ہمارے میڈیا کے بعض آئن سٹائن کبھی کبھار بہت اچھی تجاویز دیتے ہیں‘ امبر الرٹ ان میں سے ایک ہے۔ تاہم ایسا کرتے وقت ہمیشہ چند نکات کو یا تو ڈسکس ہی نہیں کیا جاتا یا پھر سیاسی جھکائو ان پر روشنی ڈالنے کے آڑے آ جاتا ہے۔ عوامی اور نازک ایشو پر بات ہمیشہ سیدھی اور کھری کہنی چاہیے۔ یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ ہمارے کچھ ''مہربان‘‘ خفا ہو جائیں گے۔ امبر الرٹ صرف ایک آگاہی نظام ہے جو کسی بھی جرم کی چندبنیادی تفصیلات معاشرے کو مہیا کر سکتا ہے‘ پاکستان جیسے ملکوں میں اصل کام امبر الرٹ سے آگے شروع ہوتا ہے۔
آپ اس کے لئے سانحہ ماڈل ٹائون کی مثال لے لیں‘ آپ ایک منٹ کے لئے امبر الرٹ کو درجنوں ٹی وی کیمرے سمجھ لیں‘ فائرنگ کرنے والی پولیس کو اغوا کار اور قتل ہونے والے چودہ افراد کی جگہ ننھی زینب کو رکھ لیں ۔ سانحہ ماڈل ٹائون قصور جیسے پسماندہ ضلع میں پیش نہیں آیا بلکہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کے گھر سے چند فرلانگ پر سولہ گھنٹے تک فائرنگ ہوتی رہی ‘ لاشیں گرتی رہیں اور میڈیا کے علاوہ سی سی ٹی وی کیمرے بھی کور کرتے رہے‘ جو پولیس والے آپریشن کرنے آئے وہ کسی گمنام تھانوں سے برآمد نہیں ہوئے یا افغانستان سے سرحد پار کر کے نہیں آئے بلکہ ان سب کے نام ‘ ان کے عہدے‘ ان کے گھروں تک کے پتے‘ سب کچھ ہمیں معلوم ہے‘ اس کے باوجود سوائے گاڑیاں توڑنے والے نفسیاتی مریض گلو بٹ کے‘ کسی مجرم کو سزا تو درکنار‘ ہاتھ تک نہیں لگایا جا سکا۔ آپ ریمنڈ ڈیوس قتل کیس کو بھی دیکھ لیں۔ ریمنڈ ڈیوس لاہور میں تعینات امریکی ذیلی سفارتخانے کا ملازم تھا جس نے 27 جنوری 2011ء کو مزنگ لاہور کی سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے دو نوجوانوں کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ چونکہ مزنگ کے علاقے میں اس وقت انتہا کا رش تھا چنانچہ ملزمان راہ گیروں کے قابو آ گئے اور بادل نخواستہ پولیس کو بھی انہیں گرفتار کرنا پڑا۔ ڈیوس کے ہاتھوں قتل ہونے والے ایک نوجوان کی بیوہ نے انصاف نہ فراہم ہونے کے خدشہ پر احتجاجاً خود کشی کر لی ۔ جبکہ 6مارچ 2011ء کو مقتولین کے ورثاء کی طرف سے معافی بعوض دو ملین ڈالر دیت کے وعدہ پر عدالت نے ریمنڈ ڈیوس کو بری کر دیا۔ اب آپ پشاور میں گزشتہ برس زرعی ڈائریکٹوریٹ پر ہونے والا حملہ اور اس پر ایکشن بھی دیکھ لیں۔یہ حملہ اے پی ایس طرز پر کیا گیا ‘دہشت گردوں نے ایک بار پھر طالب علموں کو نشانے پر رکھا تاہم ان دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کیلئے خیبرپختونخوا پولیس نے انتہائی سرعت سے جواب دیا ۔کے پی پولیس پانچ منٹ کے اندر جائے واقعہ پر پہنچی اور ایک بڑا سانحہ ہونے سے بچایا۔ اس تمام کارروائی میں سب سے زیادہ نمایاں ایس ایس پی آپریشنز سجاد خان رہے جو خود اپنے جوانوں کے ساتھ سینہ سپر ہوکر حملہ آوروں کی گولیوں کا سامنا کرتے رہے۔پولیس کی یونیفارم کی بجائے ٹی شرٹ اور ٹراؤزر زیب تن کیے ایس ایس پی لیول کے افسر کو اس طرح دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے دیکھ کر عوام نے بھی اپنی فورسز کی بھرپور تعریف کی اور سوشل میڈیا پر اس جانباز کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔یہ کارروائی اتنی موثر تھی کہ پاک فوج نے بھی خیبرپختونخوا پولیس کی کارکردگی کی شاندار الفاظ میں تعریف کی۔ذرا غور کیجئے‘ ماڈل ٹائون اور ریمنڈ ڈیوس کیس میں قاتل اور مقتول کیمرے کے سامنے ایک دوسرے سے لڑتے بھڑتے پکڑے گئے لیکن ان کا انجام آپ نے دیکھ لیا۔ ماڈل ٹائون کا سانحہ ابھی تک چوتھی مرتبہ وزیراعلیٰ بننے والوںکے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے اور سترہ جنوری سے لاہور میں دھرنوں اور احتجاج کا نیا موسم شروع ہونے والا ہے جبکہ ریمنڈ ڈیوس کا قاتل امریکہ جا کر اپنی کارگزاری پر بیسٹ سیلر کتاب بھی لکھ چکا ہے۔تاہم تیسری مثال ایک ایسے صوبے کی تھی جہاں صرف چار برس قبل تحریک انصاف کو حکومت ملی‘ جو صوبہ دھماکوں اور طالبان کا مرکز بن چکا تھا اور وہاح سیاح تو درکنار کوئی مجبوری کا مارا بھی جانے سے پہلے سو مرتبہ سوچتا تھا‘ آج اس ملک کی فوج اس صوبے کی پولیس کی کارکردگی کے گن گا رہی ہے‘ ذرا سوچیں‘ یہ سب کسی ایپ یا الرٹ کی وجہ سے ممکن ہوا یا پولیس کی کارکردگی سے؟
ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ پنجاب آئی ٹی بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر عمر سیف پنجاب کا بہت بڑا اثاثہ ہیں۔ میں صوبائی حکومت کا بہت ناقد رہا ہوں‘ مجھے شہباز شریف کے نمائشی اقدامات بھی پسند نہیں ہیں‘ ہیلی کاپٹر پر ہنگامی دورے‘برائے نام معطلیاں اور سرزنش ایک ایسا دکھاوا ہے جس سے عوام کو فائدہ ہوا نہ ملک کو۔ تاہم ڈاکٹر عمر سیف وزیراعلیٰ پنجاب کی ایسی دریافت ہیں جن کی وجہ سے پنجاب کابہت فائدہ ہو رہا ہے۔ آج پنجاب کا تقریباً ہر محکمہ آن لائن ہو چکاہے۔ سب کی ایپس بن رہی ہیں اور موبائل کے ذریعے گھر بیٹھے ضروری معلومات بھی میسر ہو رہی ہیں۔ڈاکٹر عمر سیف کا شمار دنیا کے پینتیس بہترین نوجوان آئی ٹی ماہرین میں ہوتا ہے ‘ وہ امریکہ میں لاکھوں ڈالر کی نوکری ٹھکرا کر صرف اس لئے یہ ذمہ داری نبھانے آئے کیونکہ وہ اپنے وطن کو ٹیکنالوجی کے میدان میں پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے تھے۔ سرکاری اداروں میں کسی ایسے شخص کو لانا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ جس طرح بعد میں ایسے ذہین افراد کے پھٹے اکھیڑے جاتے ہیں‘ انہیں سیاست اور الزامات کی نذر کیا جاتا ہے اسے دیکھ کر کوئی بھی ذہین نوجوان سرکاری ذمہ داریاں نبھانے کو تیار نہیں ہوتا۔ نادرا کے سابق چیئرمین طارق ملک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہ خالصتاً ایک ٹیکنالوجی ایکسپرٹ تھے جنہیں نادرا کو تکنیکی طور پرموثر بنانے کے لئے چیئرمین بنایا گیا۔ اگر ان کی جگہ عابد شیر علی یا طلال چودھری کا کوئی بھتیجا بھانجا یہ کام کر سکتا ہوتا تو کبھی طارق ملک یا ڈاکٹر عمر سیف جیسے ماہرین کو زحمت نہ دی جاتی۔ یہ لوگ اپنی ساری توانائیاں اور صلاحیتیں ملکی خوشحالی کے لئے کھپا دیتے ہیں لیکن وہی ایک روز عوام کے سامنے مجرم بنا دئیے جاتے ہیں حتیٰ کہ ایک دن ان کا اپنا شناختی کارڈ تک بلاک کر دیا جاتا ہے اور انہیں اپنی جان بچانے کیلئے وطن چھوڑنا پڑتا ہے۔ ہم بھی بڑے بدقسمت لوگ ہیں کہ بجائے ان کا شکر ادا کرنے کے‘ ہم ایسے نوجوانوںکو اپنے قلم کے نشتر چبھونا شروع کر دیتے ہیں۔ ہماری کھجلی اس وقت تک ختم نہیں ہوتی جب تک طارق ملک جیسے لوگ ملک چھوڑ کر چلے نہیں جاتے۔ ڈاکٹر عمر سیف امبر الرٹ سے بہتر ایپ بھی بنا دیں گے اور انہیں بنانی چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ جب اس ایپ سے پکڑا جانے والا مجرم قصور یا ماڈل ٹائون کے کسی حکمران خاندان کے عزیز کا کوئی جاننے والا یا سفارشی نکل آئے‘ وہ پولیس کو باقاعدگی سے بھتہ دینے والا سیریل کلر یا کسی لیگی ایم پی اے کے لئے چند سو ووٹ اکٹھے کرنے والا ہی نکل آئے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اسے گرفتار کیا جائے گا اور گرفتاری کے بعد اسے بچانے کے لئے یہی قوتیں سرگرم نہیں ہو جائیں گی؟ اس بات کی بھی کیا گارنٹی ہے کہ پولیس اسے جعلی مقابلے میں مار نہیں دے گی؟ ہم جن ممالک سے ایسی ایپس کی مثالیں ڈھونڈ کر لا رہے ہیں‘ وہاں قانون اور انصاف کی حکومت ہے۔ وہاں کا وزیراعظم بھی سگنل کراس کرنے پر چالان کروا بیٹھتا ہے‘ وہاں تو پاناما پیپرز میں دادا کا نام آنے پر پوتا استعفیٰ دینے کو تیار ہو جاتا ہے‘ وہاں کی پولیس زینب جیسی بچیوں کی کچروں سے ملنے والی لاشوں کے عوض ان کے لواحقین سے دس ہزار روپے طلب نہیں کرتی‘وہاں کوئی حکمران یا اس کا بیٹا فون پر پولیس کی تقرریاں تبادلے نہیں کرتا۔ جناب عالی! یہ پاکستان ہے۔ پاکستان۔ یہاں مجرم تک پہنچنا‘ یا اسے پکڑنا کافی نہیں ہوتا‘ بلکہ اصل کہانی اس کے بعد شروع ہوتی ہے اور معاف کیجئے ہماری یہ کہانی ابھی تک ادھوری ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے ہم زینب جیسی بچیوں کو بھیڑیوں اور درندوں سے بازیاب تو کرانا چاہتے ہیں لیکن پنجاب پولیس کو شریف خاندان سے بازیاب کرانے کو تیار نہیں‘ہم ایک ایپ‘ ایک الرٹ کے ذریعے ملزم تک پہنچنا چاہتے ہیں لیکن جس پولیس نے انہیں پکڑنا ہے ہم اسے ان کے ہاتھ‘ ان کا اعتماد لوٹانے کو تیار نہیں۔ ہمیں زینب الرٹ کے ساتھ پولیس بھی الرٹ چاہیے اور یقین کیجئے‘جب تک ہم پولیس کو خیبرپختونخوا کی طرح اس کے دونوں ہاتھ‘ اس کااعتماد نہیں لوٹاتے‘ جب تک ہماری عدالتیںقاتل کی بجائے مقتول کے آنسو پونچھنے کو تیار نہیں ہوتیں‘ ہم زینب الرٹ جیسی ہزاروں ایپس بنا لیں‘ ہماری نوحہ خوانی یونہی چلتی رہے گی ‘ ہم زینب جیسی کرچیاں اپنی پلکوں سے اٹھاتے رہیں گے!