گزشتہ کالم میں انٹرنیٹ سے آمدن کے بارے میں لکھا تو قارئین کی بڑی تعداد نے خواہش ظاہر کی کہ اس پر مزید لکھوں۔یہ مضمون اس قدر وسیع اور دلچسپ ہے کہ اس پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ۔بہت سے نوجوان جاننا چاہتے تھے کہ کیا یہ واقعی ممکن ہے کہ ہم گھر بیٹھے کمپیوٹر پر کام کر کے ہزاروں لاکھوں کما سکتے ہیں۔ اس بارے میں عرض کر دوں کہ چونکہ یہ شعبہ پاکستان میں نیا ہے اور لوگوں کو اس بارے میں آگاہی نہیں ہے اس لئے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید انٹرنیٹ سے پیسے کمانا ممکن نہیں اور یہ فرضی کہانیاں ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو حقیقت یہ ہے کہ چند پاکستانی ویب سائٹس تو ایسی ہیں جو انٹرنیٹ کے ذریعے گزشتہ سترہ اٹھارہ برس سے کما رہی ہیں جبکہ آج کل فیس بک اور یوٹیوب نے تو ہر فرد کو یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ بھی یہ کام کر سکے۔اس وقت جو غیرملکی ویب سائٹ بلاگ سے سب سے زیادہ پیسے کما رہی ہے وہ ہفنگٹن پوسٹ ہے ۔ اس کی مالک آریانہ ہفنگٹن ہیں اور اس کی آمدنی 23لاکھ تیس ہزار ڈالر یا پچیس کروڑ روپے ماہانہ ہے۔دوسرے نمبر پر ٹیک کرنچ ہے۔ اس کا مالک مائیکل ایرینگٹن ماہانہ آٹھ لاکھ ڈالر یا آٹھ کروڑ روپے کما رہا ہے۔ اگر آپ پاکستانی ویب سائٹس کے بارے میں جاننے کے متمنی ہیں تو الیکسا ڈاٹ کام پر جا کر رینکنگ دیکھیں اور جو پاکستانی ویب سائٹس دنیا کی پہلی ایک ہزار ویب سائٹس میں موجود ہیں‘ ان کے بارے میں اتنا سمجھ لیں کہ وہ ماہانہ کم از کم پچاس لاکھ سے ایک کروڑروپے تک کما رہی ہیں۔ یہ ویب سائٹس سوشل میڈیا پر اپنی تشہیری مہم چلاتی ہیں‘ وہاں اپنی خبریں اور دیگر مواد شیئر کرتی ہیں جس کے بعد فیس بک اور ٹوئٹر وغیرہ پر ان کا مواد پھیل جاتا ہے۔لوگ یہ چیزیں ایک دوسرے کو فارورڈ کرتے رہتے ہیں جس سے ویب سائٹس پر ٹریفک بڑھتی ہے۔ ٹریفک بڑھنے سے ویب سائٹ کے صفحات اور امپریشنز میں اضافہ ہوتا ہے اور نتیجتاًآمدنی بھی بڑھتی ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ انٹرنیٹ سے کمائی بغیر ہاتھ ہلائے ہو جاتی ہے۔ یہ تاثر درست نہیں۔ جس طرح عام کاروبار میں لوازمات کا خیال رکھنا پڑتا ہے‘ اسی طرح اس میدان میں بھی مسلسل توجہ‘ وقت اور محنت درکارہوتی ہے۔اگر آپ اس پر روزانہ ایک گھنٹہ دیں گے اور باقی وقت فیس بک یا یوٹیوب پر چیزیں دیکھنے میں گزار دیں گے تو آپ ایک روپیہ بھی نہیں کما پائیں گے۔
