کلبھوشن سے اس کی والدہ اور بیوی کی ملاقات پر بھارتی میڈیا آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہے۔ دُور کی ایسی ایسی کوڑیاں لائی جا رہی ہیں کہ شیطان بھی پناہ مانگتا ہو گا۔ مثلاً بھارتی چینل ٹائمز نائو کہتا ہے کلبھوشن کے سر پر باقاعدہ میک اپ کیوں کیا گیا۔ اس کی ''ٹنڈ‘‘ اتنی سفید کیسے ہو گئی جب کہ اس کا رنگ تو سانولا ہے۔ چینل کے خیال میں شاید کلبھوشن کے سر کو پہلے کسی ریگ مال سے خوب رگڑا گیا‘ اس کے بعد اس پر پالش لگائی گئی ‘پھر گاڑی چمکانے والی کسی مشین کا الیکٹرانک برش پھیرا گیا اور اس کے بعد اس پر سفید رنگ کا سفوف مل دیا گیا تاکہ اسے پریزینٹیبل بنا کر پیش کیا جائے۔ ایک چینل نے اس کے نیلے سوٹ پر تنقید کی اور اینکر نے جاسوس کے کوٹ پر لیزر لائٹ مارتے ہوئے کہا کہ دیکھیں کندھے پر یہ جو دو سلوٹیں پڑ رہی ہیں‘ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ کلبھوشن کا وزن کم ہو اہے اور اس کا کندھا سکڑ گیا ہے جس کی وجہ سے کوٹ کھلا کھلا محسوس ہو رہا ہے۔ ایک چینل کے مطابق یہ پینٹ کوٹ کلبھوشن کیلئے خاص طور پر سلوانے کی بجائے کسی اہلکار سے مانگ کر پہنا دیا گیا ہے حالانکہ درزی کو اس کا خصوصی ماپ لے کر نئے کپڑے کا سوٹ سینا چاہیے تھا۔ کسی نے یہ بھی کہا کہ ماں بیٹے کا رشتہ کتنا عظیم ہوتا ہے ‘بیوی بھی دو سال سے تنہائی کا شکار ہے چنانچہ درمیان میں شیشہ لگا کر ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ اگر ماں بیٹے کو گلے ملنے دیا جاتا‘ وہ سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کو اپنے دکھڑے سنا دیتے تو کیا فرق پڑ جاتا ۔ایک اور چینل نے کمرے میں موجود سی سی ٹی وی کیمرے کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ ''انکشاف‘‘ کیا کہ پاکستان تو کہتا ہے کہ کمرے میں ماں بیٹی کے علاوہ کوئی اور موجود نہ تھا جبکہ درحقیقت وہاں کیمروں سے نگرانی کی جا رہی تھی۔ کہا گیا خواتین کے کپڑے بدلوا کر تذلیل کی گئی حتیٰ کہ دہشت گرد جاسوس کی بیوی کا منگل سوتر بھی اتروایا گیا جو کہ میاں بیوی کے درمیان رشتے کی بنیادی علامت ہوتا ہے۔ الزام لگایا گیا کہ کلبھوشن کی ملاقات کے حوالے سے تازہ ویڈیو اور اعترافی بیان پہلے سے ریکارڈ کر لیا گیا تھا۔ زیادہ تر میڈیا اس بات پر برستا رہا کہ درمیان میں شیشہ نہیں ہونا چاہیے تھا اس طرح سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی‘ وغیرہ وغیرہ۔
بھارتی سرکار اور میڈیا کی تنقید سے ظاہر ہوتا ہے شاید کلبھوشن کوئی جاسوس نہیں بلکہ ہمارا کوئی داماد یا قومی ہیرو تھا جس نے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں کئی مائوں کو ان کے بچوں سے محروم‘ کئی بچوں کو یتیم اور کئی بہنوں سے ان کا بھائی چھین کر پاکستانیوں پر کوئی ظلم نہیں بلکہ احسان کیا ہے اور اس احسان کے جواب میں پاکستان کو اس ''مہربان‘‘ کو نہ صرف اعلیٰ ترین ایوارڈ دینا چاہیے بلکہ سرکاری پروٹوکول دیتے ہوئے اسے اپنی صفائی کیلئے اسی طرح تحریک چلانے کی اجازت بھی ہونی چاہیے جس طرح نواز شریف عدلیہ کے خلاف چلانے جا رہے ہیں۔ بھارت نے شاید دیکھ لیا ہے کہ پاکستان میں جو بندہ جتنا بڑا جرم کرتا ہے اور اسے عدالت جتنی بڑی سزا سناتی ہے‘ اس کی قدر و منزلت اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔آپ سابق وزیراعظم نواز شریف کو ہی دیکھ لیں۔ دنیا کے سینکڑوں صدور‘ وزیراعظموں اور ہزاروں امراء کی طرح ان کا نام بھی پاناما پیپرز میں آیا اور اس کے بعد پوری دنیا میں ایک ایک کر کے وزیراعظم گرتے چلے گئے لیکن نواز شریف اپنے عہدے پر قائم رہے۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے انہیں خائن اور نا اہل قرار دے دیا تب بھی وہ باز نہ آئے اور کوشش کی کہ وہ نااہلی کی آڑ میں اداروں پر تبرا کر سکیں اور دنیا کی نظر میں خود کو پاک و صاف ثابت کرتے رہیں۔ویسے بھی وہ بھارت کے بہت قریب ہیں۔ نریندر مودی ان کی نواسی کی شادی میں شرکت کیلئے آیا ‘ان کا بھارت کیلئے نرم گوشہ کسی سے چھپا ہوا نہیں اور قومی اسمبلی میں اعتزاز احسن نے نواز شریف کو یہاں تک چیلنج کیا کہ وہ کلبھوشن کا نام لیں تو وہ انہیں جیب سے پچاس ہزار روپے دیں گے اور دیکھ لیں نواز شریف صاحب کی زبان پر آج تک کلبھوشن کا نام نہیں آیا۔ تاہم بھارتی میڈیا کی کلبھوشن ملاقات پر تنقید اس لئے بے بنیاد تھی کہ میری رائے میں کلبھوشن کو ضرورت سے زیادہ پروٹوکول دیا گیا۔ اس کامقصد واقعتاً انسانی ہمدردی تھا یا پھر اس کے کچھ اور مقاصد تھے اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ حکومت کی ڈور اس وقت بھی نواز شریف صاحب کے ہاتھ میں ہے۔ شاہد خاقان عباسی رائے ونڈ جا کر ان سے مشاورت کرتے ہیں اور نواز شریف لندن ہوں تو وزیراعظم پیچھے چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ ہو سکتا ہے یہ بھی ایک ایسا کارڈ ہو جو ن لیگ نے کھیلا ہو تا کہ قوم کو اس طرف الجھاکر مطلوبہ مقاصد حاصل کئے جائیں۔ کلبھوشن جیسے خطرناک جاسوس کو وزارت خارجہ بلانا درست نہیں تھا۔اگر عام قیدیوں کو سلاخوں کے پیچھے سے ملوایا جاتا ہے تو یہ تو پھر قومی مجرم ہے۔ ذرا سوچیں اگر بھارت میں ہمارا کوئی جاسوس اس طرح پکڑا جاتا تو بھارت اس کیساتھ کیا سلوک کرتا؟ مومن ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا تو پھر ہمیں کیا ہوا ہے۔ افسوس اس پر ہے ہمارے بعض مہربان بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ اگر انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرنا ہی تھا تو پھر شیشے کی دیوار ہٹا دیتے کہ ماں بیٹا گلے ملتے اور اکٹھے لنچ کرتے۔ کیا یہ اتنا سادہ معاملہ ہے؟ کلبھوشن کے پاس ابھی بھی کئی راز ہوں گے جو بھارت کے گلے کا کانٹا بنے ہوئے ہیں۔ وہ جلد از جلد اسے مروانا چاہتاہو گا تاکہ الزام لگا سکے پاکستان نے تشدد کر کے مار دیا ہے۔ اگر بالمشافہ ملاقات کی اجازت دی جاتی تو ممکن ہے خواتین اسے کوئی ممنوعہ چیز دینے کی کوشش کرتیں۔ جیسا کہ کلبھوشن کی بیوی کا جوتا سکینر میں سے گزرا تو مشکوک ہونے پر سائرن بول پڑا جسے فرانزک ٹیسٹ کے لئے بھجوادیا گیا۔
