تیرہ روزترکی میں رہنے کے بعد ڈاکٹر آصف جاہ گزشتہ دنوں وطن واپس آئے تو ان سے ترکی میں شامی مہاجرین کی صورت حال کے بارے میں تازہ معلومات ملیں۔ڈاکٹرآصف جاہ انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں‘ کئی برس سے ویلفیئر کا کام کر رہے ہیںاور پاکستان سمیت دنیا بھر میں قدرتی آفات‘ بیماریوں اورجنگ و جدل سے متاثرہ علاقوں میں جا کر بھرپور امداد کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ ڈاکٹروں کی پوری ٹیم ہوتی ہے تاکہ متاثرین کی دیگر ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ طبی سہولیات بھی دی جا سکیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق اس وقت برادر ملک ترکی کے عوام انصار مدینہ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔یہ بتا کر انہوں نے حیرت زدہ کر دیا کہ عرفہ کی آبادی سات لاکھ کے قریب ہے اور سات لاکھ شامی مہاجرین ہی عرفہ میں قیام کئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے صرف ڈیڑھ دو لاکھ شہر کے نواحی کیمپوں میں موجود ہیں جبکہ بقیہ پانچ لاکھ کے لئے عرفہ کے عوام نے اپنے گھروں کے دروازے کھول دئیے ہیں۔ یہ ترک عوام کے ایثار و اخوت کی شاندار مثال ہے۔ اس طرح کی ایک مثال ہمارے ہاں ضرب عضب آپریشن کے دوران دیکھنے کو ملی جب شمالی وزیرستان سے بڑی تعداد بنوں پہنچی جہاں لوگوں نے اپنے گھروں کے آدھے کمرے اور پورشن آئی ڈی پیز کے نام کر دئیے۔ ڈاکٹر آصف جاہ ایک سرکاری افسر ہیں لیکن اپنے وقت کا بڑا حصہ انہوں نے انسانیت کی فلاح کیلئے وقف کر رکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ترکی میں تقریباً ہر بیوروکریٹ‘ ہر پارلیمنٹیرین اور ہرمشیر کسی نہ کسی فلاحی تنظیم کے ساتھ رضاکارانہ طور پر منسلک ہے اورشام کو سوشل ورک ضرور کرتا ہے۔چاہے کالج کا ڈین ہو‘پرنسپل ہو یا عام استاد‘ وہ کالج سے واپسی پر ایک گھنٹہ آرام کرے گا اور پھر خیمہ بستیوں میں نکل جائے گا۔بچوں کو پڑھائے گا‘ پانی کی ٹینکی بھرنے میں مدد کرے گا اور اس طرح کے دیگر کاموں میں ہاتھ بٹاکر خوشی محسوس کرے گا۔ ترکی میں شامی مہاجرین کی امداد کے لئے سب سے زیادہ کام ہرات فائونڈیشن کر رہی ہے۔ یہ ترکی کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم ہے۔ یہ عوام کی اخلاقی تربیت بھی کرتی ہے اور سوشل ورک کے ساتھ قرآن پاک ‘حدیث کی تعلیم بھی دیتی ہے ۔ہرات فائونڈیشن کے جتنے بھی ذمہ دار ہیں ان میں کوئی ترکی کے صدر کا مشیر ہے تو کوئی کسی بینک کا سربراہ۔فلاحی کام کرتے ہوئے کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ وہ کس عہدے پر فائز ہے۔ ہر کوئی شام کے وقت سوشل ورک ضرور کرتا ہے۔ شامی مہاجرین بچوں کے لئے جو سکول قائم کئے گئے ہیں وہ دیکھنے کے لائق ہیں۔بہترین فرنیچر ، نئی کتب اور واش روم فائیو سٹار ہوٹل کے مطابق۔ صفائی نصف ایمان ہے کی مثال دیکھنی ہو تو کوئی ترکی میں جا کر دیکھے۔