ویب سائٹس سے آمدنی ان پر موجود گوگل یا دیگر کمپنیوں کے اشتہارات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ایک ہزار لوگ کسی ایک اشتہار پر کلک کرتے ہیں تو اکائونٹ میں تقریباً ایک ڈالر کا اضافہ ہو جاتا ہے۔کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی ویڈیو ایک لاکھ لوگوں نے دیکھ لی تو انہیں اس حساب سے ڈالر بھی آئیں گے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ یوٹیوب پر ویڈیو کے دوران جو اشتہار چلتے ہیں اگر پندرہ یا تیس سیکنڈ کا اشتہار کوئی صارف مکمل دیکھے گا تب ہی یوٹیوب چینل کے مالک کے اکائونٹ میں کچھ پیسے آئیں گے۔ صرف ویڈیوز دیکھنے والوں کی تعداد سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب تک لوگ اشتہارات کو کلک نہیں کریں گے تب تک بات نہیں بنے گی۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ پاکستانی چونکہ دو نمبری کرنے میں ماہر ہیں اس لئے ہمارے ذہن میں یہ خیال آ سکتا ہے کہ اگر ویڈیوز کو دیکھ کر یا اشتہارات کو کلک کر کے پیسے کمائے جا سکتے ہیں تو یہ کون سا مشکل کام ہے۔ ہم خود ہی بیٹھ کر ان اشتہارات کو بار بار کلک کرنا شروع کر دیں تو اس طرح ایک دن میں ہزاروں ڈالر کما لیں گے تو اس بھول میں مت رہیے۔ جنہوں نے یہ انٹرنیٹ بنایا ہے وہ کوئی بیوقوف نہیں ہیں۔ انہوں نے ہر چیز کا توڑ رکھا ہے۔ آپ جب انٹرنیٹ پر جاتے ہیں تو آپ کی چند معلومات بھی ساتھ ہی شیئر ہوجاتی ہیں۔ ان میں سب سے اہم آپ کے زیراستعمال انٹرنیٹ کا آئی پی ایڈریس ہوتا ہے۔ یہ آئی پی ایڈریس ہی ہوتا ہے جس کے ذریعے سائبر کرائم والے انٹرنیٹ پر جرائم کرنے والوں کے گھروں تک پہنچ جاتے ہیں۔ اگر آپ ایک ہی آئی پی ایڈریس سے بار بار کلک کریں گے تو گوگل والے آپ کا اکائونٹ ہمیشہ کے لئے بند کر دیں گے اور آپ کے اکائونٹ میں موجود رقم بھی ضبط ہو جائے گی۔ اگر آپ جعلی آئی پیز کے ذریعے کوشش کریں گے اور دیگر
ممالک کے آئی پی استعمال کر کے اشتہارات پر کلک کریں گے تب بھی آپ کسی نہ کسی جگہ پکڑے جائیں گے اور گوگل ایڈ سینس آپ کو بتا دے گا کہ آپ کے اکائونٹ پر فلاں مرتبہ فلاں جگہ سے مشتبہ حرکات نوٹ کی گئی ہیں اور آپ ہکے بکے رہ جائیں گے۔فیس بک پر آمدنی Affiliateپروگرامز سے ہوتی ہے جو مختلف ویب سائٹس آفر کرتی ہیں۔ آپ فیس بک پیج بنانے کے بعد Affiliateپروگرامز کے لئے اپلائی کرتے ہیں۔ آپ کی پوسٹ جتنی زیادہ دلچسپ ہو گی اور لوگ جتنا زیادہ اس کو شیئر کریں گے اس پر موجود اشتہارات اتنی زیادہ مرتبہ کھلیں گے اور ان پر کلک کرنے کے مواقع بھی بڑھیں گے۔ یہاں بھی یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آپ کی خود کی گئی کلکس آپ کے اکائونٹ کی بندش کا باعث بن سکتی ہیں۔
یوٹیوب اس وقت انٹرنیٹ سے آمدنی کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔ اس کے لئے آپ کو سب سے پہلے اپنا اکائونٹ بنانا پڑتا ہے۔اس کے بعد آپ اس میں ویڈیو اپ لوڈ کرتے ہیں۔ یوٹیوب ان ویڈیوز پر اشتہارات دیتا ہے جو آپ نے خود بنائی ہوں۔