"ACH" (space) message & send to 7575

عمران اور پاناما کیس میں مماثلت ڈھونڈنے والے

گزشتہ شام پریس کانفرنس کے دوران طارق فضل اور دانیال عزیز کو لینے کے دینے پڑ گئے جب صحافیوں نے پمز ہسپتال میں خاتون رپورٹر کے ساتھ ایف آئی اے اہلکارو دیگر کے ناروا سلوک پر احتجاج شروع کر دیا۔ طارق فضل اور دانیال عزیز جو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی کلاس لینے کے لئے بڑی تیاری کر کے آئے تھے خود اپنے دفاع پر مجبور ہو گئے۔ ایک روز قبل پمز ہسپتال میں سابق ایس ای سی پی چیئرمین ظفر بخاری کی کوریج سے روکنے پر ان کے اہلخانہ اور دیگر افراد نے میڈیا ورکرز کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا‘ ان کے کیمرے توڑے حتیٰ کہ خاتون رپورٹر کو بازو سے پکڑ کر دھکے دئیے۔ صحافیوں نے لیگی رہنما ئوں کو باور کرایا کہ اگر مریم نواز قوم کی بیٹی ہیں تو پھر وہ خاتون رپورٹر بھی کسی کی بیٹی ہے‘ لیکن اس کی ایف آئی آر درج نہیں کی جا رہی بلکہ الٹا اس سے مرضی کا بیان لکھوانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی طرح ظفر حجازی جس طے شدہ پروگرام کے تحت بیمار ہوئے ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ ایسے مواقع پر اہل خانہ اور وکلا نے پہلے سے بیماری کی درخواستیں تیار کر رکھی ہوتی ہیں کہ جیسے ہی گرفتاری کا حکم آئے‘ فوراً ان کا سہارا لیا جائے تاکہ جیل کی بجائے کسی فائیو سٹار ہسپتال میں امان مل جائے۔ ویسے ظفر حجازی جیسے لوگوں کے لئے جیل بھی فائیو سٹار ہوتی ہیں۔ گزشتہ دنوں کراچی سنٹرل جیل سے اے کلاس قیدیوں کے لئے ایسی ایسی سہولیات اور اشیا برآمد ہوئیں جو شاید ان لوگوں کو عام زندگی میں اپنے گھروں میں بھی میسر نہیں ہوتی ہوں گی۔ حتیٰ کہ کئی لوگ پرندے پالنے کا شوق بھی جیل میں پورا کر رہے تھے۔ ظفر حجازی چاہتے تو وہ بھی جے آئی ٹی کے چھ دلیر ممبران کی طرح با عزت راستہ منتخب کر سکتے تھے۔ اگر ان پر دبائو تھا تو وہ استعفیٰ دے کر ایمانداری کی شاندار مثال قائم کر سکتے تھے۔ اب جو وہ ہسپتالوں اور کورٹ کچہریوں میں ذلیل و خوار ہوں گے تو اس سے ان کی بچی کھچی عزت اور صحت بھی خاک میں مل جائے گی اور رہی بات نوکری کی تو وہ پہلے ہی جا چکی ۔ 
اب آتے ہیں عمران خان کی طرف۔ جو لوگ عمران خان اور شریف خاندان کے کیس کو ایک ہی نظر سے دیکھ رہے ہیں وہ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔شریف خاندان چونکہ عدالت اور جے آئی ٹی میں اپنا کیس لڑنے میں بری طرح ناکام رہا ہے اس لئے اس کی پوری کوشش ہے کہ عمران خان کے کیس کے پیچھے چھپ کر خود کو بچانے کی کوشش کرے اور اس کیس کو سیاسی چال بازیوں اور میڈیا کیمروں اور خبروں کے ذریعے یوں بنا کر پیش کیا جائے گویا شریف خاندان اور عمران خان کا کیس ایک ہی ہے تاکہ پاناما کیس کا اثر زائل ہو اور لوگ یہ کہیں کہ عمران خوامخواہ ان پر الزام لگا رہا ہے۔