ہم ایک عذاب سے نکلے ہیں تو ووسرے میں پھنس گئے ہیں۔ پاناما کیس چل رہا تھا تو کہا جا رہا تھافیصلہ جلدآنا چاہیے کہ پوری قوم اس قدر مضطرب اور متجسس ہے کہ زندگی کے روز و شب بھی ٹھیک طرح سے نہیں گزار پا رہی۔ کسی کو اس وقت یہ علم نہ تھا کہ پاناما کیس کا فیصلہ اگر شریف خاندان کے خلاف آ گیا اورنواز شریف نا اہل ہو گئے تو پھر حالات کا دھارا کس طرف چل نکلے گا۔ عائشہ گلالئی اور ان کی پریس کانفرنس تُرپ کا وہ پتہ تھا جو ''کسی‘‘ نے چار سال سے سنبھال رکھا تھا اور اس کے لئے ایسے آئیڈیل وقت کا انتخاب کیا کہ نہ صرف نواز شریف کی نااہلی کا ایشو کہیں پیچھے چلا گیا بلکہ پی ٹی آئی کو لینے کے دینے پڑ گئے۔اب حالت یہ ہے کہ پاناما کیس سے شاید کہیں زیادہ ہر کسی کی خواہش ہے کہ موبائل فون کے اس ڈرامے کا ڈراپ سین دیکھ سکے۔
ایک روز قبل اوریا مقبول جان کاشف عباسی کے پروگرام میں شریک تھے‘ موضوع عائشہ گلالئی تھا۔دوران گفتگو لائیو پروگرام میں انہوں نے کاشف عباسی سے کہا کہ ایک ایسا سافٹ ویئر موجود ہے جس کے ذریعے کوئی شخص کسی کے نمبر سے کسی دوسرے کو ایس ایم ایس بھیج سکتا ہے۔ انہوں نے میرا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آپ ان سے تفصیلات لے سکتے ہیں کیونکہ انہوں نے اس پر ایک کالم لکھا تھا۔ دوران پروگرام ہی مجھے لوگوں کے فون آنے شروع ہو گئے اور استفسار کرنے لگے۔ میں اس موضوع پر مزید نہیں لکھنا چاہتا تھا لیکن اب چونکہ یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ شاید عمران خان کسی تیسرے کی شرارت کا شکار ہوئے ہیں اور یہ بحران سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اس لئے مجھے وہ معلومات شیئر کرنا ہوں گی جن کی بنیاد پر میں نے 28 ستمبر 2012ء کو دنیا اخبار میں ''موبائل بھی قاتل ہے‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا تھا۔ اس وقت اندازہ نہ تھا کہ مجھے اس موضوع پردوبارہ لکھنا پڑے گا جب ملک کا مقبول ترین لیڈر اس کا نشانہ بن رہا ہو گا۔ عائشہ گلالئی کے الزامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ وہی عرصہ ہے جب پاکستان میں اس سافٹ ویئر کا استعمال شروع ہوا۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ یہ مکمل طور پر ممنوعہ سافٹ ویئر ہے اور اس کا استعمال آپ کو کم از کم سات برس جیل کی سیر کرا سکتا ہے۔ اگرچہ اس کا حصول مشکل نہیں تاہم میں اس سافٹ ویئر کا نام نہیں لکھ رہا کیونکہ کچھ ''ایول جینئس‘‘ ایسے ہیں جو ہر ایسی برائی کی تلاش میں رہتے ہیں جس سے کسی دوسرے کو نقصان پہنچایا جا سکے۔یہ سافٹ ویئر کچھ ہیکرز نے کریک کر کے مذموم مقاصد کیلئے بنائے ہیں اور انہیں انٹرنیشنل موبائل گیٹ وے کے ذریعے استعمال کے قابل بنایا ہے۔