گیارہ برس قبل لندن میں ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا جب روسی جاسوس الیگزنڈر لیتِنینکو جو لندن میں ایک ہوٹل میں موجود تھا‘ اس کی چائے میں تابکار مواد ملا کر اسے ہلاک کر دیا گیا ۔دو روسی شہریوں آندرے لْگووئی اور دیمتری کوویتون نے بڑی ہوشیاری سے پائن بار میں چائے دانی کے اندر پولونیم 210 ڈالا تھاجس کے صرف تین ذرے انسان کو چند سیکنڈ میں ہلاک کرنے کیلئے کافی ہیں۔تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق روسی خفیہ ایجنسی نے ایک آپریشن کے ذریعے لیتِنینکو کو قتل کیا اور اس کی منظوری خود روسی صدر پیوٹن نے دی کیونکہ اب وہ ان کی ضرورت کا نہیں رہا تھا۔ تو جناب جو لوگ سینکڑوں پاکستانیوں کے قاتل بھارتی دہشت گرد جاسوس کو اس کی ماں سے گلے نہ لگنے دینے پر افسردہ ہیں ‘ وہ ذرا جذبات کی دنیا سے باہر نکلیں اور ذرا سوچیں کہ اس کی بیوی اگر ایسے چند ذرات جاسوس کو منتقل کر دیتی جس سے وہ بعد میں خودکشی کر لیتا تو بھارت کتنا واویلا مچاتا۔ کلبھوشن کیلئے ہمدردی رکھنے والے کبھی جا کر ان مائوں کے جذبات بھی دیکھ لیں جن کے بیٹے اس درندے نے بلوچستان اور کراچی میں درجنوں کارروائیوں میں شہید کر دئیے ہیں۔ انہیں آج کلبھوشن کی بیوی سے جدائی تو نظر آ گئی‘ کبھی وہ ان فوجی افسروں اور جوانوں کے گھروں میں بھی جائیں جن کی بیوائوں کے آنسوئوں کی سیاہی ابھی تک خشک نہیں ہوئی اور کچھ نہیں تو ایک روز قبل راولا سیکٹر پر شہید ہونے والے تین پاکستانی فوجی جوانوں کے پیاروں سے ہی مل لیں جنہیں اسی روز بھارت نے سنگ دلی سے فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا جس روز ہم کلبھوشن کیلئے وی آئی پی ملاقات کا اہتمام کر رہے تھے۔
چلیں کلبھوشن کو چھوڑیں‘ آپ ماڈل ٹائون میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے چودہ بے گناہ شہریوں کی موت کے ذمہ داروں پر ہونے والی انعام و کرام کی برسات ہی دیکھ لیں۔ براہ راست فائرنگ جن پولیس افسران کی نگرانی میں ہوئی ان میں سے کئی بیرو ن ملک چلے گئے‘ بعض کو ترقی دے دی گئی‘ بعض کے من پسند جگہ تبادلے کئے گئے‘وزیرقانون رانا ثنا اللہ کو ہٹا کر دوبارہ وزیر بنا دیا گیا حتیٰ کہ اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ‘ جنہیں جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ میں سانحے کا اہم ملزم ٹھہرایا گیا‘ نوازشات کی بارش کرتے ہوئے انہیں بھی ملک سے فرار کروا کر جنیوا میں سفیر تعینات کرا دیا گیا۔ یہ سب جنہوں نے کیا‘ کیا وہ یہ نہیں چاہیں گے کہ آج کلبھوشن کو استعمال کر کے پاکستان کو کسی طرح عالمی سطح پر بدنام کیا جا سکے۔ طاہر القادری نے وزیراعلیٰ اور وزیرقانون کو 31سمبر تک مستعفی ہونے کی جو ڈیڈ لائن دی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے معاملہ اب صرف سانحہ ماڈل ٹائون کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانے کا نہیں رہا بلکہ اس ملک کیبعض ''قومی رہنمائوں‘‘ اور ان کی اولاد کے ہاتھوں سے ملکی سلامتی اور خودمختاری کو بچانا زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