دونوں کیسز میں بعض جگہوں پر واقعاتی مماثلت تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقتاً یہ دونوں یکسر مختلف ہیں۔ پہلا واضح فرق یہ ہے کہ عمران خان نے جس عرصے کے دوران آف شور کمپنی بنائی اور اس سے لندن میں فلیٹ خریدا‘ اس وقت وہ پبلک آفس ہولڈر نہیں بلکہ ایک عام شہری اور مقبول ترین کھلاڑی کے طور پر زندگی بسر کر رہے تھے۔ لہٰذا اس بات کا دُور دُور تک شائبہ بھی نہیں ہو سکتا اور نہ ہی یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ انہوں نے سرکاری خزانے‘ ترقیاتی منصوبوں یا عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ اِدھر اُدھر کیا ہو۔ جبکہ شریف خاندان گزشتہ تیس برس سے اقتدار میں ہے۔ اس دوران نواز شریف دو مرتبہ وزیراعلیٰ اور تین مرتبہ وزیراعظم بن چکے ہیں‘ ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف تین مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب رہ چکے ہیں‘ حتیٰ کہ نواز شریف کے داماد‘سمدھی‘بھتیجے‘ بھانجے سبھی رکن پارلیمنٹ‘ صوبائی وزیر حتیٰ کہ وفاقی وزیرتک کے عہدوں کے مزے لوٹتے آ رہے ہیں۔ عمران خان آل رائونڈر اور لیجنڈ کھلاڑی رہے۔ انہوں نے 1971ء سے 88ء تک کاؤنٹی کرکٹ کھیلی اور آسٹریلیا میں کیری پیکر سیریز بھی کھیلی۔ آصف اقبال، میانداد، ماجد خان اور ظہیر عباس بھی کیری پیکر میں ان کے ساتھ کھیلتے رہے۔ 1977ء سے 1979ء تک کیری پیکر سے 75 ہزار پاؤنڈز کمائے اور یہ معاہدہ جس نے کیا وہ شخص آج بھی زندہ ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس معاہدے کے ذمہ داران بیس سال سے زیادہ کا ریکارڈ نہیں رکھتے تو اس میں عمران کا کیا قصور ؟۔ دوسری طرف شریف خاندان ہے جنہوں نے منی ٹریل کے طور پر صرف قطری شہزادے کا خط پیش کیا جسے عدالت نے ردی کا ٹکڑا قرار دیا۔تیسرا فرق یہ ہے کہ شریف خاندان نے ساری دولت اٹھا کر بیرون ملک لے جا کر چھپائی جبکہ عمران خان کرکٹ کی ساری کمائی پاکستان لایا اور اس کے پاس واحد اثاثہ لندن کا ایک فلیٹ تھا اسے بھی وہ بیچ کر پیسے وطن لے آیا اور اسے 2002ء کے گوشواروں میں ظاہر تک کر دیا۔ چوتھا فرق بیانات میں تضاد کا ہے۔پانچ برس قبل ثنا بُچہ کے پروگرام میں مریم نواز نے کہا کہ یہ کہاں سے لندن میں میری اور میرے بھائیوں کی پراپرٹیز لے آئے ہیں‘ میری تو لندن میں دُور کی بات‘ پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں ہے۔اسی طرح وزیراعظم نے بھی پارلیمنٹ سے خطاب میں قطر کا ذکر تک نہ کیا اور کہا جناب والا! یہ ہیں وہ ذرائع جن سے لندن کے فلیٹس خریدے گئے اور بعد میں خود ہی سارا کیس قطری شہزادے کی طرف موڑ دیا۔ اسی طرح بیگم کلثوم کا گارڈین کو بیان‘ صدیق الفاروق‘ حسن اور حسین نواز کا ٹی وی بیان سبھی ایکدوسرے سے مختلف ہیں اور اسی لئے یہ ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے کئی سو جھوٹ بول چکے ہیں۔ دوسری جانب عمران خان کی کل جائیداد بنی گالہ ہے۔ لندن فلیٹ وہ بیچ چکا۔ اس کے علاوہ اگر اس کا کچھ ہوتا تو اب تک سامنے آ جاتا۔ نہ اس کے پاس خفیہ جائیداد ہے اس لئے بیانات میں تضاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ شریف خاندان کو زیادہ غصہ اس بات کا ہے کہ پیپلزپارٹی سمیت تمام جماعتیں اس مسئلے کو کبھی نہ اٹھاتیں جس طرح تحریک انصاف نے اٹھایا۔ اسی لئے وہ کبھی عمران کی شادیوں اور کبھی ہسپتال پر حملے کرتے ہیں۔خواجہ آصف ایسوں کو خدا سے ڈرنا چاہیے کہ وہ کینسر جیسی بیماری پر سیاست کرنے سے باز نہیں آتے۔ اگر کسی کو دونوں کا موازنہ ہی کرنا ہے تو پھر صحت کے میدان میں کرے کہ جو خان نے تن تنہا بغیر کسی حکومت میں آئے کیا وہ یہ سارا قبیلہ تیس برس اقتدار میں رہ کر بھی نہ کر سکا۔ سارا شریف خاندان اور اس کے تیس چالیس برس کی حکومت اگر ایک پلڑے میں اور شوکت خانم دوسرے پلڑے میں ڈالا جائے تو خان کا پلڑا بھاری ہو جائے گا کیونکہ شریف خاندان کوئی ایک ہسپتال تک نہ بنا سکا جہاں کسی موذی بیماری یا غریبوں کا مفت علاج ہو سکے۔حالت یہ ہے کہ بڑوں کو چھوڑیں بچوں کا بھی پنجاب میں صرف ایک چلڈرن ہسپتال ہے اور وہ بھی ماڈل ٹائون میں ان کے گھر سے چند گز کے فاصلے پر جہاں دل کی بیماریوں والے بچوں کو سات سات برس بعدکے آپریشن کی تاریخیں دی جا رہی ہیں۔ مجھے خود وہاں کے ایم ایس ڈاکٹر مسعود صادق نے بتایا کہ سالانہ تین چار ہزار بچے دل کی کسی بیماری سے پیدا ہوتے ہیںاور انہیں آپریشن کی فوری ضرورت ہے لیکن یہاں ہزاروں لوگوں ہر روز مایوس واپس لوٹ جاتے ہیں۔ ذرا سوچیں ایک غریب خاندان کوئٹہ سے اپنے جگر گوشے کو گود میں اٹھا کر لاہور آئے اور اسے کہہ دیا جائے کہ پانچ برس بعد آ کر آپریشن کرا لینا تو اس پر کیا بیتتی ہو گی۔ ایسے بچے یونہی ہر سال آپریشن کا انتظار کرتے کرتے موت کی وادی میں اتر جاتے ہیں اور ان کے حکمران لندن میں چھ چھ ارب کے فلیٹ خریدتے پھرتے ہیں اور اس کے بعد بھی یہ کہتے ہیں ہم سے اچھا حکمران کوئی نہیں‘ ہم چوتھی اور پانچویں بار بھی وزیراعظم بنیں گے۔
اگر عدالت عمران خان کے ثبوتوں سے مطمئن نہیں ہو پاتی تو وہ جانے اور عمران خان لیکن اس کا شریف خاندان کی کرپشن سے کیا تعلق؟عمران کی منی ٹریل نامکمل ہونے سے شریف خاندان کیسے بری ہو پائے گا؟ عمران اور پاناما کیس میں مماثلت ڈھونڈنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں‘ ان کی عقلوں پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں