یہ بچی سے زیادتی او رقتل کا پہلا واقعہ نہیں تھا‘ ایک سال میں صرف قصور میں بارہ بچوں کے ساتھ درندوں نے یہی کچھ کیا لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ میڈیا میں خبریں آئیں تو اسی طرح نوٹس لیا گیا‘ وزیراعلیٰ پنجاب نے اسی طرح ڈی پی او اور پولیس افسران کو معطل کیا جنہیں بعد میں گھر بیٹھے تنخواہیں ملتی رہیں یا وہ پہلے سے بہتر جگہ ٹرانسفر کر دئیے گئے۔ تازہ واقعے کے بعد بھی ہم لکیر پیٹ رہے ہیں‘ میڈیا شور مچا رہا ہے‘ حکمران‘ عدالتیں حتیٰ کہ آرمی چیف نوٹس لے رہے ہیں لیکن ہو گا کیا؟ اگر قاتل پکڑ ابھی گیا تو کیا گارنٹی ہے کہ اسے سزا ملے گی۔ اگر اس نے بچی کے لواحقین سے مہنگا وکیل ہائر کر لیا اور اس کے خلاف شواہد کم پڑے گئے تو پھر اسے کون پھانسی دے گا اورکیوں؟ کون اس کیس کو فالو کرے گا؟ بعد میں بچی کے والدین کی کون سنے گا؟ کس کے پاس ان کیلئے وقت ہو گا؟ اس سے پہلے جو گیارہ بچے قتل کر دئیے گئے ان کے قاتلوں کے ساتھ کیا ہوا؟ اس واقعے کی ذمہ دار پولیس بھی ہے اور پولیس سے پہلے صوبائی حکومت‘ جس نے پولیس کو عوام کی چیڑ پھاڑ کیلئے چھوڑ رکھا ہے۔ آج ہم اس بچی پر بڑے جذباتی ہو رہے ہیں‘ ہم ماڈل ٹائون کی تنزیلہ ‘شازیہ اور پیٹ میں قتل ہونے والے بچے کے دکھ پر بھی بہت دہائیاں دے رہے تھے۔ کیا یہ دہائیاں کسی نے سنیں؟ وقت گزرتا رہا۔ ایک کے بعد ایک بڑا سانحہ ‘ ہر اگلے سانحے کو تاریخ کی گرد میں دھکیلتا رہا۔ نہ پولیس ٹھیک ہوئی‘ نہ پولیس کو تباہ کرنے اور اپنے گھر کی باندی بنانے والے۔ نہ انصاف کا وہ نظام جسے ہم اپنے تئیں افتخار چودھری کو بحال ‘کرا کر ''آزاد ‘‘سمجھ بیٹھے تھے۔ سب کچھ ویسا ہی چل رہا ہے۔ آج بھی پولیس کانسٹیبل تک کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر حکمرانوں اور ان کے بچوں کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتی۔
پیپلزپارٹی کے دور میں اگر کانسٹیبل کی تعیناتی کا ریٹ تین لاکھ فی کس تھا تو آج کچھ بڑھ گیا ہو گا۔یہ پانچ جنوری کاواقعہ تھا۔ پانچ دن سے لواحقین ڈی پی او آفس اور تھانے کے چکر لگارہے تھے‘ کسی نے انہیں گھاس تک نہ ڈالی۔ کیا ملزم کے ساتھ انہیں بھی پھانسی پر نہیں چڑھانا چاہیے؟ وہ پولیس والے جن کی اپنی ایسی ہی بچیاں گھر پر ہوں گی‘ وہی مقدمہ درج اور بچی بازیاب کرانے کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ خدانخواستہ یہ واقعہ کسی اشرافیہ یا وزیر کے گھر پیش آتا تو کیا تب بھی پولیس کا یہی ری ایکشن ہوتا۔ آج بھی پولیس یہ نہیں دیکھتی کہ آپ درخواست کیا لے کر آئے ہیں۔ وہ دیکھتی ہے آپ ہیں کون۔ آپ کی پہنچ کتنی ہے۔کوشش اس کی یہی ہوتی ہے ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر کی جائے تاکہ تھانے کی حدود میں پیش آمدہ واقعات ریکارڈ پر کم آئیں اور اوپر سب اچھا کی رپورٹ جاتی رہے بصورت دیگر پنجاب سپیڈ اور شہباز سپیڈ کا پول کھل جائے گا۔ پولیس افسران کو بھی سمجھنا چاہیے کہ انہیں روز محشر شہباز شریف یا حمزہ شریف کو نہیں بلکہ اللہ کو جواب دینا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا بھی ذمہ داری دکھائے اور ایسے مواقع کو ریٹنگ کیلئے استعمال کرنے سے باز رہے۔ کبھی کسی نے سوچا کہ بچی کی تصویر بار بار ٹی وی پر دکھانے سے کروڑوں والدین کے دلوں پر کیا گزرتی ہو گی؟ بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں‘بچی کا نام چلانے سے ممکن حد تک گریز کرنا چاہیے ‘ صرف بچی کہنا اور لکھنا کافی ہوتا ہے۔ سیاستدان بھی کیچڑ اچھالنے سے باز نہیں آ رہے اور تو اور رانا ثنا اللہ کے اس بیان کو کئی چینلز پر کروڑوں لوگوں نے سنا کہ فوٹیج میں دیکھیں تو بچی خوشی خوشی اس شخص کے ساتھ جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ رانا ثنا اللہ کے کہنے کا مطلب میں تو نہیں سمجھا‘ آپ سمجھیں تو مجھے ضرور بتائیے گا۔ ایک بات مگر انہوں نے درست کہی کہ ایسے جرائم کے پیچھے ملنے جلنے والے ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں شاید وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ والدین خود ہی بچوں کی حفاظت کر لیں‘ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔
جن پولیس والوں نے قصور میں احتجاج کرنے والے دو افراد کو قتل کیا‘ وہ بھی صاف بچ جائیں گے‘ان کے افسر انہیں بچانے کیلئے اگر ایک جملہ لکھ دیں کہ شرپسندوں سے پولیس کو خطرہ تھا اس لئے پولیس نے دفاع میں گولی چلائی تو ملک کے تمام ادارے مل کر بھی پولیس اہلکاروں کا بال بیکا نہیں کر سکتے۔ مجھے نہیں معلوم عمران خان کا یہ دعویٰ کتنا سچا ہے کہ خیبرپختونخوا میں پولیس انتہائی فعال اور ذمہ دار ہے لیکن اگر و ہ ایسا کہتے ہیں تو یہ فیصلہ وہاں کے لوگوں کو کرنا ہے کہ وہ پولیس سے مطمئن ہیں یا نہیں۔ جو دس کروڑ پنجاب میں رہتے ہیں انہیں تو اسی پولیس کو بھگتنا ہے‘ ان کا کیا قصور ہے۔ آپ مجھے بتائیں ایسی اورنج ٹرین اور ایسی میٹرو بس کو اس بچی کا والد کیا کرے جب اس کی بچی کے اغوا پر کوئی تھانیدار اس کی بات تک سننے کو تیار نہ ہو۔ یہ حکمران جان بوجھ کر اورنج ٹرینوں کے لالی پاپ دکھاتے ہیں تاکہ کوئی پولیس‘ تعلیم‘ صحت کے معاملے میں سوال تک نہ کرے۔ کوئی ان سے نہ پوچھے کہ انہوں نے جو چنیوٹ میں پانچ سال قبل اربوں کا سونا دریافت کیا تھا‘ وہ کہاں گیا۔ وہ جس سے ملک کی قسمت بدل جانی تھی اور جس کے بارے میں کہا گیا کہ اب تمام قرضے اتر جائیں گے اور کشکول ٹوٹ جائے گا‘ اس کا سوال ان سے کوئی نہ پوچھے ۔ دو سال قبل لاہور ایئر پورٹ پراربوں کا سونا اور کرنسی سمگل کرنے کے الزام میں جو توفیق بٹ (ٹافی بٹ) نامی شخص پکڑا گیا وہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے جلسوں میں ان کے بالکل پیچھے کھڑا نعرے لگاتا دکھائی دیتا ہے ۔اسی شخص نے نواز شریف کو درجنوں پائونڈ وزنی کیک بھی تحفے میں دیا تھا۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بھی یہ لکھا گیا اربوں روپے کا سونا سمگل کرنے میں ٹافی بٹ کا ہاتھ تھا تو سوال یہ ہے کہ آپ قومی اثاثوں کیساتھ جو کرتے ہیں ان کا حساب آپ سے کون لے گا؟
