پی ٹی آئی دھرنے کے دوران مجھے اسلام آبادسے دنیا نیوز کے سابق بیوروچیف محمد کامران خان کا فون آیا۔ انہوں نے کہا‘ آپ کے کالم کی فوٹوکاپیاں دھرنے میں بانٹی جا رہی ہیں‘ آپ ٹی وی لگا کر دیکھیں ابھی بھی خبر چل رہی ہے۔ میں نے کالم میں لکھا تھا‘ دھرنے کے جو مقاصد عمران خان لے کر آئے‘ ان میں وہ کامیاب ہوں نہ ہوں لیکن ایک چیز میں وہ کامیاب ہو گئے ہیں‘ انہوں نے عوام کو جگا دیا ہے‘ عوام کو بتا دیا ہے ان کے حقوق کیا ہیں ‘ انہیں کیوں غصب کیا گیا ہے اور کیسے انہیں حاصل کرنا ہے۔ دھرنے کے بعد جب اچانک عمران خان نے شادی کر لی اور اس کے بعد جب میں نے خان صاحب کے اہم ترین فیصلوں کی غلط ٹائمنگ پر چند تنقیدی کالم لکھے تو تحریک انصاف کی وہی میڈیا ٹیم جو دھرنوں میں میری کاپیاں بانٹتی تھی‘ اس نے توپوں کا رُخ میری طرف کر دیا اور مجھے پارٹی کی تقریبات وغیرہ میں بلانا بھی کم کر دیا۔سوشل میڈیا پر بھی ایسا ہی ردعمل آیا۔اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف ہی وہ واحد جماعت ہے جو سٹیٹس کو کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہے اور اگر یہ اپنی حکمت عملی ‘ پالیسی اور انداز سیاست میں تبدیلی لے آئے تو آئندہ الیکشن میں اس کی کامیابی یقینی ہے۔
تحریک انصاف کا سب سے بڑا مسئلہ اس کی ترجمانی کا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کا پارٹی ترجمان لگاتے وقت عموماً ایسے حاضر دماغ شخص کا انتخاب کیا جاتا ہے جو پارٹی کا بہترین انداز میں دفاع کر سکتا ہو۔ یہ عہدہ ایسے شخص کو دیا جاتا ہے جس کے تعلقات ‘نظریات اور حلقہ احباب کا دائرہ وسیع ہو‘ جو مشکل ترین حالات میں میڈیا اور سیاسی مخالفین کو دلائل اور ٹھوس حقائق کے ساتھ ہینڈل کرنا جانتا ہو اور جسے یہ معلوم ہو کہ کس ایشو پر پارٹی کا موقف کس انداز میں پیش کرنا ہے۔ معاملہ فہم‘ دور اندیش اور ٹھنڈے مزاج والا شخص بہترین ترجمان ثابت ہوتا ہے۔ محمد علی درانی اس کی بہترین مثال ہیں۔ ان سے ہمیں لاکھ اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن جن حالات اور ایشوز پر انہوں نے ق لیگ کی ترجمانی کی‘ ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ایک مہینہ نہ نکال پاتا۔ لال مسجدسے لے کر افتخار چودھری تک انہوں نے ہر موقع پر تحمل کا مظاہرہ کیا ۔ کسی موقع پر بھی ہائپر ہوئے نہ ہی میدان چھوڑ کر بھاگے۔ دوسرے نمبر پر قمر زمان کائرہ ہیں۔ کائرہ صاحب عوام اورمیڈیا کی نبض بخوبی جانتے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے گزشتہ دور حکومت میں کرپشن کے جتنے سکینڈل اپنے ماتھے پر سجائے‘شاید ہی اتنے انہوں نے اس سے قبل اپنی سارے ادوار حکومت میں سجائے ہوں گے۔ تب بھی لوڈشیڈنگ ایسے ہی ہوتی تھی‘ غربت اور بیروزگاری اس سے زیادہ تھی‘ دہشت گردی اور دھماکے معمول بن چکے تھے ‘ تاہم کائرہ صاحب نے کبھی شائستگی اوربرداشت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا ۔ تیسرے نمبر پر پرویز رشید ہیں۔ ان کی کاٹ دار گفتگو اور نوک دار جملے تحریک انصاف اب بھی اپنے بدن پر محسوس کرتی ہوگی۔ پرویز رشید نیوز لیکس سکینڈل میں رن آئوٹ نہ ہوتے تو شاید آج بھی پاناما سے لے کر لوڈشیڈنگ تک کا موثر دفاع کر رہے ہوتے۔ اگرچہ وہ کبھی کبھی ضرورت سے زیادہ تیز دھار بیان دے ڈالتے لیکن کائرہ صاحب کی طرح ایک سیاسی ورکر کی زندگی گزارنے کا فائدہ انہیں یہ ہوا کہ وہ مخالف فریق کی کڑوی باتیں سننا اور ان کا دھیما لیکن موثر جواب دینا سیکھ گئے۔ ن لیگ کے ڈاکٹر مصدق ملک اگرچہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پانی و بجلی اور ترجمان وزیراعظم ہائوس کے طور پر کام کر رہے ہیں لیکن وہ ہر سخت سوال اور تنقید کا جواب اتنی ہی زیادہ مسکراہٹ کے ساتھ دیتے ہیں۔ممکن ہے کبھی انہیں انفارمیشن منسٹر کی ذمہ داری مل جائے۔ پی ٹی آئی کے نعیم الحق البتہ بادشاہ آدمی ہیں۔ چند برس قبل ایک ٹی وی ٹاک شو میں انہوں نے اپنے شریک مہمان کی طرف پانی سے بھرا گلاس اُچھال دیا تھا۔ قریب تھا کہ دونوں مہمان پنجہ آزمائی کرتے ہوئے ایک دوسرے کا بھرکس نکال دیتے‘ سٹوڈیو سٹاف نے بیچ بچائو کرا دیا تاہم یہ لائیو شو تھا جس کی وجہ سے ریکارڈنگ انٹرنیٹ پر بھی پہنچ گئی اور آج بھی یوٹیوب پر موجود ہے۔ غالب امکان ہے کہ نعیم صاحب کی یہ ادا تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو بھا گئی اور انہیں پاکستان کی مقبول ترین پارٹی کا مرکزی ترجمان بنا نے کی وجہ بنی۔ وہ اب بھی بات بات پر غصے میں آ جاتے ہیں اور مخالف پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے باہر نعیم الحق اور عوامی تحریک کے خرم نواز گنڈا پور