چار برس قبل میں نے کالم لکھنے سے قبل خود اسے ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور متعلقہ ویب سائٹ پر جا کر درج کئے گئے نمبر پر رابطہ کیا۔ اس نے مجھ سے پانچ سو روپے مانگے جو میں نے اسے آن لائن بھیج دئیے۔جواب میں اس نے ایک کوڈ بھیجا جسے لگانے سے سافٹ ویئر ایک سو (Spoofed)ایس ایم ایس بھیجنے کے قابل ہو گیا۔میں نے اپنے دو دوستوں کے نمبرز پر چیک کیا اور انہیں پوچھا کیا انہیں فلاں طرف سے پیغام آیا ہے تو دونوں نے تائید کی۔ سافٹ ویئر بیچنے والے شیطانوں نے اس کی ''خوبیاں‘‘ یوں بیان کی ہیں کہ اگر آپ کسی سے بدلہ لینا چاہتے ہیں‘ کسی میں طلاق کرانا چاہتے ہیں‘ کسی کو آپس میں لڑوانا چاہتے ہیںیا کسی کی خفیہ معلومات چاہتے ہیں تو یہ سافٹ ویئر آپ کیلئے ہے۔ ہم جیسی قوم جو فیس بک یا واٹس ایپ سمیت سوشل میڈیا جیسے اہم پلیٹ فارم کو بھی دروغ گوئی‘ کردار کشی ‘ بلیک میلنگ اور وقت کے ضیاع کے لئے استعمال کر رہی ہے‘ اس قوم کے ہاتھ اگر ایسے سافٹ ویئر چڑھ جائیں تو وہ کیا کیا ''چن‘‘ چڑھائے گی اس کا اندازہ مشکل نہیں۔عائشہ گلالئی نے پریس کانفرنس اور ٹی وی ٹاک شوز میں کہا کہ انہیں ان کے نوکیا موبائل پر میسیج آئے۔ یاد رہے کہ وہ بلیک بیری نہیں بلکہ سادہ موبائل کی بات کر رہی ہیں کیونکہ اینڈرائڈ پر مبنی نوکیا کہیں بعد میں لانچ ہوا۔ اس میں واٹس ایپ وغیرہ بھی نہیں تھا ۔وہ 2013ء کی بات کر رہی ہیں اور اگر اس سافٹ ویئر کو گوگل پر سرچ کیا جائے تو یہ 2012ء کے آخر اور 2013ء کے آغاز کی تاریخوں پر مبنی کچھ ویب پیج دکھاتا ہے جب اس کا استعمال یا غیر قانونی اجرا ہوا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ایس ایم ایس واقعی عمران خان کے موبائل سے کئے گئے یا پھر اس سافٹ ویئر کے ذریعے سازش کی گئی۔اس کے لئے عمران خان کا یہ مطالبہ بالکل درست ہے کہ کمیٹی جو مرضی بنے لیکن اس کے نیچے فرانزک ماہرین کی ٹیم ہو جو تکنیکی طور پر اسے چیک کر سکے تاہم یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ عائشہ گلالئی کے موبائل میں جا کر موصول کردہ پیغامات کا ایس ایم ایس میسیج سینٹر نمبر دیکھا جائے تو بات واضح ہو جائے گی۔اگر تو یہ خان صاحب کے موبائل سے آیا ہو گا تو پھر یہ اس طرح شروع ہو رہا ہو گا+923xxxxxxxاور اگر یہ خطرناک سافٹ ویئر کا کام ہو گا تو پھر اس میں انٹرنیشنل کوڈ ہو گا مثلاً +44xxxxxxxوغیرہ۔یہ سافٹ ویئر نمبر تو موبائل کمپنی کا استعمال کرتا ہے لیکن پیغام انٹرنیشنل غیرقانونی گیٹ وے کے ذریعے ڈیلیور کرتا ہے۔