نواز شریف عوام کو شاید محمد حسین سمجھتے ہیں۔
محمد حسین اسلام آباد کا رہائشی ہے۔ ایک روز اسے لاہور سے ظہیر نامی شخص کی کال موصول ہوئی۔ اس نے کہا میں فلاں فوڈ انڈسٹری کے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے بات کر رہا ہوں ‘ کیا ہماری کمپنی کی طرف سے آپ کو کوئی لیٹر ملا ہے ؟محمد حسین نے کہا مجھے کوئی لیٹر نہیں ملا۔ ظہیربولا‘آپ کو مبارک ہو‘ ہماری کمپنی کی سالانہ قرعہ اندازی میں آپ کیلئے ہزار سی سی گاڑی انعام میں نکلی ہے لہٰذا آپ گاڑی کی وصولی کیلئے ہمارے کمپنی منیجر کمال شاہ سے کراچی رابطہ کر لیں۔ محمد حسین نے اس سے نمبر لیا اور اسی وقت کمال شاہ سے رابطہ کر لیا، کمال شاہ نے کہا آپ دس منٹ کے بعد دوبارہ فون کریں ۔ میں چیک کرکے بتاتا ہوں۔ دس منٹ بعد اس نے بتایا آپ کو مبارک ہو‘ ہماری کمپنی کی طرف سے آپ کی کار انعام میں نکلی ہے‘ آپ تین دن کے اندر اندر اپنا اصل شناختی کارڈ اور اپنے ضلع کے دو گواہوں کے ساتھ کراچی پہنچیں یا اگر آپ سرکاری ملازم ہیں تو میں آپ کو کوریئر سروس کراچی کا نمبر دیتا ہوں آپ ان سے کرایہ وغیرہ معلوم کرلیں اور مجھے بتادیں میں آپ کی کار بلٹی کروا دیتا ہوں جس کے بعد ہماری کمپنی کا نمائندہ اسلام آباد آکر آپ سے کاغذی کارروائی پوری کر لے گا۔ محمد حسین نے کار کوریئر سروس کے نمبر پر چوہدری بوٹا نامی شخص سے بات کی تو اس نے کہا ہم آپ سے سترہ ہزار پانچ سو روپے کرایہ لیں گے جس میں روڈ انشورنس بھی شامل ہے۔ کل صبح نو بجے ہمارا ٹرالر جا رہا ہے‘ آپ کمپنی والوں سے کہیں کہ وہ گاڑی بھجوا دیں ۔ کمپنی منیجر کمال شاہ نے کہا میں گاڑی کوریئر سروس کو ابھی اپنے ڈرائیور سرور کے ہاتھ بھجوا رہا ہوں۔ آپ آدھے گھنٹے بعد چوہدری بوٹا سے بات کر لیں۔ محمد حسین نے چوہدری بوٹا سے رابطہ کیاتو اس نے کہا گاڑی ہمارے پاس آگئی ہے‘ آپ کل صبح ساڑھے آٹھ بجے رابطہ کریں ہم آپ کو بلٹی نمبر وغیرہ لکھوا دیں گے۔ محمد حسین نے دس جون کی صبح چوہدری بوٹا سے رابطہ کیا تو اس نے کہا آپ فوری طور پر کوریئر سروس کے مالک کے اکائونٹ میں سترہ ہزار پانچ سو روپے بذریعہ آن لائن بھجوائیں تاکہ آپ کی گاڑی لوڈ کرائی جاسکے۔ محمد حسین نے اسے کہا میں یہ رقم آپ کے ڈرائیور کو نقد ادا کر دوں گا لیکن اس نے اصرار کیا یہ ہماری کمپنی کا اصول نہیں اور ڈرائیور کسی سے رقم نہیں لے سکتا لہٰذا محمد حسین نے مطلوبہ رقم محمد اقبال کے اکائونٹ میں بذریعہ آن لائن بھجوا دی۔کچھ ہی دیر بعد کوریئر سروس کے چوہدری بوٹا نے بتایا آپ کی رقم موصول ہو چکی ہے اور ہم نے آپ کی گاڑی لوڈ کروا کر اسلام آباد بھجوا دی ہے‘ آپ بلٹی نمبر ‘کیریئر نمبر اور ڈرائیور کا موبائل نمبر لکھ لیں اور اس سے رابطے میں رہیں۔ گیارہ جون کی صبح ڈرائیور دوست محمد نے محمد حسین کو فون کیا اور کہا کہ ہمیں سکھر سے آگے قمر شہید چیک پوسٹ پر ایکسائز والوں نے روک رکھا ہے‘ وہ کہتے ہیں یہ گاڑی انعامی سکیم کی ہے لہٰذا اس کا دس فیصد ٹیکس جو پچاسی ہزار پانچ سو روپے بنتا ہے ‘ سندھ حکومت کوجمع کرانا ہوگا اورجب تک یہ ٹیکس ادا نہیں ہو گا گاڑی آگے نہیں جا ئے گی۔ ڈرائیور نے کہا آپ کمپنی والوں سے رابطہ کریں اور ٹیکس ادا کر کے ان سے ٹیکس رسید منگوائیں۔ محمد حسین نے کمپنی منیجر کمال شاہ کو فون کیا تو اس نے کہا کہ آپ ٹیکس جمع کروا دیں۔ بعد میں ہم کوشش کریں گے پچاس فیصد رقم آپ کو واپس دلوا دیں۔ کار کوریئر سروس کے ڈرائیور نے محمد حسین کو فون کیا اور کہا کہ آپ ہمارے مالک محمد اقبال کے اکائونٹ میں پچاسی ہزار پانچ سو روپے بذریعہ آن لائن بھیج دیں تاکہ میں گاڑی کا ٹیکس ادا کر کے گاڑی لا سکوں۔ محمد حسین نے یہ رقم بھی آن لائن بھجوا دی۔اس کے بعد ڈرائیور نے اسی شام کو فون کیا کہ میں نے گاڑی کا ٹیکس جمع کروا دیا ہے اور چالان بھی چھڑوا لیا ہے لیکن اب محکمہ ایکسائز والے رسید او کے نہیںکر رہے ہیں‘وہ کہتے ہیں جس ضلع میں ٹیکس جمع ہوتا ہے وہیں سے گاڑی کی رجسٹریشن بھی ہو گی‘ لہٰذا آپ رجسٹریشن کے پچیس ہزار پانچ سو بھی بھجوا دیں تاکہ آپ کو رجسٹریشن کیلئے سندھ نہ آنا پڑے۔ اس نے کہا آپ یہ رقم میرے ساتھ موجود ڈرائیور کے اکائونٹ میں بھجوا دیں اور ہم اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے نکلوا کر رجسٹریشن کیلئے جمع کروا دیں گے۔ محمد حسین نے مزید پچیس ہزار پانچ سو روپے آن لائن بھجوا دیئے۔ اس ساری کارروائی کے بعد شام چھ بجے ڈرائیور دوست محمد کا فون آیا ہم نے گاڑی کی رجسٹریشن کی فائل مکمل کروا کر تمام کاغذات کی فوٹو کاپیاں ساتھ رکھ لی ہیں‘ اب آپ کو اسلام آباد میں صرف ایک ہزار روپے جمع کروا کر گاڑی کا نمبر الاٹ ہو جائے گا۔ ہم اسلام آباد کیلئے نکل پڑے ہیں اور 13 جون کی صبح آپ کی گاڑی لیکر آپ کے پاس پہنچ جائیں گے۔ 13 جون کی صبح گاڑی نہ پہنچی تو محمد حسین نے تمام نمبروں پر رابطے کی کوشش کی لیکن سارے نمبر بند ملے جو آج تک بند پڑے ہیں۔ ایک لاکھ اٹھائیس ہزار پانچ سو روپے جمع کرانے کے باوجود محمد حسین کو گاڑی نہیں ملی‘ وہ 13جون کا انتظار کر رہا ہے لیکن آج تک اس کی 13جون نہیں آئی۔