جو بھی ترکی جاتا ہے وہ ترک لائف سٹائل سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں مثلاً یہ کہ کولڈ ڈرنک وہاں نہیں چلتی۔ نمکین لسی اس کی جگہ عام ہے۔ گھر ہو یا ہوٹل‘ ہر کھانے میں سلاد کا ڈھیر لگا ہوتا ہے۔جرائم کی شرح انتہائی کم ہے۔ ڈاکٹر آصف جاہ کہتے ہیں پہلے دن میرے دو ہزار ڈالر کہیں گر گئے۔ پریشانی ہوئی کہ امانت کے پیسے ہیں۔ چھ دن بعد ہوٹل سے فون آیا کہ پیسے مل گئے ہیں آ کر لے جائیں۔ ترکی کی خوبصورتی کی ایک اور وجہ وہاں کی مساجد ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک مسجد ہر علاقے کی شان بڑھا رہی ہے۔ وہاں کے عظیم معمار سلمان نے تنہا ساڑھے تین سو مساجد ڈیزائن کی ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔ ترکی میں آپ کو اسلام بھی اپنی الگ شکل میں نظر آئے گا۔ خواتین عام طور پر مغربی لباس پہنتی ہیں لیکن وہ مساجد میں بھی باقاعدگی سے جاتی ہیں۔وہاں نئے جانے والوں کو عجیب منظر لگتا ہے کہ جب سکرٹ یا پینٹ شرٹ میں ملبوس کھلے بالوں کے ساتھ ایک لڑکی مسجد میں داخل ہوتی ہے۔ وضو کرتی ہے اور وہاں دیوار سے ایک برقعہ اتار کر پہنتی ہے۔ سر پہ سکارف لیتی ہے اور نماز پڑھنا شروع کر دیتی ہے ۔ نماز کے بعد وہ برقعہ اور سکارف اتارتی ہے اور دوبارہ اپنے مغربی لباس میں معمول کی زندگی گزارنے لگتی ہے۔ ہمارے برعکس ترک عوام اپنی زبان سے پیار کرتے ہیں۔ انگریزی سے انہیں کوئی شغف نہیں۔عربی سے وہ دور ہو چکے ہیں تاہم ان کے ایک معروف بزرگ نے شامی بحران کو دیکھ کر کہا کہ ہم عربی زبان سے دور ہو چکے تھے اسی لئے شاید اللہ نے لاکھوں شامی پناہ گزین ترکی بھیج دئیے تاکہ ہم عربی سیکھ سکیں۔ آپ کو ترک مساجد میں داڑھی والا امام خال خال ہی نظر آئے گا۔چار سال پہلے تک تو وہاں داڑھی رکھنا ہی ممنوع تھا۔ اب البتہ نرمی آ رہی ہے۔ ترکی کو 1923ء سے 1950تک بھی سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا جب عربی رسم الخط ختم کر دیا گیا اور قرآن ا ور اذان تک پر پابندی لگ گئی۔ اذان ترکی زبان میں ہوتی تھی، ایک روز ایک امام نے دل ہی دل میں عربی میں اقامت پڑھ دی‘ معلوم ہونے پر اسے پھانسی دے دی گئی۔
کوئی مسلمان ترکی جائے اور میزبان رسول جناب حضرت ایوب انصاری ؓکے مزار پر حاضری نہ دے‘ یہ ہو نہیں سکتا۔ یہ انتہائی پرسکون جگہ ہے ۔ہروقت زائرین سے بھری رہتی ہے۔ مزار پر کوئی سجدے نہیں کرتا۔ لوگ نوافل پڑھتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں۔ ساتھ ہی مسجد ہے لیکن جمعہ کو اندر جگہ ملتی ہے نہ باہر ۔نبی کریم ﷺ ایوب انصاری ؓ کے گھر چالیس دن رہے۔روایات میں ہے کہ حضرت ایوب کا گھر دو منزلہ گھر تھا۔ پہلے دن آپ ﷺ نیچے اور ایوب انصاری ؓ اور ان کی اہلیہ اوپر والی منزل پر تھیں۔