''معمولی‘‘ الزامات ہیں اور جو اپنے ہی ملک کے قومی اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا شوق رکھتا ہے ۔ بلاول کوہر میدان میں اپنے باپ کو پیچھے چھوڑنا ہے۔