ہم موبائل فون میں جب بھی کوئی گیم‘ کوئی ایپ انسٹال کرتے ہیں تو سکرین پر لکھا آتا ہے‘ اس ایپ کو فون کی تصاویر، فون نمبرز، لوکیشن وغیرہ تک بھی رسائی درکار ہے۔ کیا آپ اجازت دیں گے؟ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ ہم جلدی جلدی یس یس کر کے آگے بڑھتے جاتے ہیں ‘ایپ انسٹال کر لیتے ہیں اور اس کے بعد یوں فخر کرتے ہیں گویا جنت کا ٹکٹ خرید لیا ہو۔ موبائل ایپ انسٹال کرنے کے بعد وہی ہوتا ہے جو کسی شیر کے پنجرے میں نہتے انسان کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر شیر نے ہی کرنا ہے جو کرنا ہے۔ موبائل فون ایپ کے ذریعے ہمارے فون سے معلومات نکل کر ایف بی آئی کے پاس پہنچ جاتی ہیں اور ہم ایکسپوز ہو جاتے ہیں۔
وکی لیکس نے انکشاف کیا ہے کہ ہمارے موبائل فون ، کمپیوٹرز اور سمارٹ ٹی وی ہماری جاسوسی کر رہے ہیں‘امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے سام سنگ‘ ایپل اور مائیکروسافٹ جیسی کمپنیوں کو منہ مانگی رشوت دے رکھی ہے جس کے عوض وہ اپنے تکنیکی نظام میں ایسی کمزوریاں باقی رکھتے ہیں جن میں نقب لگا کر سی آئی اے کے لوگ دنیا بھر کے اداروں اور عام افراد کے موبائل فون اور کمپیوٹرز تک نہ صرف رسائی حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ان کی نقل و حرکت کی باقاعدہ مانیٹرنگ کر سکتے ہیں۔ یہ انکشافات کوئی نئے نہیں۔ سائبر سکیورٹی کا مسئلہ ازل سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔یہ ایپس دراصل امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی دلالی کررہی ہیں اور ہمارے موبائل فون یا کمپیوٹر میں جس ڈیٹا کو ہم محفوظ سمجھتے ہیں اسے لے اُڑتی ہیں۔انہی کالموں میں کئی مرتبہ ان خدشات کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ قومی شخصیات اور دفاعی ماہرین کو اس سلسلے میں خاص احتیاط برتنی چاہیے ۔عام لوگوں کی طرح اگر سکیورٹی ادارے اور ان کے افسران بھی جی میل جیسے اکائونٹ استعمال کریں گے ‘ اپنا ڈیٹا جی میل یا سام سنگ کلائوڈ میں محفوظ کریں گے یا اپنے فون میں بات چیت کیلئے سکائپ اور فیس بک میسنجر استعمال کریں گے تو ان کی کوئی بھی معلومات خفیہ نہیں رہیں گی۔ سی آئی اے کا خاص نشانہ ہر ملک کے سکیورٹی ادارے‘ حکومتی سربراہان اور تھنک ٹینک ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دہشت گردی کے تناظر میں کمپیوٹر زاور موبائل فون ڈیٹا کی سکیننگ کرتے رہتے ہیں اور اس کا مقصد دنیا کو نہیں بلکہ صرف اور صرف امریکہ اور امریکی عوام کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی کلیئرنگ کے بغیر کوئی بڑی ایپ‘کمپیوٹر یا موبائل کا نظام لانچ نہیں ہو سکتا ۔ہم میں سے کسی نے کبھی نہیں سوچا کہ ہمیں وٹس ایپ وغیرہ بالکل مفت کیوں مل رہا ہے۔ وٹس ایپ تو اشتہار بھی نہیں چلاتا‘ پھر یہ کیسے زندہ ہے اور وٹس ایپ اور جی میل جیسی ایپس اربوں صارفین کو بالکل مفت سروسز کیسے فراہم کر رہی ہیں؟ جواب بڑا سادہ ہے۔ وہ ہماری قیمت سے واقف ہیں۔ ہم ہر بہترین سروس مفت لینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں وٹس ایپ جیسی سروسز تو مفت دے دیں لیکن بدلے میں ہماری بیش قیمت پرائیویسی کو خرید لیا۔ اب اس میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ آئی ٹی کے عالمی اداروں کو امریکی خفیہ ایجنسی کی طرف سے ایپس چلانے کی مد میں بھاری امداد ملتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کے ساتھ رجسٹرڈ ہوں اور امریکہ کے شکنجے میں آ سکیں۔