جو محمد حسین کے ساتھ ہوا‘ وہ پہلا واقعہ نہیں۔ فراڈ کی ایسی خبریں آئے روز ہم پڑھتے رہتے ہیں اور آج کل عوام کو بیوقوف بنانے کی جو نئی سیریز چل نکلی ہے وہ جناب نواز شریف صاحب نے شروع کی ہے ۔ تیس سال حکومت کرنے اور تین مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد جب وہ عوام کو کچھ نہ دے سکے تو نا اہل ہونے کے بعد عوام کو نئے گھر کے خواب دکھانے نکل پڑے ہیں۔انہیں یقین ہے کہ جس طرح محمد حسین جیسے لوگ جانتے بوجھتے
قرعہ اندازی میں گاڑی نکلنے کے جھانسے میں آ جاتے ہیں‘ وہ ان کی باتوں پر بھی ایمان لانے کو تیار ہو جائیں گے اور اس بات کی پروا تک نہ کریں گے کہ ان کا محبوب لیڈر وطن عزیز کی سب سے بڑی عدالت کی نظر میں صادق رہا نہ امین۔ جی ٹی روڈ پرسفر کے دوران بھی انہوں نے ایسی درجنوں خواہشات کا اظہار کیا جنہیں وہ اپنے دور اقتدار میں پورا نہ کر سکے اور گزشتہ روز چودہ اگست کو اپنا آئندہ لائحہ عمل دیتے ہوئے بالآخر یہ ''تاریخی‘‘ اعلان کر ڈالا کہ پاکستان بنانے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ یہاں مساوات نہ ہو، چند لوگوں کے پاس گھر ہیں تو باقی کے پاس بھی ہونے چاہئیں تاہم جو اپنا گھر نہیں بنا سکتے ہم انہیں گھر دیں گے۔ میرا خیال ہے عوام کو اس مرتبہ نواز شریف صاحب کی بات پر یقین کر لینا چاہیے۔ اس وقت وہ شدید دکھی ہیں اور مضطرب بھی اور غالباً اس کی وجہ لندن کے وہ فلیٹس ہیں جو انہیں ایوان اقتدار سے اٹھا کر جی ٹی روڈ پر لے آئے۔ انہیں شاید خیال آ گیا ہے کہ اگر ان کے ہر بچے کے پاس لندن میں چھ چھ ارب کا محل ہو سکتا ہے تو جن عوام کے ٹیکسوں کی کمائی سے یہ محل نما فلیٹ خریدے گئے‘ ا ن کا اتنا تو حق بنتا ہے کہ انہیں لندن نہ سہی‘ اپنے ملک میں ہی دو چار مرلے کے گھر بنا کر دے دئیے جائیں اور اگر وہ یہ سب پہلے کر دیتے تو شاید بے گھر عوام کے دل سے نکلنے والی آہ انہیں یوں سڑکوں پر رسوا نہ کر دیتی ۔ہمیں اس وقت نواز شریف کی نیت پر بھی شک نہیں کرنا چاہیے ‘وہ اس وقت معصومیت کی انتہا پرہیں کیونکہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ انہیں وزیراعظم کے عہدے سے نا اہل کیوں کیا گیا اور جو شخص معصوم ہو اس پر الزام لگانا بھی مناسب نہیں۔ لہٰذا عوام کو چاہیے کہ ان گھروں کے حصول کے لئے ایڈوانس وغیرہ جمع کرنا شروع کر دیں اور جس طرح محمد حسین کار کمپنی کی ہدایات وصول کرتا رہا‘ وہ بھی نواز شریف کی آئندہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کے لئے تیار ہو جائیں ۔
بعض اوقات قدرت انسان کو بظاہر بڑی سزا نہیں دیتی ‘ اسے کڑی آزمائش میں نہیں ڈالتی بلکہ اس کے دماغ اور اس کی سوچوں کو اس کے کنٹرول سے اس طرح باہر کر دیتی ہے کہ ایسے انسان کی مت ہی ماری جاتی ہے۔نواز شریف صاحب کے کیس میں بھی غالباً ایسا ہی ہوا ہے۔