پاناما کیس‘ جس نے ملکی سیاست کا رخ ہی تبدیل کر دیا‘ اس کے تین مدعی تھے۔ عمران خان‘ سراج الحق اور شیخ رشید۔ ان تینوں میں سب سے زیادہ اگر کسی کو شہرت ملی ہے تو وہ عمران خان ہیں۔ اس کی وجہ ان کی ملٹی ڈائمنشنل شخصیت ہے۔ کرکٹ کی دنیا میں انہوں نے بہت نام کمایا۔ ورلڈ کپ جیتا تو ان کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔ ان کا اگلا رُوپ ایک سماجی رہنما کے طور پر سامنے آیا جب انہوں نے کینسرہسپتال تعمیر کیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ سیاست میں آ گئے ۔ لیکن ان کی جماعت قیام کے پندرہ برس بعد اس وقت کلک ہوئی جب اس نے مینار پاکستان پر ایک بڑا جلسہ منعقد کیا۔ یہ تحریک انصاف کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ اس کے بعد اس نے الیکشن میں پیپلزپارٹی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور ووٹوں کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر رہی۔ دوسرے مدعی شیخ رشید تھے جو اپنی جماعت عوامی مسلم لیگ کے سربراہ ہیں۔ ماضی میں وہ نواز شریف صاحب کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے رہے اور بعد ازاں پرویز مشرف کی کابینہ کا حصہ بھی بنے۔ اپنے جوش خطابت کی وجہ سے وہ پرکشش شخصیت مانے جاتے ہیں اور جس ٹی وی ٹاک شو میں بھی جائیں وہ ریکارڈ توڑ ریٹنگ لیتا ہے۔ جبکہ پاناما کیس کے تیسرے مدعی جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق تھے اور میرے خیال میں وہ اس کیس کے اولین اور اہم ترین مدعی تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان اور شیخ رشید کا اس کیس میں فوکس صرف نواز شریف اور ان کا خاندان ہیں‘ ان دونوں کا خیال ہے کہ چونکہ مسلم لیگ ن میں ن کا لاحقہ نواز شریف کی وجہ سے ہے اور اصلاً اس جماعت کی بنیاد بھی نواز شریف پر کھڑی ہے تو اگر اس جماعت کی بنیاد کو ہی نکال دیا جائے تو یہ عمارت زمین بوس ہو جائے گی اور اس کے فوائد ان کی جھولی میں آ گریں گے۔ عمران خان کا خیال ہے کہ اس کے بعد ان کے لئے انتخابات میں جیت کے مواقع بڑھ جائیں گے جبکہ شیخ رشید غالباً اپنے پرانے بدلے لے رہے ہیں کیونکہ الیکشن میں انہیں اپنی ہی سیٹ مل جائے تو وہ ماضی کی طرح اس پر بھی اکتفا کر لیں گے۔
سراج الحق صاحب کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ ان کے نزدیک پاناما کیس میں مدعی بننے کا مقصد کسی ایک شخص یا خاندان کا احتساب نہیں بلکہ ایک شفاف اور بے لاگ احتساب کے ایک ایسے عمل کا آغاز ہے جس میں ہر کرپٹ شخص کو کٹہرے میں لایا جائے چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت یا ادارے سے ہو۔ وہ کئی مرتبہ یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ قو م کو بتایا جائے اس ملک کی معیشت کو ہڑپ کرنے والے مگرمچھوں اور سابق حکمرانوں نے اندرونی اور بیرونی بینکوں اور آئی ایم ایف سے کتنا قرض لیا اور کہاں کہاں خرچ کیا۔