اس وقت فیس بک کے ایک ارب چھیاسی کروڑ‘وٹس ایپ کے سوا ارب اور سکائپ کے چوہتر کروڑصارفین ہیں۔اسی طرح ایک ارب چالیس کروڑ لوگ اینڈرائڈ موبائل فون جبکہ ساٹھ کروڑ ایپل فون استعمال کر رہے ہیں۔ ہم جی میل کی مثال لے لیتے ہیں۔ جی میل پر ایک ارب صارفین کے اکائونٹس ہیں۔یہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ای میل سروس ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ یہ بہت زیادہ فری سپیس دیتی ہے‘ اسے استعمال کرنا آسان ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے ساتھ گوگل کا ٹیگ لگا ہے۔ جی میل کے ڈیٹا سرور امریکہ میں موجود ہیں اور جی میل پر ہونے والی ہر ایکٹیوٹی پر سی آئی اے کی نظر ہے۔ ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم نے پاس ورڈ لگا رکھا ہے اس لئے یہ محفوظ ہے جو ہماری غلط فہمی ہے۔ بات جی میل تک نہیں رہی۔ وکی لیکس کے مطابق اب ہماری نقل و حرکت کیمروں کے ذریعے مانیٹر کی جا سکتی ہے اور یہ کام ہمارے موبائل فونز اور سمارٹ ٹی وی انجام دیتے ہیں۔ فیس بک کے ذریعے صارفین کی غیر اعلانیہ آڈیوریکارڈنگ بھی کی جا رہی ہے۔حتیٰ کہ موبائل فون بند بھی ہو تب بھی ریکارڈنگ ہوتی ہے۔جن گھروں اور بیڈ رومز میں سمارٹ ٹی وی ہیں ان کے ساتھ اگر کیمرہ لگا ہے تو وہ اور زیادہ محتاط رہیں کیونکہ صرف ٹی وی کو ریموٹ سے بند کرنے سے بات نہیں بنے گی بلکہ جب تک ٹی وی کی تار نہیں نکالیں گے اور کیمرے کے آگے ٹیپ نہیں لگائیں گے‘ اس وقت تک آڈیو اور ویڈیو کہیں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ہمارے خیال میں ویڈیو چیٹ تب ہوتی ہے جب ہم کسی عزیز کو ویڈیو کال ملاتے ہیں لیکن سی آئی اے یہ کام کسی اور طرح بھی کر سکتی ہے۔ اس کیلئے آپ کے موبائل فون میں سکائپ یا کوئی اور ویڈیو چیٹ سافٹ ویئر انسٹال ہونا چاہیے ، جب بھی آپ کاموبائل فون انٹرنیٹ سے منسلک ہو گا تو سی آئی اے کے جاسوس آپ کے موبائل فون میں موجود سکائپ سے خفیہ کال ملا سکتے ہیں جو بظاہر نظر نہیں آئے گی لیکن وہ اس سے آپ کے فون میں گھس جائیں گے اور فون کیمرے سے آپ کی ویڈیو اور آواز لے سکیں گے۔ جاسوسی سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سوتے وقت موبائل کا وائی فائی بند کر دیا جائے کیونکہ اکثر لوگ رات کو سونے سے قبل فون چارجنگ پر لگا دیتے ہیں، انٹرنیٹ آن ہوتا ہے جس کے بعد اینڈرائڈ فون کا سارے دن کا ریکارڈ اپ لوڈ ہو جاتا ہے۔یہ کام سی آئی اے کے علاوہ ہیکرز بھی کر سکتے ہیں چنانچہ عام لوگوں کو بھی محتاط رہنا چاہیے۔ جن لوگوں کو ان خبروں پر یقین نہیں آ رہا وہ ٹرو کالر جیسی ایپس استعمال کر کے دیکھ لیں‘ اس سے آپ کسی بھی موبائل نمبر کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور اس کے مالک کا نام‘ اس کی لوکیشن‘ اس کی تصویر اور اس کی ای میل وغیرہ معلوم کر سکتے ہیں۔ یہاں سے اندازہ کر لیں کہ ایک مفت ایپ کے ذریعے اگر ہم یہ سب جان سکتے ہیں تو پھر سی آئی اے کیا کچھ نہیں کر سکتی۔
اگر ہم نے کبھی قرآن کا ترجمہ غور سے پڑھا ہو تو ہمیں یہ انکشافات‘ انکشافات نہ لگیں۔ یہ انکشافات دراصل ہمارے ایمان کے لئے ٹیسٹ کیس ہیں۔ جب قرآن میں اللہ فرماتا ہے کہ میں تمہاری شہ رگ سے قریب ہوں، جب وہ کہتا ہے کہ ہر چیز ایک دفتر میں درج کی جا رہی ہے‘ جب وہ بتاتا ہے کہ روزِ قیامت ہمارا اعمال نامہ ہمیں تھما دیا جائے گا اور جب وہ کہتا ہے کہ اس کی نظروں سے ہمارا کوئی عمل بھی اوجھل نہیں اور ہماری ہر حرکت ریکارڈ ہو رہی ہے تو تب ہمیں پوری طرح یقین نہیں آتا‘ تب ہم دل سے ایمان نہیں لاتے لیکن آج وکی لیکس جب انکشاف کر رہا ہے کہ سی آئی اے امریکہ میں بیٹھ کر ہزاروں کلومیٹر دور بند کمرے میں ہمارے بند موبائل فون سے ہمیں دیکھ اور سن سکتی ہے تو ہمیں پسینہ آنے لگتا ہے‘ ہماری گھگی بندھ جاتی ہے۔ ذرا سوچیں اگر ہم امریکی خفیہ ادارے کے ڈر سے موبائل فون پر کسی منفی سرگرمی سے باز رہ سکتے ہیں تو کسی بند کمرے میں کوئی گناہ کرتے وقت‘ کسی کا حق مارتے وقت اور کسی پر ظلم کرتے وقت کیوں نہیں سوچتے کہ وہ ذات ہمیں دیکھ رہی ہے جس نے مچھلی کے پیٹ میں بھی جناب یونس ؑ کی فریاد سن لی تھی۔