گزشتہ ہفتے کے پے در پے بم دھماکوں سے ایک طبقہ یہ فضا بنانے کی کوشش میں ہے کہ شاید ہم اڑھائی سال قبل والی پوزیشن پر چلے گئے ہیں کہ جب ابھی ضرب عضب آپریشن شروع نہیں ہوا تھا اور ملک میں خود کش دھماکے ‘ ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری عام تھی۔ یہ درست ہے کہ پانچ دنوں میں آٹھ بم دھماکے ہونا غیر معمولی واقعہ ہے ‘ ان میں جو افسران اور سینکڑوں عام لوگ شہید اور زخمی ہوئے‘ یہ بلاشبہ عظیم قومی نقصان ہے اور اس پر ہر دل دُکھی اور ہر آنکھ اشکبار ہے لیکن بطور تجزیہ کار یا ہوش مند شہری ہمیں صورت حال کو وسیع پیرائے میں دیکھنا چاہیے۔ ہمارا دشمن کوئی چھوٹو گینگ نہیں تھا کہ جسے کسی ایک آپریشن میں ختم کر دیا اور معاملات ٹھیک ہو جاتے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ بھارت جس کے ساتھ ہماری سینکڑوں کلومیٹر لمبی سرحد ہے‘ وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ یہاں دیرپا امن قائم ہو سکے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں دہشت گردی کو ختم کرنا انتہائی قلیل وقت میں ممکن نہیں۔ ضرب عضب آپریشن دو برسوں سے جاری ہے۔ اتنے کم عرصے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا ممکن نہیں ہوتا لیکن ہماری بہادر افواج نے یہ بھی کر دکھایا۔ہم لوگ موازنہ بھی غلط کر رہے ہیں۔ کیا کراچی ویساہے جیسا دو سال قبل تھا۔ اگر ہم گزشتہ ہفتے کے واقعات کو ایک طرف رکھ دیں تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ وہی ملک ہے جہاں گھر سے نکلنے سے پہلے دس مرتبہ سوچنا پڑتا تھا۔ ہم بہت جلد باز لوگ ہیں۔ چند واقعات کو مجموعی صورتحال کی خرابی پر محمول کر نا دانشمندی نہیں‘درحقیقت امن کے قیام کی ذمہ داری تمام کے تمام سٹیک ہولڈرز پر عائد ہوتی ہے اور اس ملک کے
سٹیک ہولڈرز حکومت ‘ فوج اور عوام ہیں۔ ہم حکومت اور فوج پر تو تنقید کر لیتے ہیں لیکن کبھی ہم نے سوچا کہ بحیثیت عوام کیا ہم اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں۔ ہم حکومت اور فوج سے توقعات لگائے بیٹھے ہیں لیکن کیا دہشت گردی کی جنگ میں ہم نے وہ کردار ادا کیا جس کی حکومت اور فوج نے ہم سے توقع لگائی تھی۔ حالیہ لاہور خود کش دھماکے کو ہی لے لیں۔ یہ دھماکہ کیمسٹ ایسوسی ایشن کی ہڑتال اور دھرنے کے دوران ہوا۔ کیمسٹ ایسوسی ایشن نے اپنے مطالبات منوانے کے لئے دو غیر قانونی طریقے اختیار کئے۔ ایک تو انہوںنے پنجاب بھر میں میڈیکل سٹورز کو تالہ لگا دیا اور دوسرا وہ جلوس کی شکل میں مال روڈ کی طرف نکل آئے جہاں لاہور ہائی کورٹ نے دفعہ ایک سو چوالیس کے تحت پابندی لگائی ہوئی ہے۔ میڈیکل سٹورز بند ہونے سے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو جس اذیت کا سامنا کرنا پڑا ہو گا اس کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں۔ پوری دنیا میں احتجاج ہوتے ہیں لیکن انسانی جان کی قیمت پر نہیں ۔ ڈاکٹر ہڑتال کرتے ہیں لیکن زیادہ سے زیادہ بازوئوں پر کالی پٹیاں باندھ کر یا پھر ڈیوٹی کے بعد چند منٹ کسی جگہ کتبے اٹھا کر۔ ایسا نہیں ہوتا کہ مریض کا آپریشن ہو اور سرجن سڑکیں بند کر کے عوام کو ذلیل و خوار کر رہے ہوں اور مریض کو بھی تڑپا رہے ہوں۔کیمسٹ ایسوسی ایشن کی تو صرف ایک مثال ہے‘ گزشتہ جنوری میں سترہ روز ایسے تھے جب
لاہور میں جلسے جلوس ہو رہے تھے ۔بہت سے لوگ تنقید کر رہے ہیں کہ کیپٹن احمد مبین کو خود مذاکرات کے لئے نہیں جانا چاہیے تھا۔ کیپٹن مبین یقینا ان سے ٹریفک کے مسائل پر تصفیہ کرانے کی کوشش میں ہوں گے جو اگرچہ براہ راست ان کی ذمہ داری نہ تھی لیکن جب شہر کا مصروف ترین چوک بلاک کر دیا جائے اور دوسری طرف باقاعدہ ایک تنظیم یاگروہ موجود ہو تو ایسے مظاہرین کسی چھوٹے رینک کے افسر کی بات پر یقین نہیں کرتے بلکہ وہ کئی مرتبہ خود کہتے ہیں کہ کوئی بڑا افسر ان سے بات کرے تو وہ راستے کھولنے کو تیار ہیں۔لاہور دھماکے میں جو سہولت کار ملوث تھے انہوں نے خودکش حملہ آور کو جس مکان میں ٹھہرایا تھا‘ اس کے مالک مکان اور سٹیٹ ایجنسی ڈیلر کو بھی حراست میں لے لیا گیا کیونکہ مالک مکان نے بغیر تصدیق کے انہیں وہاں ٹھہرایا تھا اور اسٹیٹ ایجنسی والے نے ان کی معلومات پولیس کو مہیا نہیں کی تھیں۔ اگر وہ مالک مکان مشتبہ کرایہ دار سے مصدقہ کوائف لئے بغیر ٹھہرانے پر آمادہ نہ ہوتا تو ممکن ہے لاہور سانحہ رونما ہی نہ ہوتا۔ جب ہم لوگ خود ہی چند ٹکوں کے لئے دہشت گردوں کے معاون بن جائیں گے تو پھر کسی سے گلہ کیوں کرتے ہیں۔آپ ٹریفک کو دیکھ لیجئے۔ فیروز پور روڈ اور جیل روڈ کو سابق سی ٹی او طیب حفیظ چیمہ نے سگنل فری بنانے میں اہم کردار ادا کیا جس پر انہیں پنجاب حکومت سے تعریفی اسناد بھی ملیں۔کیپٹن احمد مبین نے جب سے چارج سنبھالا تھا ٹریفک وارڈنز اتوار کی صبح بھی اپنے ڈیوٹیوں پر نظر آنے لگے جو اتوار کو اکثر غائب رہتے تھے۔ یہ تو ٹریفک کے محکمے یا حکومت کا کام تھا لیکن عوام اس سنگل فری سڑک کا کیا حال کرتے ہیں یہ آپ خود وہاں سے گزر کر دیکھ سکتے ہیں۔ گاڑیاں اور موٹر سائیکل سوار وں کی کوشش ہوتی ہے کہ جیسے ہی وارڈنز کا منہ دوسری طرف ہو وہ یوٹرن پر ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شارٹ کٹ مار لیں تاکہ انہیں چند فرلانگ اوپر سے گھوم کر نہ آنا پڑے۔ بطور عوام جب ہم خود ہی قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہوتے ہیں تو ہمیں شرم کیوں محسوس نہیں ہوتی ؟ کیا یہ جھوٹ ہے کہ کسی سرکاری یا نجی دفتر میں داخل ہوتے وقت جب کوئی سکیورٹی اہلکار ہم سے شناختی کارڈ طلب کرتا ہے یا تلاشی لینے کی کوشش کرتا ہے تو ہم اسے حقارت سے دیکھتے ہیں اور اس کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ ہم اپنا شناخت نامہ دکھانے کو اپنی تذلیل سمجھتے ہیں اور کوئی اگر ہمیں اس وجہ سے داخلے سے روک دے تو ہم اسے مزا چکھانے کی دھمکیاں دینے سے بھی باز نہیں آتے اور تو اور اپنے ان دفاتر میں بھی آفس کارڈ لگانے سے احتراز کرتے ہیں جہاں ہم آٹھ دس گھنٹے روزانہ کام کرتے ہیں۔
ہمارے ایسے رویے ہی معاشرے میں افراتفری اور بے سکونی پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں جبکہ دہشت گرد اسی افراتفری اور بے سکونی کا فائدہ اٹھا کر وار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے واقعات کے پیچھے بھی یہی محرک کارفرما تھے۔ یقینا فوج اپنا کام بہترین طور پر سر انجام دے رہی ہے‘ حکومت بھی پہلے سے زیادہ ہوشیار ہو چکی ہے کیونکہ سی پیک‘ لوڈشیڈنگ کے خاتمے جیسے منصوبے پہلے ہی پائپ لائن میں ہیں‘ اسے معلوم ہے اگر یہ سال خیریت سے گزر گیا تو اگلے سال الیکشن میں یہ بڑے فخر سے کریڈٹ لے سکے گی کہ اس نے ملک میں مکمل طور پر امن بھی قائم کر دیا اور یہ کوئی معمولی کامیابی نہ ہوگی۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہمارا مقابلہ بھارت سے ہے جسے افغانستان کی صورت میں ایک وسیع پناہ گاہ میسر ہے۔ یہ کوئی پینسٹھ یا اکہتر والی جنگ نہیں کہ دونوں لڑے اور واپس چلے گئے۔ روایتی جنگوں میں ناکامی کے بعد بھارت کے پاس اب یہی راستہ ہے کہ وہ بزدلوں کی طرح چھپ کر وار کرے اور ملک میں انتشار و اضطراب کی کیفیت برقرار رکھے۔ملک میں امن کے خواہشمند سبھی ہیں اورسبھی دہشت گردی کی جنگ میں اپنی جانیں بھی دے رہے ہیں ۔یہ جنگ نہ اکیلے فوج جیت سکتی ہے نہ حکومت ‘ جب تک حکومت اور فوج کوعوام کا تعاون حاصل نہیں ہو گاتب تک اس جنگ میں سو فیصد کامیابی ممکن نہیں۔