پہلی رات دونوں میاں بیوی جاگتے رہے کہ ہم اوپر ہیں اور اللہ کے رسول ﷺنیچے والی منزل پر‘کہیں بے حرمتی نہ ہو جائے۔اگلے دن صبح کا سورج نکلا تو فوراً آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گزارش کی کہ ہم نیچے آ جاتے ہیں‘ براہ کرم آپ ﷺاوپر تشریف لے آئیں۔قسطنطنیہ پر جو پہلا حملہ ہوا اس کی فوج میں جناب ایوب انصاری ؓ شامل رہے تھے۔آخرمیں آپ ؓبیمار ہو گئے تو آپؓ نے کہا کہ مجھے شہر کی آخری فصیل تک لے جائو۔ وہاں مجھے دفنانا۔ انہیں دفنادیا گیا تو اس وقت کے عیسائی بادشاہ نے مخالف فوج سے کہاکہ فوج کے جانے کے بعد ہم ان کی لاش کی ہڈیاں نکال کر باہر پھینک دیں گے۔اس وقت فوج کا سپہ سالار یزید تھا۔ اس نے للکار کر عیسائی بادشاہ سے کہا کہ اگر تم نے صحابی رسول کی لاش کی بے حرمتی کی تو میں پوری اسلامی سلطنت میں نہ تو کوئی گرجا سلامت چھوڑوں گا نہ کسی عیسائی کو زندہ چھوڑوں گا۔آپ ؓ کی قبر کافی عرصہ اوجھل رہی۔ سنا ہے کسی بزرگ کے خواب میں وہ آئے جس پر اس جگہ کو
کھودا گیا تووہاں ایک تختی لگی ہوئی تھی کہ یہ صحابی رسول کی قبر ہے۔آج کا ترکی بدل رہا ہے۔ مسجدیں آباد ہیں اور نوجوان نسل زیادہ آتی ہے۔ لوگ نماز سے کافی پہلے آتے ہیں اور بعد میں ذکر واذکار کر کے تسلی سے باہر نکلتے ہیں۔
صرف ترکی ہی نہیں مغربی ممالک بھی شامی مہاجرین کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ گزشتہ سال جب کینیڈا میں پہلا فوجی جہاز 163 شامی مہاجرین کو لے کر ٹورنٹو کے پیرسن انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترا تو مسافروں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ملک کا نومنتخب وزیر اعظم بنفس نفیس شدید برف باری کی پروا نہ کرتے ہوئے آدھی رات کو ان کے استقبال کے لئے موجود ہوگا۔تھنک ٹینک پیو ریسرچ سنٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق2011 ء میں شامی صدر بشار الاسد کے خلاف احتجاج کے آغاز سے اب تک ہر 10 میں سے 6 شامیوں کو لڑائی کے سبب اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ان بے گھر افراد میں سے 74 لاکھ افراد اپنے ہی ملک کے دوسرے علاقوں میں جبکہ تقریباً48 لاکھ مہاجرین پڑوسی ممالک میں منتقل ہوئے ، جن میں ترکی میں 27 لاکھ جبکہ لبنان، اردن، مصر اورعراق میں مجموعی طور پر 21 لاکھ مقیم ہیں۔اس طرح تقریباً 50لاکھ سے زائد شامی مشرق وسطیٰ ہی کے مختلف ملکوں میں پناہ گزین کے طور پر رجسٹرڈ ہیں۔ غیر رجسٹرڈ مہاجرین بھی بڑی تعداد میں انہی ملکوں میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کا دعویٰ ہے کہ چالیس لاکھ شامی مہاجرین سعودی عرب میں مقیم ہیں۔
سمندر پر اوندھے منہ پڑے سرخ شرٹ اور نیلی نیکر پہنے مردہ شامی بچے اعلان کردی کی تصویر آج بھی آنکھوں سے نہیں جاتی۔ خدا کرے شامی بحران جلد ختم ہو اور شامی مہاجرین واپس اپنے دیس جا کر آباد ہو سکیں۔