غریب مگر ہونہار طالب علموں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہ جیسے تیسے کر کے سکول کی تعلیم تو مکمل کر لیتے ہیں لیکن اس کے بعد کے مراحل ان کے لئے آسان نہیں ہوتے۔ وہ سخت محنت کر کے میٹرک میں اعلیٰ پوزیشنیں لے لیتے ہیں حتیٰ کہ اپنے اپنے بورڈز میں ٹاپ تک کر جاتے ہیں مگر آگ کا ایک دریا ان کا منتظر ہوتا ہے۔ کالجوں کی فیسیں‘مہنگی کتب‘ہوسٹل اور سفر کے ہوشربا اخراجات ان کے ہوش اڑانے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔بہت کم طلبا ایسے ہوتے ہیں جو اس پل صراط کو عبور کرپاتے ہیں۔ طلبا کی کثیر تعداد ایف ایس سی یا اس کے بعد کسی کالج یا یونیورسٹی میں داخلے کے لئے پراسپیکٹس تک خریدنے کی سکت نہیں رکھتی۔ جیسے تیسے کر کے فارم تو جمع کرا دیا جاتا ہے اور اس کے بعد میرٹ لسٹ میں نام بھی آجاتا ہے لیکن مسئلہ پھر وہی ہوتا ہے کہ ابتدائی فیس کیسے ادا کی جائے۔یہ صرف ایک سمسٹر کی فیس نہیں ہوتی بلکہ اس میں داخلہ فیس‘ سکیورٹی فیس‘ ٹیوشن فیس اور دیگر فیسیں شامل ہوتی ہیں۔ کئی غریب طلبا تو یہاں سے ہی واپسی کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں اور اپنے گائوں یا قصبوں میں جا کر چھوٹی موٹی نوکری کرنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ ایک طرف تو ان پر والدین کا دبائو ہوتا ہے کہ وہ جلداز جلد کچھ کمانے کے قابل ہوں تاکہ گھر کا خرچ چل سکے دوسرا ان کے پاس اتنے اخراجات نہیں ہوتے کہ وہ محدود آمدن میں بچوں کو پروفیشنل تعلیم دلا سکیں۔ طلبا کی ایک قلیل تعداد مگر ایسی بھی ہوتی ہے جو ہار ماننے کو تیار نہیں ہوتی۔ ایسے جنونی طلبا ہر قیمت پر اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنی‘ اپنے خاندان اور ملک کی تقدیر بدلنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ یہ طلبا کسی انجینئرنگ یونیورسٹی یا میڈیکل کالج میں داخل ہونے کو زندگی کا سب سے بڑا خواب سمجھتے ہیں اور اس کی تعبیر پانے کے لئے ہر جتن کرتے ہیں۔ یہ پیسے ادھار پکڑتے ہیں اور جانور اور گھر کا قیمتی سامان تک فروخت کر کے داخلہ فیس جمع کرا تے ہیں اور یوں کسی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ تو لے لیتے ہیں لیکن جیسے ہی اگلے سمسٹر یا اگلے سال کے اخراجات کی ادائی کا وقت آتا ہے‘ ان کے ہاتھ پائوں جواب دے جاتے ہیں۔
ایسے طلبا کے خواب ٹوٹنے اور بکھرنے سے بچانے کے لئے معروف صنعت کار ایس ایم منیر نے آج سے نو برس قبل ایک خواب دیکھا۔ ایس ایم منیر کو پاکستان میں بزنس کمیونٹی کا لیڈر مانا جاتا ہے ‘وہ اس کمیونٹی میں بھائی جان کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ بھائی جان کا تعلق چنیوٹ سے ہے جہاں سے تیس کے قریب چنیوٹی شیخ پاکستان کے پہلے ایک سو معروف اور امیر ترین صنعت کاروں کی فہرست میں شامل ہوئے۔ ایس ایم منیر وزیرمملکت‘کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر‘ نجی بینک کے وائس چیئرمین‘ انڈیا پاکستان چیمبر آف کامرس کے نائب صدر اور درجنوں اہم عہدوں پر فائز رہ چکے۔ کاروبار کا آغاز انہوں نے 1964ء میں چمڑے کی ایکسپورٹ سے کیا۔دو سال بعد ہی مگر انہیں کڑی آزمائش سے گزرنا پڑا‘انہیں کاروبار میں شدید نقصان ہوا‘فیکٹری بند ہو گئی اور قرضے چکانے اور لوگوں کے نقصان پورے کرنے کے لئے انہیں اپنے اثاثے حتیٰ کہ ذاتی استعمال کی گاڑیاں تک بیچنا پڑیں۔ بعدازاں انہوں نے قومی ایئر لائن میں نوکری کے لئے اپلائی کیا تو ان کے والد نے یہ کہہ کر روک دیا کہ اپنا کام کرو چاہے چھوٹا کرو۔ بچے کھچے پیسوں کے ساتھ انہوں نے کراچی میں چمڑے کا چھوٹا سا یونٹ لگایا۔ محنت کے پسینے سے اسے سیراب کیا تو یہ پودا پھل دینے لگا اور چند برسوں میں ہی وہ نہ صرف بحران سے نکل آئے بلکہ ان کا کاروبار یورپ تک پھیل گیا اور وہ 1970ء میں اڑھائی ارب روپے کی سالانہ سیلز کے ساتھ پاکستان کے چمڑے کے سب سے بڑے تاجر بن گئے۔1987ء میں انہوں نے چونیاں میں ٹیکسٹائل مل لگائی تو اس شعبے میں بھی کامیابیاں سمیٹیں۔ آج بھی وہ صبح ٹھیک آٹھ بجے دفتر پہنچ جاتے ہیں اور پانچ بجے تک کام کرتے ہیں۔وہ حکومتوں کی معاشی پالیسیاں بنانے میں معاون بھی رہے لیکن ان کے نزدیک ان کا سب سے بڑا خواب ہونہار نادار طالب علموں کی مالی سپورٹ تھی۔ اس ملک اور اس معاشرے نے انہیں جو عزت‘ مال و دولت اور ترقی دی‘ وہ اسے قرض سمجھتے تھے اور معاشرے کو لوٹانا چاہتے تھے۔ سندھ میں تعلیمی نظام کی بہتری کیلئے انہوں نے سرکاری مشینری کو متحرک کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن سرکاری زنگ آلود مشینری اور افسران کی ہٹ دھرمی کے باعث کامیابی نہ ہوئی۔ مایوس ہونے کی بجائے انہوں نے یہ فریضہ اپنی جیب سے ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور چند دیگر کاروباری افراد کی مشاورت اور معاونت سے ایک فائونڈیشن بنائی جس کا مقصد ایسے بچوں کی حوصلہ افزائی تھاجو سکول سے کالج تو پہنچ جاتے ہیں لیکن اس سے آگے ان کے پر جلتے ہیں۔یہ فائونڈیشن سینکڑوں تعلیمی اداروں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ جب کوئی طالب علم تعلیمی اخراجات ادا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو وہ اپنے تعلیمی ادارے کو ایک درخواست دیتا ہے‘ یہ درخواست پروفیشنل
ایجوکیشن فائونڈیشن کو بھیج دی جاتی ہے۔ اس درخواست کی تصدیق کے لئے ضروری لوازمات پورے کئے جاتے ہیں اور اگر بچے کا تعلیمی ریکارڈ اچھا ہو تو اس کے بقایا تمام سمسٹرز کی فیس یکمشت طالب علم کی بجائے براہ راست تعلیمی ادارے کو ادا کر دی جاتی ہے اور یوں ایک طالب علم بلکہ ایک خاندان کا مستقبل محفوظ ہو جاتا ہے۔یہ دراصل بلا سود قرض ہوتا ہے جو طالب علم جاب حاصل کرنے کے بعد تھوڑا تھوڑا کر کے واپس کر دیتا ہے۔ 2009ء میں اس پروگرام نے 75 طالب علموں کا تعلیمی سفر ٹوٹنے سے بچایا۔ ان نو برسوں میں یہ بارہ سو طالب علموں کو اپنے پائوں پر کھڑا کر چکی ہے۔ ان طالب علموں میں زیادہ تعداد ڈاکٹر‘ انجینئرز اور دیگر پروفیشنل ڈگری ہولڈرز کی ہے ۔ بیشتر بچے برطانیہ اور دیگر ممالک میں زیر تعلیم ہیں اور فارغ التحصیل این ٹی ڈی سی‘ واپڈا‘ سرکاری و نجی ہسپتالوں اور دیگر اعلیٰ اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔یہ وہ بچے تھے جن کے گھر میں کھانے کو دو وقت کی روٹی نہ تھی‘ کسی کا والد کلرک‘ مالی یا مزدور تھا اور کسی کے سر پر والدین کا سایہ تک نہ تھا۔آج یہ چار چار لاکھ روپے ماہانہ مشاہرہ وصول کر رہے ہیں اور بلا سود قرض ماہانہ اقساط میں واپس بھی لوٹا رہے ہیں تاکہ یہ سلسلہ یونہی پھیلتا رہے اور اُن جیسے مزید طالب علم اپنے خوابوں کی تعبیر پا سکیں۔
میری ایس ایم منیر سے ملاقات گزشتہ دنوں ایک تقریب میں ہوئی۔یہ تقریب ان غریب طالب علموں کے اعزاز میں سجائی گئی تھی جو پروفیشنل ایجوکیشن فائونڈیشن کے اس پروگرام کے باعث آج اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو چکے ہیں۔فائونڈیشن کے روح رواں شاہد احمد حکیم‘ حفیظ الحق اور ڈاکٹر شوکت محمودبھی موجود تھے۔ فائونڈیشن سے مستفید ہونے والے تین چار نوجوانوں نے اپنی کہانی سنائی۔ ان میں سے ایک بچی کا نام مجھے یاد نہیں رہا لیکن اس کی کہانی بہت دل سوز تھی۔ آج سے دس برس قبل اس کا باپ ہارٹ اٹیک سے چل بسا۔ اس انتہائی غریب گھرانے میں فاقے تک شروع ہو گئے لیکن آفرین ہے اُس بچی پر کہ جس پر الیکٹریکل انجینئر بننے کی دُھن سوار تھی‘ اس نے انتہائی نامساعد حالات میں عزم و ہمت کی شاندار داستان رقم کی۔ اچھے نمبر حاصل کر کے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں داخلہ لے لیا۔ کسی نے فائونڈیشن کا بتایا تو فیس کی ادائی کا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ یہ بچی آج ڈیڑھ لاکھ ماہانہ تنخواہ لے رہی ہے۔ اس بچی کی کہانی سن کر میرے ساتھ موجود ایس ایم منیر آبدیدہ ہوگئے‘ہال میں موجود افراد نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں اوربچی اور سٹیج پر موجود اس کی والدہ کو خراج تحسین پیش کیا۔
درحقیقت جب ہم کسی طالب علم کی پروفیشنل سطح پر تعلیمی معاونت کرتے ہیں تو آئندہ ایک سو برس کے لئے اپنی آنے والی نسل کی ذہنی‘ فکری اور اخلاقی تربیت کا اہتمام کر رہے ہوتے ہیںکیونکہ آج اگر ایک طالب علم کسی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑ دیتا ہے‘ وہ مایوس ہو کر قلم کی جگہ ہتھیار اٹھا لیتا ہے تو آئندہ ایک سو برس تک اس کی اگلی نسل جہالت‘ غربت اور جرائم کے اندھیروں میں بھٹکتی رہے گی اور اس کے ذمہ دار ہم خود ہوں گے کہ ہم ہر ویک اینڈپر آٹھ دس ہزار کی ہوٹلنگ تو کر لیتے ہیں‘ آئے روز گاڑی اور موبائل فون بھی بدل لیتے ہیں اور اپنے بچوں کی شادیوں پر پچاس پچاس لاکھ خرچ کر دیتے ہیں لیکن کسی غریب طالب علم کی زندگی بدلنے کے لئے چند سو‘ چندہزار خرچنے کو تیار نہیں ہوتے اور اس کے بعد گلہ بھی کرتے ہیں ہماری حالت نہیں بدلتی‘ ہم دنیا سے پیچھے کیوں ہیں!!