جس کا خدشہ تھا وہی ہوا۔
کیا عدالتی فیصلہ اس طرح تسلیم کیا جاتا ہے کہ فیصلے کے بعد رگڑا دیناشروع کر دو۔ گزشتہ روز سعد رفیق نے جس طرح معزز عدلیہ کے لتے لئے ‘ ا س سے نواز لیگ کا آئندہ لائن آف ایکشن واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ عدالتی فیصلے کو زیادہ سے زیادہ متنازعہ بنایا جائے اور فیصلے کا صرف ایک حصہ نمایاں کیا جائے تاکہ خود کو مظلوم ثابت کیا جا سکے۔ میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا عمران خان اور نواز شریف کے کیس کو ملایا ہی اسی لئے جا رہا ہے تاکہ فیصلے کو متنازعہ بنا کر قبول کرنے سے انکار کر دیا جائے تاکہ مستقبل میں کوئی ایسی جرأت نہ کرے۔اسی لئے اب یہ گردان جاری ہے کہ اگر نواز شریف باسٹھ تریسٹھ میں نہیں بچ سکے تو عمران خان کیوں بچیں گے۔ عمران خان اس لئے بچیں گے کہ انہوں نے اپنے فلیٹ کے حوالے سے ٹی وی پر‘ پارلیمنٹ میں یا عدالت میں متضاد بیانات نہیں دئیے‘ کھلے عام جھوٹ نہیں بولے‘ فلیٹ کی رقم موٹر وے جیسے منصوبوں سے نہیں نکالی‘ یہ نہیں کہا کہ فلیٹ 93ء کی بجائے2006ء میں لئے تھے‘ انہوں نے کیلیبری فونٹ کے ذریعے جعلی دستاویزات نہیں بنائیں‘ انہوں نے بچوں کے نام پر رقم کو چھپایا نہیں‘ عدالت اور جے آئی ٹی کو سبق سکھانے کی دھمکیاں نہیں دیں‘اپنے اثاثے چھپانے کی کوشش نہیں کی‘ ان کا کوئی اقامہ نہیں نکلا‘ صرف انہیں پرانے معاہدے نہیں مل رہے تھے جو ان کے مطابق انہیں مل گئے ہیں اور انہوں نے جمع کرا دئیے ہیں لیکن اس کے باوجود اگر معزز عدالت سمجھتی ہے کہ انہوں نے کسی جگہ کوئی خرابی کی ہے تو ان کے ساتھ قانون کے مطابق معاملہ ہونا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ چونکہ وہ نواز شریف کے سخت ترین حریف ہیں اس لئے انہیں ہر حال میں سیاست کے میدان سے آئوٹ ہونا چاہیے جو ن لیگ کی سب سے بڑی خواہش ہے۔جج فیصلہ کرتے وقت بہت سی چیزیں دیکھتا ہے‘ عادی چور اور کبھی کبھار یا غلطی سے کوئی چیز اٹھانے والے کو کبھی ایک جیسی سزا نہیں ملتی۔ اس وقت اگر سیاست کسی وجہ سے گرم ہے تو عمران خان کی وجہ سے۔ تحریک انصاف اپوزیشن میں نہ ہوتی تو خواجہ آصف کا بیان درست ثابت ہوتا اور لوگ پاناما کو بھول بھال چکے ہوتے۔پیپلزپارٹی ‘ جے یو آئی‘ ایم کیو ایم اور اے این پی جیسی جماعتیں صرف کرپشن کے تحفظ کیلئے پارلیمنٹ میں بیٹھی ہیں۔ ایسی ہی جماعتوں کی شہ پر نواز لیگ تیس برس سے اقتدار میں چلی آ رہی ہے اور گزشتہ روز جس طرح ممکنہ کٹھ پتلی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے سامنے فضل الرحمن جیسے لوگ بچھے چلے جا رہے تھے‘ ایک بار پھر کرپٹ ٹولہ خاندانی اقتدار کو بچانے کے لئے متحد ہو رہا ہے۔