وہ کہتے ہیں کہ ڈرگ مافیا،شوگر مافیا ،لینڈ مافیااور بڑے بڑے سمگلروں نے سیاسی پارٹیوں میں پناہ لے رکھی ہے لیکن نام نہاد سیاسی جماعتیں اپنی بادشاہت قائم رکھنے کیلئے مجرموں کے ہاتھوں یرغمال ہیں ۔عمران خان کے برعکس سراج الحق چاہتے ہیں کہ احتساب کو کسی دائرے تک محدود نہ کیا جائے بلکہ لٹیرے حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں کسی کو نہ چھوڑا جائے۔حقیقت بھی یہی ہے کہ اداروں کی تباہی کے اصل مجرم وہ حکمران ہیں جنہوں نے میرٹ کا قتل عام کرکے جیالوں اور متوالوں کو نوکریاں دیں ۔پی آئی اے ،سٹیل ملز ،واپڈا ،پی ٹی سی ایل اور دیگر اداروں کی تباہی کی وجہ ان میں منظور نظر لوگوں کی بے تحاشا بھرتیاں تھیں اور یوں کوئی بھی شعبہ اور ادارہ کرپشن اور اقربا پروری سے محفوظ نہ رہا۔ ویسے تو جماعت اسلامی کے تمام امیر ایک سے بڑھ کر ایک تھے‘ مگرمتوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے سراج الحق اپنی درویشانہ اور سادگی پسند طبیعت اور مجاہدانہ اوصاف کی بدولت تحریکی اور عوامی حلقوں میں کافی مقبول ہیں۔ انہیں مارچ 2014 ء میں جماعت اسلامی کے ارکان نے پانچ سال کے لیے امیرجماعت منتخب کیا تھا۔ اکتوبر 2002ء کے انتخابات میں دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے خیبر پختونخوا میں کامیابی حاصل کی تو انھوں نے صوبائی حکومت میں بطورسینئر وزیر اور وزیر خزانہ خدمات انجام دیں اور اپنوں اور غیروں سے اپنی صلاحیت وقابلیت اور امانت و دیانت کا لوہا منوایا۔ ان کی قیادت میں جماعت اسلامی کے چھ دیگر وزرا نے بھی مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور یوں سیاسی میدان میں بھی وہ ایک بہترین ٹیم لیڈر کے طور پر سامنے آئے ۔ متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت میں ادا کیے گئے اس کردار کے اپنے بیگانے سب معترف ہیں۔ کئی غیرملکی اداروں نے بھی اپنی سروے رپورٹوں میں ان کی بہترین کارکردگی کو سراہا۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تو سینئروزیر اور وزیر خزانہ کے لیے نظر انتخاب انہی پر ٹھہری اور اس عرصے میں بھی انھوں نے بخوبی ذمہ داری نبھائی۔ دونوں ادوار میں بطور وزیر ان کا دروازہ ہر خاص و عام کے لیے کھلا رہا۔ بلا تفریق مذہب و مسلک اور سیاسی وابستگی کے کوئی بھی ان سے مل سکتا تھا۔ اسی لیے ان کی شخصیت ہردلعزیز رہی۔ انھوں نے سول سیکرٹریٹ میں خود خطبہ جمعہ اور نمازوں کی امامت کرواکر ایک اور مثال قائم کی۔وہ دو دفعہ صوبائی وزیر خزانہ رہے ، مگر انھوں نے قومی خزانے کو قومی امانت سمجھا۔ بطور وزیر انھوں نے سرکاری رہائش گاہ کوذاتی استعمال کی بجائے پبلک سیکرٹریٹ بنادیا،جہاں آدھی رات کو بھی لوگ آتے جاتے رہتے تھے اورخود پشاور میں کرائے کے مکان میں رہتے رہے ۔گاؤں میں خاندانی گھر کے علاوہ ان کی کوئی جائیداد نہیں ہے ۔ وہ اپنی ذاتی گاڑی کے مالک بھی نہیں ہیں۔ سراج الحق کے والدین حیات ہیں ۔ والدہ اور بھائی آبائی مکان میں ایک ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ حکومتی وزیر کے طور پر اندرون و بیرون ملک انھوں نے ایک نئی ریت ڈالی اور ان دورہ جات میں ہوٹلوں کے بے تحاشا سرکاری اخراجات چھوڑ کر اسلامک سینٹرز میں رہنا پسند کیا۔ اندرون ملک بغیر کسی پروٹوکول کے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر ان کی خاصیت رہی۔دو برس قبل وہ میری والدہ کی وفات کے موقع پر تعزیت کی خاطر گھر تشریف لائے تو محسوس ہوا جیسے بہت ہی قریبی عزیز دلاسا دینے آیا ہے۔ہمیشہ مسکراہٹ ‘ زندہ دلی اور گرم جوشی سے ملتے ہیں۔ جب کسی جماعت کا لیڈر اس طرز عمل کا مظاہرہ کرے تو لامحالہ ایسی جماعت کے سیاستدان سے لے کر عام ورکرز بھی انہیں فالو کرتے ہیں۔ دیگر سیاسی یا مذہبی جماعتوں کے برعکس جماعت اسلامی کے کسی رہنما کا کبھی کوئی قابل ذکر سکینڈل منظر عام پر نہیں آیا۔ یہ لوگ جو بھی کام کرتے ہیں ‘ اسلامی اصولوں کو مد نظر رکھ کر کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کوئی بیس پچیس برس قبل جماعت کے رہنمائوں نواب الدین اورسید اسعدگیلانی نے ایک ہائوسنگ سوسائٹی بھی بنائی تھی۔ اس کے قیام کا مقصد روایتی سوسائٹیوں کی طرح منافع کمانے کی بجائے تحریکی ساتھیوں اور خاندانوں کے لئے ایک ایسے گوشے کا قیام تھا جہاں کم لاگت میں لوگ مکان تعمیر کر سکیں اور باہمی اخوت اور بھائی چارے کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ غرض جماعت نے جس میدان میں بھی قدم رکھا ‘ اس میں مادیت پرستی کی بجائے دین‘ رواداری اور اخلاقیات کو ہی ترجیح دی اور یہی معیارات جماعت کی ملکی و عالمی پذیرائی کا باعث بنے۔اس کے سیکرٹری اطلاعات امیر العظیم اپنی ذمہ داریاں بڑے احسن انداز میں نبھا رہے ہیں اور سیاسی و سماجی موضوعات پر مدلل گفتگو کرتے ہیں۔ غرض پاکستان کی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے برعکس جماعت میں موروَثی، شخصی، خاندانی یا گروہی سیاست کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔
جس طرح پاناما کیس میں صرف نواز شریف خاندان سراج الحق صاحب کا ہدف نہیں‘ اگر عمران خان اور شیخ رشید بھی اس دائرے کو وسیع کر دیں اور سراج الحق صاحب کے شانہ بشانہ مشترکہ جدوجہد کریں تو اس کے نتائج بھی زیادہ اثر پذیر ثابت ہوں گے۔ فی الوقت سراج الحق ایم ایم اے کے احیا کی طرف کوشاں ہیں۔ وہ تنہا سفر کرنے کی بجائے اتحاد و اتفاق پر یقین رکھتے ہیں۔ ماضی میں بھی انہیں اس میں کامیابی ملی۔ البتہ آئندہ انہیں اس اتحاد میں اپنا دامن بچانے کا خاص اہتمام کرنا ہو گا کیونکہ ماضی میں جمعیت علمائے اسلام (ف)نے جس طرز سیاست کا مظاہرہ کیا‘ اس نے ایم ایم اے کو خاصا کمزور کیا۔ اگر وہ ایم ایم اے کا احیا کرتے ہیں تو انہیں اسے لیڈ کرنا ہو گا کیونکہ ان کی قائدانہ صلاحیتیں دیگر جماعتوں کے قائدین سے کہیں زیادہ وسیع اور پُراثر ہیں۔ امید ہے پاناما کیس کی طرح وہ اس میدان میں بھی کامیاب و کامران رہیں گے۔