آپ اپنے علاقے کی سیرگاہوں‘ شاپنگ مرکز‘ ہوٹلز اور عوامی تقریبات کی دلچسپ ویڈیوز بنا سکتے ہیں‘ آپ تعلیم کے موضوع پر ای لیکچر دے سکتے ہیں‘ آپ گھر کی دیواروں کو خود پینٹ کرنے کا طریقہ بتا سکتے ہیں‘ گاڑی کی ٹیوننگ کرنا سکھا سکتے ہیں‘ گاڑیوں کے نئے ماڈلز اور دیگر گاڑیوں کا موازنہ بتا سکتے ہیں‘ کسی موبائل کا لاک کوڈ کھولنے کا طریقہ بتا سکتے ہیں‘ نئے موبائلز کے بارے میں ری ویو دے سکتے ہیں‘ اپنے ملک کی بڑی خبروں پر تجزیہ کر کے ویڈیو بنا سکتے ہیں‘ پھلوں اور سبزیوں کے فوائد بارے بتا سکتے ہیں‘ میڈیکل سائنس‘ انجینئرنگ‘ معاشیات‘ ٹیکنالوجی‘ گلیمر‘ باغبانی جیسے ہزاروں موضوعات ایسے ہیں جن پر آپ ویڈیو بنا کر اپ لوڈ کر سکتے ہیں۔ویڈیو اپ لوڈ کرنے کے بعد آپ اسے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ جو لوگ کمنٹس دیں ان کا فوری جواب دیں۔اس طرح لوگوں کے انٹرایکشن میں اضافہ ہو گا۔آمدنی شروع کرنے کے لئے آپ کو اپنا اکائونٹ گوگل ایڈ سینس کے ساتھ لنک کرنا پڑے گا۔اٹھارہ برس یا اس سے اوپر کے صارف یہ سروس حاصل کر سکتے ہیں۔یہاں آپ کو پے پال اکائونٹ یا اپنے بینک اکائونٹ کی ضروری معلومات دینا ہوں گی تاکہ جب یوٹیوب کے اکائونٹ میں پیسے آئیں تو وہ آپ کے بینک اکائونٹ میں ٹرانسفر کئے جا سکیں۔یو ٹیوب اکائونٹ میں آپ اپنی ویڈیوز سے متعلق تمام تفصیلات دیکھ سکتے ہیں کہ کتنے لوگوں نے ویڈیوز کو لائیک کیا‘ کتنوں نے اشتہارات پر کلک کیا وغیرہ وغیرہ۔
موبائل فون انڈسٹری کی تیزی سے پھیلتی صنعت نے اب موبائل فون کو بھی آمدنی کا بڑا ذریعہ بنا دیا ہے۔موبائل فون پر ہم جو ایپس ڈائون لوڈ کرتے ہیں انہیں بنانے والے بھی پیسے کماتے ہیں۔ بہت سی کمپنیاں صرف ایپس بنانے کے لئے بھی پیسے دیتی ہیں ۔ گوگل کے اشتہارات ان موبائل ایپس پر بھی چلتے ہیں ۔ کئی ایپس لاکھوں کی تعداد میں ڈائون لوڈ ہوتی ہیں‘ ان پر کمنٹس بھی ہزاروں میں ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان سے خاطر خواہ آمدنی بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ وہ ایپس زیادہ مقبول ہوتی ہے جو لوگوں کی ضرورت بن جاتی ہے۔ واٹس ایپ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہ اب ہر فرد کی ضرورت ہے۔ اسے یاہو کے دو سابق ملازمین نے آج سے آٹھ برس قبل بنایا تھا۔دو ہزار چودہ میں فیس بک نے واٹس ایپ کو چودہ بلین ڈالر میں خرید لیا جو اس کی اب تک کی سب سے بڑی خرید تھی۔پاکستانی بھی ایپس بنا رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی ایپ عالمی مقبولیت حاصل نہیں کر سکی۔ کریم ٹیکسی کی ایپ البتہ خاصی مقبول ہوئی ہے۔یہ بین الاقوامی کمپنی اوبر کی طرز پر چل رہی ہے جس سے فون پر چند منٹ میں ٹیکسی منگوائی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت آئی ٹی کے میدان میں کام کر رہے ہیں۔ حکومت اور تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ انٹرنیٹ سے آمدنی کو نصاب کا حصہ بنائیں کیونکہ بھارت اور دیگر ممالک اس سے اربوں ڈالر زرمبادلہ کما رہے ہیں اور ہم لوگ ابھی تک اس مخمصے میں پڑے ہیں کہ پتہ نہیں انٹرنیٹ سے کمائی ہوتی بھی ہے یا نہیں!