ذرا معصومیت ملاحظہ فرمائیں نواز شریف صاحب فرماتے ہیں مجھے کرپشن پر سزا نہیں ہوئی‘ سزا اس لئے ہوئی کہ میں نے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہیں لی۔جناب والا! بات اتنی سادہ نہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ کوئی کہیں میں جلیبی کی طرح سیدھا ہوں یا پھر یہ کہ کل سورج رات کو نکلا تھا۔ اٹھائیس جولائی کو سپریم کورٹ نے صدیوں یاد رکھے جانے والے فیصلے میں کم سے کم سزا دی جو کسی وزیراعظم کو دی جا سکتی تھی۔ جس طرح کھلے عام تضاد بیانی ‘ جھوٹ اور کرپشن کے سکینڈل سامنے آئے اس تناظر میں تو کہیں سخت سزا بنتی تھی۔ کیا عدالت میں کوئی مجرم ثابت ہو جاتا ہے تو پولیس وہیں ہتھکڑیاں نہیں لگا دیتی ؟ شکر کریں عدالت نے نرم ہاتھ رکھا وگرنہ یہاں جو عام موبائل چور کے ساتھ ہوتا ہے کہ پہلے اسے تھانے میں چھتر لگتے ہیں اس کے بعد پوچھا جاتا ہے کہ بتائو موبائل کہاں ہے؟۔ یہاں تو مال مسروقہ برآمد بھی ہو چکا ہے‘ اسے ملکیت تسلیم بھی کیا جا چکا اور اس کی منی ٹریل بھی نہیں دی گئی تو ایسے میں کوئی عقل کا اندھا ہی اس پراپیگنڈے پر یقین کرے گا کہ انہیں عہدے سے صرف اس لئے ہٹایا گیا کہ بیٹے سے تنخواہ نہیں لی۔ کہا جا رہا ہے ستر برس میں کوئی وزیراعظم پانچ برس پورے نہیں کر سکا۔ تو بھائی ان کی اپنی حرکتیں کہاں اس قابل ہوتی ہیں کہ پانچ برس پورے کر سکیں۔کبھی فوج سے چھیڑ چھاڑ‘ کبھی عدلیہ سے لڑائی‘ کبھی کچھ کبھی کچھ‘ اب بھگتنے کا وقت آیا ہے تودرد محسوس ہورہا ہے۔
اس جھوٹے پراپیگنڈے کا توڑ بہت ضروری ہے کہ ہمیں کرپشن پر نہیں کسی اور وجہ سے نکالا گیا۔ پاناما کیس پر عدالتی فیصلہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔اقامہ پر بیٹے کی کمپنی میں عہدہ اور تنخواہ چھپانا اور دوسرا کرپشن۔ذرا یاد کریں کہ دو فاضل ججوں نے پہلے ہی اپنے فیصلے میں انہیں صادق اور امین کی صف سے نکال دیا تھا۔ کیا اس وقت اقامہ سامنے آیا تھا؟ اقامہ تو جے آئی ٹی کی تفتیش کے آخری ہفتوں میں سامنے آیا۔ تو پھر پہلے دو فاضل ججوں نے کس بنیاد پر ان پر باسٹھ تریسٹھ لگائی؟اس وقت تک ان کے سامنے نہ منی ٹریل پیش کی گئی تھی نہ ہی مستند دستاویزات سامنے لائی گئی تھیں۔ سابق وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کہا تھا جناب والا یہ ہیں وہ ذرائع اور وہ ذرائع کیا تھے کہ ہم نے دبئی کی عزیزیہ سٹیل مل بیچی اور اس کے پیسوں سے بچوں نے کاروبار کیا اور فلیٹ خریدے۔لیکن عدالت میں کچھ اور جا داخل کیا۔ وہاں مفروضوں پر مبنی قطری خط لے آئے جس کا سر تھا نہ پیر۔جس نے خط لکھا وہ شکار کھیلنے آتا رہا لیکن اپنے محل سے نکل کر قطر میں پاکستانی سفارت خانے میں جانے کو تیار نہ ہوا۔ کیوں؟ کیا تمام لوگ اندھے‘ بہرے اور گونگے ہیں جو حقیقت نہیں سمجھتے۔ پہلا فیصلہ آیا تو لیگیوں نے پڑھے بغیر مٹھائیاں کھائیں۔ یہ نہیں دیکھا کہ تین ججوں نے انہیں مزید وقت اور مہلت دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ کل کلاں وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں تو موقع نہیں ملا۔ اس وقت تک تو اقامہ سامنے نہیں آیا تھا اور یقین کیجئے اگر اقامہ سامنے نہ بھی آتا تو کیا وزیراعظم کی قوم سے تقریر‘ پارلیمنٹ سے خطاب اور عدالت اور جے آئی ٹی میں داخل کئے گئے متضاد موقف اور جعلی دستاویزات ان پر باسٹھ اور تریسٹھ کے نفاذ کے لئے کافی نہیں تھے؟ رہی اقامے کی بات تو یہ اقامے اس لئے نہیں لئے گئے کہ موصوف کو بار بار ویزا لینے میں زحمت ہوتی تھی بلکہ اس لئے تاکہ برطانیہ و دیگر ممالک میں اکائونٹ کھلوانے‘ اثاثے خریدنے اور بڑی ٹرانزیکشن کی بنیاد فراہم کی جا سکے۔ یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ اقامے ایک ایسے پل کا کام کر رہے تھے جس کے ذریعے گمنام طریقے سے رقم کی ترسیل کی جاتی ہے۔ معاملہ اتنا سادہ ہوتا تو موصوف اسے پہلے ہی ڈکلیئر کر چکے ہوتے۔
ویسے سابق وزیراعظم نواز شریف کا گلہ سو فیصد درست ہے۔ جس بنیاد پر انہیں ڈس کوالیفائی کیا گیا ہے اس شق کا نفاذ اگر قومی اسمبلی و سینیٹ میں بیٹھے تمام اراکین پر کر دیا جائے اور ان کے اثاثے اور ان کی آمدن میں توازن دیکھا جائے تو سو میں سے پچانوے لوگ گھروںکو چلے جائیں گے۔ احتساب کا سلسلہ اوپر سے نیچے کی طرف آنا چاہیے۔نیچے والے خودبخود سیدھے ہو جائیں گے۔ نواز شریف صاحب کو مطمئن کرنا نہایت آسان ہے لیکن اس میں ان کی ساری جماعت فارغ ہو جائے گی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر پاکستانی کو تین ماہ دئیے جائیں کہ وہ اپنے اثاثے اور آمدنیاں ڈکلیئر کرے۔ اس کے بعد ان کے اثاثوں اور آمدنیوں میں جو فرق آئے‘ وہ اثاثے ضبط کر کے انہیں قومی خزانے کا حصہ بنا دیا جائے۔اس وقت ملک کو ایسی ہی کڑی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ لیکن ایسا کرے گا کون؟ وہ بلی جو اس وقت دوبارہ دودھ کی حفاظت پر بیٹھنا چاہ رہی ہے یا وہ کھلاڑی جس نے اکیس برس کی کاوشوں کے بعد تکبر سے بھرا وہ ستون گرا دیا جس نے اپنے اقتدار کو اپنی ذاتی جاگیر بنا کر رکھ دیا تھا اور جس کا کرپشن میں لتھڑا پورا خاندان عدالتوں میں پوچھتا پھر رہا تھا کہ ہمارا قصور کیا ہے ہمیں ہمارا الزام تو بتایا جائے؟
گزشتہ شب پریڈ گرائونڈ میں عوام کے سمندر نے چودہ اگست سے قبل ہی کرپشن کا بھاری پتھر سرکانے پر آزادی کا شاندار جشن منایا‘کرپشن کا سومنات گرانے پر یومِ تشکر تو بنتا تھا!