کیا نواز شریف اور ان کے بھائی جواب دیں گے کہ انہوں نے تین تین بار وزارتوں کے حلوے کھائے تو بدلے میں عوام کو کیا دیا۔ پولیس کی عوام پر سیدھی گولیاں‘ بچوں کے ساتھ والدین کی اجتماعی خودکشیاں‘ انصاف کے حصول کے لئے نابینائوں‘ معذوروں‘ اساتذہ اور کلرکوں کے سڑکوں پر دھرنے؟ملک کو ایسا جنگل بنا دیا گیا ہے جہاں ایف آئی آر کے اندراج کیلئے بندے کو پہلے قتل ہونا پڑتا ہے اور معاف کیجئے انصاف کا نظام بھی ویسے کا ویسا ہے۔ میڈیا نے جس معاملے کو اٹھا دیا اس پر تو از خود نوٹس ہو گیا اور جو بندہ تھانوں میں جا کر رُلتا رہا‘ جو میڈیا تک نہ پہنچ سکا اور چپ چاپ روز قیامت کا انتظار کرنے لگا اس کی بھنک نہ کسی وزیراعلیٰ تک گئی‘ نہ کسی چیف جسٹس اور نہ ہی کسی آرمی چیف کو خبر ہوئی‘ اس کا کیا قصور ہے؟ہمیں نظام چاہیے‘ نظام۔ ایسا نظام جہاں کوئی بھی اپنی بچی کا دُکھ لے کر تھانے جائے تو اسے عزت ملے‘ احترام ملے‘ اس کی بات سنی جائے اور جب مقدمہ درج ہو جائے تو وہ شخص عدالتوں میں ذلیل و خوار نہ ہوتا پھرے ‘ ملزم قانونی پیچیدگیوں کا فائدہ اٹھا کر بری نہ ہو ہمیں ایسا سسٹم چاہیے جہاں کا وزیر پولیس افسران کی پردہ پوشی نہ کر سکے‘ جہاں کے حکمران صرف نمائشی اقدامات پر اکتفا نہ کریں‘ جہاں بچوں سے زیادتی اور سنگین جرائم کے مجرمان کو سعودی عرب کی طرح چوک چوراہے پر سزا دی جائے تاکہ دنیا کو عبرت حاصل ہو اور اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو خدا کیلئے ہمیں افسوس کے یہ چند نمائشی جملے نہ سنائیں‘ یہ نام نہاد قسم کی مذمتیں‘ معطلیاں اور ایکشن اپنے پاس ہی رکھیں‘ ہمیں آپ کی آنیاں جانیاں نہیں چاہئیں‘ گزشتہ تیس برس سے ہم یہی دیکھ رہے ہیں‘ یہی بھگت رہے ہیں‘ خدا کیلئے اس سانحے کو لے کر ہی خود کو‘ اپنی پولیس اور اپنے نظام کو سدھار لیجئے ‘بصورت دیگرآپ اور آپ جیسے دیگر حکمرانوں کاحساب بھی ہو گااور سب کے سامنے ہو گا‘ اس وقت ہو گا جب یہی بچی‘ میدانِ حشر میں سامنے لائی جائے گی اور آپ کا گریبان پکڑ کر آپ سے پوچھے گی ‘ بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ (اے میرے حاکم) میں کس گناہ میں ماری گئی تھی اور جناب شہباز شریف صاحب ‘ پچیس دسمبر کو صرف دو ہفتے قبل آپ نے کوئی پچاسویں مرتبہ فرمایا ‘ عوام کو ان کا حق نہ دیا تو خونی انقلاب آئے گا‘ تو جناب یہ نظام اگر سات برس کی اغوا‘ زیادتی اور قتل ہونیوالی کچرے کے ڈھیر سے ملنے والی معصوم بچیوں کی ایک ایف آئی آر تک آرمی چیف اور چیف جسٹس کے نوٹس کے بغیر نہیں کاٹ سکتا تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ خونی انقلاب جس کی آپ ہمیشہ بات کرتے ہیں وہ لاہور سے صرف تیس میل کے فاصلے پر ہے؟