باقی رہی بات عائشہ گلالئی کی کہ ریکارڈ جا کر پی ٹی اے سے نکلوا لیں تو میری معلومات کے مطابق کسی موبائل کمپنی کے پاس چار سال پرانا ریکارڈ نہیںحتیٰ کہ ایک سال سے سے زیادہ کا ریکارڈ بھی مشکل ہے اور جو ریکارڈ ملے گا اس میں بھی یہ نہیں ہو گا کہ ایس ایم ایس میں لکھا کیا گیا‘ بلکہ صرف اتنی تفصیل ہو گی کہ فلاں تاریخ کوفلاں وقت‘ فلاں نمبر سے فلاں کو ایس ایم ایس کیا گیا۔ اس وقت نو کروڑ سے زیادہ موبائل سمیں استعمال ہو رہی ہیں۔ جس طرح کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک یا میموری کارڈ میں مخصوص جگہ ہوتی ہے اسی طرح موبائل کمپنیاں بھی غالباً چھ ماہ سے زیادہ کا ریکارڈ نہیں رکھ سکتیں۔عمران خان کا یہ مطالبہ درست ہے کہ ان کے ساتھ امیر مقام وغیرہ کا موبائل بھی پرکھا جائے لیکن اصل میں گلالئی کا موبائل ہی یہ تعین کر سکتا ہے کہ سازش ہوئی یا نہیں۔ اگر ان کے پیغامات جعلی ہوئے تب دیگر لوگوں کے موبائل بھی شامل تفتیش کئے جا سکتے ہیں تاکہ سازش کا کھرا تلاش کیا جا سکے۔ سوشل میڈیا پر عمران اور عائشہ کے وٹس ایپ کے سکرین شاٹس بھی شیئر ہو رہے ہیں جو سب فضول اور فوٹو شاپ کیا گیا ہے۔ ایک اور سافٹ ویئر کی بات ہو رہی ہے لیکن یہ سافٹ ویئر گوگل پلے سٹور پر دستیاب ہے۔ یہ کسی دوسرے بندے کا پیغام آپ کی ایس ایم ایس فہرست میں شامل کر دیتا ہے جس سے بظاہر لگتا ہے کہ کسی نے آپ کو پیغام بھیجا لیکن اسے ٹریس کرنا اس سے بھی آسان ہے کیونکہ یہ کسی موبائل کمپنی کے سروس سنٹر کو استعمال نہیں کرتا بلکہ موبائل سیٹ کے اندر سے ہی ایک پیغام تخلیق کر کے ایس ایم ایس کی تفصیل میں رکھ دیتا ہے۔ تاہم ایسے خطرناک سافٹ ویئر بھی موجود ہیں جن کے ذریعے آپ کسی اور کے موبائل میں گھس کر اس کا ریکارڈ کاپی یا تبدیل کر سکتے ہیں اور اس کے فون میں سے کسی کو میسیج بھی کر سکتے ہیں ۔اگر عمران کے ساتھ ایسا ہوا ہے تو وہ سخت مشکل میں پھنس جائیں گے ۔میں نے پی ٹی اے سے اس وقت بھی کہا تھا کہ وہ ایسے سافٹ ویئر بلاک کرے وگرنہ کسی وقت کوئی بڑا بحران بھی کھڑا ہو سکتا ہے ۔
یہ عمران خان کو کسی ناکردہ گناہ میں پھنسوانے کی سازش ہے یا پھر انہوں نے دانستہ ایسا کیا‘ یہ جلد معلوم ہو جائے گا تاہم خطرناک بات یہ ہے کہ پچھلے دنوں پی ٹی آئی کی ویب سائٹ بھی ہیک ہوئی اور اس بات کی بھی اطلاعات ہیں کہ ن لیگ نے زبردست قسم کے عالمی ہیکرز کی بھاری معاوضوں پر خدمات حاصل کی ہوئی ہیں اور اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو جس طرح پاناما کیس میں قطری خط جیسی کمزوریاں سامنے آئیں‘ اسی طرح اس کیس میں بھی سچ کھل کر سامنے آ جائے گا کیونکہ انٹرنیٹ یا موبائل فون پر کیا جانے والا جرم چاہے کتنی ہی ہوشیاری سے کیا جائے وہ کوئی نہ کوئی نشان ایسا ضرور چھوڑتا ہے جو مجرم کو اقتدار کے ایوانوں سے اٹھا کر جیل کی کوٹھڑیوں میں پہنچا سکتا ہے!