کے درمیان تلخ کلامی اور گالم گلوچ ابھی کل کی بات ہے اور اب 2013ء کے الیکشن کے حوالے سے دھاندلی کے تازہ الزامات لگا کر نعیم الحق نے ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ پارٹی ترجمان کے عہدے کے اہل تھے نہ ہی حقدار۔ انہوں نے حالیہ بیان ایک تخیلاتی مضمون پر دیا اور یہ بھی نہ دیکھا کہ یہ ایک فرضی کہانی تھی۔اس بیان سے دو روز قبل جنرل قمر جاوید باجوہ اور عمران خان کی ملاقات ہوئی تھی اور اس سے جو آفٹر شاکس آئے وہ ان جھٹکوں میں شدت پیدا کر گئے جو ن لیگ پاناما فیصلے سے قبل محسوس کر رہی ہے۔ اس ملاقات کے بارے میں قریب ترین قیاس آرائی یہی ہو سکتی ہے کہ خان صاحب اب پاناما ایشو پر کوئی بھی فیصلہ آنے پر بچگانہ سیاست کا مظاہرہ نہیں کریں گے بلکہ فوج اور دیگر سٹیک ہولڈرز جن میں عالمی ممالک بھی شامل ہیں‘ کے ساتھ بنا کر رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے تاکہ فوج کی تمام تر توجہ آپریشن ردالفساد پر رہے اور ملکی سیاسی فضا کا درجہ حرارت بھی قابو سے باہر نہ جائے۔
یہ بھی حقیقت ہے پاناما فیصلے کا سب سے زیادہ فائدہ تحریک انصاف کو ہو گا کیونکہ عمران خان نے جس مستقل مزاجی سے اس ایشو کو اٹھایا اس سے صرف نظر ممکن نہیں۔ حکمران جماعت خود کو بچانے کیلئے ایک بار پھر پیپلزپارٹی کی طرف دیکھنے پر مجبور ہے۔ حالیہ نورا کشتی اسی کا محرک ہے۔ یہ دونوں کبھی نہیں چاہیں گے کہ تحریک انصاف اقتدار میں آئے اور ان کا احتساب شروع کر دے۔ کرپشن کی گنگا میں دونوں جماعتوں نے کھل کر اشنان کیا ہے اور حساب دینے کا وقت قریب آ رہا ہے۔ تحریک انصاف اگر چہ مقبولیت کے لحاظ سے مقبول ترین جماعت ہے تاہم بدنظمی میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ بدنظمی برقرار رہی تو یہ جیتی ہوئی جنگ ہار جائے گی۔ آئندہ الیکشن میں اسے ٹکٹوں کی تقسیم میں خاص احتیاط برتنا ہو گی۔ ماضی کی غلطیاں دہرانے کا مطلب اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا ہے۔زمینی حقائق اور الیکشن سائنس کی بات کریں تو ن لیگ کا توڑ ابھی تک نہیں نکالا جا سکا۔ یہ تمام جماعتوں سے زیادہ ماہر اور تجربہ کار ہے۔ تحریک انصاف نے اس طرف توجہ دینے کی کبھی زحمت گوارا نہیں کی۔ پیپلزپارٹی اب قصہ ماضی ہے۔ یہ ن لیگ کی بی ٹیم بن چکی اور اس کا واحد سہارا میڈیا ہے جس کے ذریعے زرداری اور بلاول اپنی موجودگی کا احساس دلانے اور پنجاب پر دھاوا بولنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔یہ کچھ بھی کر لیں‘ پاناما فیصلے اور پی ٹی آئی کی آئندہ حکمت عملی سے ہی نیا سیاسی منظر نامہ تشکیل پائے گا۔ آئندہ الیکشن اب مہینوں کی بات ہے۔ پی ٹی آئی نے سیاسی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ اپنی میڈیا مینجمنٹ بہتر کر لی تو الیکشن میں اسے فائدہ ہو گا کیونکہ پاناما فیصلہ کے فوری بعد جلسے جلوس اور الزامات کی سیاست میں تیزی آ جائے گی جس سے پارٹی ترجمان کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جائیں گی۔ نعیم الحق سے کہیں بہتر فواد چودھری ہیں‘ وہ وکیل‘ اینکر اور گہرا سیاسی پس منظر رکھنے کی وجہ سے میڈیا اور سیاسی حریفوں کے ساتھ بہتر انداز میں ڈیل کر سکتے ہیں۔ تحریک انصاف جس کو بھی پارٹی ترجمان بنائے بس یہ سوچ لے کہ ترجمان پارٹی کا چہرہ ہوتا ہے ‘ اگر چہرہ ہی غصے سے لال پیلا اور کرخت نظر آئے گا تو اس سے پارٹی کا سافٹ امیج تو خراب ہو گا ‘پارٹی کی سیاسی جدوجہد پر بھی حرف آئے گا۔