میں نے جب سے صوبائی حکومت کی جانب سے آن لائن ٹیکسیوں کی پکڑ دھکڑ اور ان پر پابندیوں کی خبر سنی ہے‘ مجھے ہنسی بھی آ رہی ہے اور افسوس بھی ہو رہا ہے۔ ہنسی اس لئے آ رہی ہے کہ صوبائی حکومت دراصل ایسے نظام کو آگے بڑھنے اور پھیلنے سے روکنا چاہتی ہے جو کام دنیا کی سپر طاقتیں بھی نہ کر سکیں اور افسوس اس لئے ہو رہا ہے کہ اس طرح کر کے دراصل حکمران اپنے ملک کو ٹیکنالوجی کی بجائے ماضی کے اندھیروں کی جانب دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لاہور میں کچھ عرصہ قبل سے موبائل ایپ کے ذریعے ٹیکسی منگوانا انتہائی مقبول اور آسان ہو چکا ہے۔ لوگوں کو ٹرانسپورٹ کی سستی سہولیات ان کے دروازے کے آگے ملنے لگی تھیں اور اس کا کریڈٹ صرف اور صرف اس شخص کو جاتا ہے جس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی۔اُوبر(Uber) اور کریم جیسی اب کئی ایپس دنیا بھر کے ممالک میں کامیابی کے ساتھ لاکھوں ٹیکسیوں کے ذریعے لوگوں کو سفر کی جدید سہولیات مہیا کر رہی ہیں۔ یہ آئیڈیا جس کا بھی تھا انتہائی شاندار تھا۔ سوشل میڈیا پر یہ جملہ آپ نے بھی سنا ہو گا کہ اُوبر دنیا کی وہ سب سے بڑی ٹیکسی سروس کمپنی ہے جس کے پاس اپنی ایک بھی ٹیکسی نہیں۔سات برس قبل شروع ہونے والی یہ کمپنی دنیا کے 66ممالک کے 545شہروں میں آپریٹ کر رہی ہے۔اس کا مرکزی دفتر سان فرانسسکو میں ہے اور یہ سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر ریونیو کما رہی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کس طرح اُوبر نے اتنی ترقی حاصل کی اور وہ کس طرح دنیا بھر میں پھیل گئی۔ اُوبر یا کریم کے
پیچھے آئیڈیا یہ تھا کہ لوگوں کو سفر کی ایسی سہولت مہیا کی جائے کہ وہ جب چاہیں پل بھر میں ٹیکسی ان کے دروازے پر آ جائے ۔ نہ صرف یہ بلکہ اس سہولت کو بجٹ میں رکھنے کے لئے بھی خاص انتظام کیا گیا۔ اس کے لئے موبائل فون پر ایک ایپ بنائی گئی جسے ہر کوئی مفت میں اپنے موبائل فون میں ڈائون لوڈ کر سکتا ہو۔ اگلا کام اس سہولت کو عام لوگوں کے بجٹ میں لانا تھا۔ اگر کوئی شخص موبائل سے کسی عام ٹیکسی کو فون کر کے بلاتا ہے تو وہ شخص اس شہر کے دوسرے کونے پر بھی ہو سکتا ہے اس طرح ڈرائیور کو گاہک یا مسافر تک پہنچنے میں نہ صرف بہت زیادہ وقت لگ سکتا تھا بلکہ اس کا پٹرول بھی بہت زیادہ ہوتا۔ اس کا بوجھ اگر وہ خود اٹھاتا تو وہ ٹیکسی سروس چلا ہی نہ پاتا اور اگر صارف کی جیب پر یہ بوجھ منتقل کرتا تو صارف کی چیخیں نکل جاتیں کیونکہ جو سفر اس نے کیا ہی نہ ہو اس کا کرایہ وہ کیوں بھرتا۔ چنانچہ اس مسئلے کا حل نکالنے کے لئے جی پی ایس کی مدد لی گئی۔ان ایپس کے ذریعے آپ کے فون کی سکرین پر وہ ٹیکسیاں نمودار ہو جاتی ہیں جو آپ کے قریبی علاقے میں دو تین کلومیٹر کے اندر موجود ہوں۔ آپ جیسے ہی کسی ٹیکسی کو بلانے کے لئے کلک کرتے ہیں ایک پیغام اس علاقے یا دائرے میں موجود تمام ٹیکسیوں کو چلا جاتا ہے اور جو ڈرائیور پہلے اوکے کا بٹن دباتا ہے‘ اس کا آپ کے ساتھ ایپ یا ایس ایم ایس کے ذریعے رابطہ ہو جاتا ہے اور وہ جی پی ایس کے ذریعے آپ کی لوکیشن بھی جان لیتا ہے۔ یہ جی پی ایس یا گلوبل پوزیشننگ سسٹم انتہائی دلچسپ ایجاد ہے اور اس ایجاد نے دنیا کا رخ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔آج اگر امریکہ اپنے ملک میں بیٹھ کر ایک بٹن دباتا ہے اور ایک میزائل امریکی بحری بیڑے سے اڑتاہے اوردنیا کے دوسرے کونے میں کسی ملک میں اپنے ہدف پرجا گرتا ہے تو یہ سب جی پی ایس ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہے۔جی پی ایس انسانوں کی عام زندگی میں بھی استعمال ہو رہا ہے اور گاڑی کوچوری ہونے سے بچانے کیلئے جی پی ایس بیسڈٹریکرعام ہو گئے ہیں۔اس کی مدد سے کنٹرول روم میں بیٹھا شخص گاڑی کو آن آف کر سکتا ہے۔اس کی کہیں موجودگی کا پتہ چلا سکتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ گاڑی میں بیٹھے شخص کی آواز اور تصاویر بھی اس سسٹم کے ذریعے کسی جگہ سنی اور ریکارڈ کی جا سکتی ہیں اور تو اور گوگل اَرتھ سافٹ وئیر بھی اسی سسٹم کے تحت کام کرتا ہے جس کے
ذریعے ہم کمپیوٹر پر بیٹھے پوری دنیا کی سیر کر لیتے ہیں۔ گلوبل پوزیشننگ سسٹم کے تحت ایک کیپسول نماٹریکنگ ڈیوائس ایجاد ہو چکی ہے جس کی لمبائی آدھا انچ اور موٹائی چار سنٹی میٹر ہے۔یہ ڈیوائس سائز میں اتنی چھوٹی ہے کہ آدمی اسے محسوس کر سکتا ہے نہ ہی اسے ڈھونڈ سکتا ہے۔ یہ ڈیوائس انسانی جلد میں آسانی سے انجیکٹ کی جاسکے گی اوراس کے ذریعے کسی شخص کی دنیا میں کسی بھی جگہ موجودگی کا پتہ چل سکے گا۔وہ سارا دن کیا کرتا رہا۔اس نے کن لوگوں سے کیا کیا بات چیت کی‘ کہاں کہاں گیا‘ کس شخص سے ملا‘ کیا پلان بنائے غرض کہ دن اور رات میں ہونے والے ہر لمحے کی حرکت اس سسٹم کے ذریعے نوٹ اور ریکارڈ کی جا سکے گی۔ یہ ڈیوائس فی الحال دنیا بھر کے حساس اداروں کی ملکیت ہے لیکن جس تیزی کے ساتھ ٹیکنالوجی عام ہو رہی ہے ‘ وہ وقت دور نہیں جب یہ عام آدمی کی دسترس میں آ جائے گی۔اب بھی ہماری بہت سی معلومات امریکی خفیہ اداروں کو پل بھر میں پہنچ رہی ہیں کیونکہ ہم موبائل فون میں جو سافٹ ویئرز استعمال کرتے ہیں ‘ جب انہیں انسٹال کیا جاتا ہے تو موبائل ہم سے پوچھتا ہے کہ یہ سافٹ ویئر آپ کے فون میں موجود ٹیلی فون نمبرز‘ ایس ایم ایس‘ تصاویر‘ ای میلز وغیرہ تک رسائی چاہتا ہے اور ہم بلا سوچے سمجھے فوراً ''ہاں‘‘ کا بٹن دبا کر اسے اجازت دے دیتے ہیں۔ہر جدید موبائل فون میں یا تو اینڈرائڈ آپریٹنگ سسٹم چل رہا ہوتا ہے یا پھر ایپل کا آئی او ایس سسٹم۔ ہر صارف جب نیا موبائل لیتا ہے تو اس میں انٹرنیٹ سے کنیکٹ ہونے کے لئے اسے گوگل سے رجسٹر ہونا پڑتا ہے اور وہ جیسے ہی گوگل سے رجسٹر ہوتا ہے پھر اس کے موبائل فون میں اس کی کوئی بھی پرائیویسی‘ پرائیویسی نہیں رہ جاتی‘ جب بھی وہ انٹرنیٹ سے کنیکٹ ہو گا‘ اس کے فون سے تمام معلومات خودبخود ڈونلڈ ٹرمپ کی جیب میں پہنچ جائیں گی۔
ان حالات میں پنجاب حکومت کا ٹیکنالوجی پر مبنی سروس کو روکنا خاصا مضحکہ خیز ہے۔ دراصل حکومت چاہتی ہے کہ یہ ٹیکسیاں یا تو بند ہو جائیں تاکہ اس کی اپنی ٹیکسی سکیم کامیاب ہو سکے یا پھر اس کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ سسٹم میں آ جائیں اور اسے ٹیکس وغیرہ دیں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہ ٹیکسیاں کسی نہ کسی لائسنس کے ذریعے ہی آپریٹ کر رہی ہیں کیونکہ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر عمر سیف نے خود اُوبر ٹیکسی سروس کا افتتاح کیا تھا‘ وہ خود ایک ٹیکسی میں بیٹھے تھے اور اس کی خبریں پورے میڈیا نے کور کی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر عمر سیف تو خود پنجاب حکومت میں اہم عہدے پر فائز ہیں اور یہ تمام آن لائن ٹیکسی کمپنیاں جو سافٹ ویئر استعمال کر رہی ہیں‘ اس کی اجازت یقینا انہی سے لی گئی ہو گی تو پھر یہ پکڑ دھکڑ کیوں۔ اگر یہ سروس بند ہوتی ہے تو ہزاروں وہ طالبعلم اور بے روز گار نوجوان جو پارٹ ٹائم بغیر کسی اضافی لاگت سے اپنے گھر کی دال روٹی چلا رہے ہیں‘ ان کے چولہے بجھ جائیں گے۔ حکومت ان ٹیکسیوں کو ضرور سسٹم میں لائے لیکن اس میں پرافٹ مارجن انتہائی کم رکھے تاکہ سفر کی صارفین سستی اور معیاری سہولیات سے لطف اندوز ہو سکیں۔لیکن اگر حکومت کسی ترک کمپنی کو خوش کرنے کے لیے ان ٹیکسیوں کو سرے سے ہی بند کرنا چاہتی ہے تو حضور والا!یہ آج کے دور میں ممکن نہیں۔اس سے بہتر ہے کہ حکومت ملک سے انٹرنیٹ ہی منقطع کر دے ‘موبائل فون چھین کر عوام کو دوبارہ عام لینڈ لائن سیٹ دے دے ‘کمپیوٹر کی جگہ قلم اور تختی تھما دے اور ٹیکسیوں کی جگہ تانگے اور جہازوں کی جگہ اونٹ چلا دے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