چلڈرن ہسپتال ماڈل ٹائون میں شریف برادران کی رہائش گاہ سے چند فرلانگ کی دوری پر واقع ہے۔اگر آپ پیدل چل کر ہسپتال جانا چاہیں تو آپ کو زیادہ سے زیادہ دس منٹ چاہئیں۔رہائش گاہ اور ہسپتال کے درمیان فیروز پور روڈ ہے جس کے درمیان میں شیر شاہ سوری کے منصوبوں جیسا ایک میٹرو بس منصوبہ بھی ہے۔ جس طرح شیر شاہ نے سہسرام سے پشاور تک گرینڈ ٹرنک روڈ یعنی جرنیلی سڑک تعمیر کروائی تھی اسی طرح لاہور کے وسط میں وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ستائیس کلومیٹر طویل میٹرو بس منصوبہ تعمیرکیا۔ یہ اپنی نوعیت کا دنیا میں واحد ‘ جدید ترین اور اچھوتا منصوبہ ہے کیونکہ اس میں دونوں اطراف پر دس دس فٹ بلند لوہے کے جنگلے کی دو دیواریں بھی تعمیر کی گئی ہیں جو دیوار چین کو بھی مات دیتی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ایشیا ہی نہیں بلکہ دنیا کا اپنی طرز کا شاندار منصوبہ ہے جس کا عوام جتنا شکر ادا کریں‘ کم ہے۔ اگر شریف برادران کی رہائش گاہ سے چلڈرن ہسپتال کی جانب پیدل چلیں تو درمیان میں جنگلوں کی ان دو دیواروں کو پار کرنے کے لئے ایک سٹیشن بھی بنایا گیا ہے۔ اس سٹیشن پر برقی اور عام سیڑھیاں موجود ہیں جنہیں استعمال کر کے آپ دوسری جانب دو تین منٹ میں پہنچ سکتے ہیں۔جیسے ہی آپ دوسری جانب اترتے ہیں‘ آپ کو بالکل سامنے چلڈرن ہسپتال کی عمارت نظر آتی ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پنجاب میں بچوں کا واحد سرکاری ہسپتال ہے کیونکہ پنجاب میں بچوں کی زیادہ تعداد امیر بچوں کی ہے جو اپنا علاج مہنگے ہسپتالوں سے کرانا پسند کرتے ہیں چنانچہ ہر حکمران نے پیسے ضائع کر کے بچوں کے لئے ایسے مزید ہسپتال بنانے کی غلطی نہیں کی۔ اس ہسپتال کے قیام کی کہانی انتہائی دلچسپ ہے۔ 1984ء میں ضیاء الحق کو خیال آیا کہ لاہور میں کوئی سرکاری ہسپتال ایسا بھی ہونا چاہیے جہاں صرف بچوں کا علاج ممکن ہو سکے۔''محض‘‘ چھ برس کے اندر اندر اس خیال کو عملی جامہ پہنا دیا گیا اور 1990ء میں اس کی پہلی اینٹ رکھ دی گئی ۔ انتہائی ''تیزی‘‘ سے اس پر کام شروع ہو گیا اور 1995ء میںصرف پانچ برس کی ''قلیل‘‘ مدت میں اسے مکمل کر دیا گیا۔ یوں جو خواب 1984ء میں دیکھا گیا تھا‘ اسے شرمندئہ تعبیر ہونے میں محض گیارہ برس لگے۔ 1995ء سے اب تک مزید بائیس برس گزر چکے ہیں‘ اس دوران غالباً شہباز شریف صاحب تین مرتبہ وزیراعلیٰ بن چکے ہیں‘ لیکن صوبے میں بچوں کا ایک بھی ایسا مزید ہسپتال قائم نہیں کیا گیا ‘ اس لئے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ اہم منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ البتہ شیخوپورہ میں ایک شہباز شریف چلڈرن ہسپتال موجود ہے جہاں گزشتہ روز وینٹی لیٹر نہ ہونے پر تین سالہ بچی زینب سات گھنٹے انتظار کے بعد انتقال کر گئی۔
یقینا پشاور‘ کوئٹہ اور کراچی کے مقابلے میں لاہور کی شکل ہی تبدیل کر کے رکھ دی گئی ہے‘ ہر جانب انڈر پاس‘لال رنگ کی خالی چلنے والی سپیڈو بسیں‘ بے لگام پولیس اور نہ جانے کیا کیا۔ لیکن یہ کیا؟ جب آپ اس چلڈرن ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو عجیب سا جھٹکا لگتاہے۔ آپ کو لگتا ہے آپ انارکلی کے عقب میں واقع مچھلی بازار آ گئے ہیں جہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ خادم اعلیٰ کے ہسپتال کی اتنی ڈیمانڈ دیکھ کر آپ بھونچکے رہ جاتے ہیں۔ آپ سوچتے ہیں آپ یونہی ان کے کاموں پر تنقید کرتے رہے۔ یہاں تو لوگ ہزاروں کی تعداد میں اپنے بچے لے کر آ رہے ہیں۔ آخر کوئی خاص بات ہو گی جبھی تو آتے ہوں گے۔ آپ اِدھر اُدھر سے پوچھتے ہیں کہ معاملہ کیا ہے‘ آج اتنا رش کیوں ہے تو آپ کو بتایا جاتا ہے یہ روزانہ کا معمول ہے۔ آج آئو گے تو کل باری آئے گی۔ صبح ڈاکٹر کو چیک کرانا ہے تو رات کو ہی قطار میں لگنا پڑے گا وگرنہ بات اگلے دن تک پہنچ جائے گی اور اگلے روز بھی باری آ جائے‘ ڈاکٹر مل جائے‘ ڈاکٹر یا پیرامیڈیکل سٹاف ہڑتال ہی نہ کر دیں یا کسی مشین میں خرابی پیدا ہو جائے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کا انحصار آپ کی ہاتھوں میں موجود لکیروں اور قسمت پر ہے۔آپ اسی شش و پنج میں ہوں گے کہ آپ کو اچانک شور کی آواز آئے گی جیسے جھگڑا ہو رہا ہے۔ یکایک کوئی عورت چیخنا چلانا شروع کر دے گی‘ ہائے میرا بچہ ‘ہائے میرا پھول۔ پتہ چلے گا یہ عورت پچھلے کئی سالوں سے یہاں آ رہی تھی‘ اس کے بچے کے دل میں پیدائشی سوراخ تھا لیکن وہ جب بھی یہاں آتی اسے اگلے برس کا ٹائم دے دیا جاتا۔ آج بچے کا وقت پورا ہو چکا تھا چنانچہ اس نے ماں کی گود میں آخری ہچکی لی اور چل بسا۔
پاکستان میں ہر ایک سو میں ایک بچہ دل کے نقص کے ساتھ پیدا ہوتا ہے‘ یہ نقص کئی قسم کے ہوتے ہیں‘ ان بچوں کے دل میں سوراخ ہوتا ہے‘ ان کا دل مکمل نہیں ہوتا‘ دل کا ایک حصہ مکمل دوسرا نا مکمل ہوتا ہے‘دل کے والو مکمل بند یا تنگ ہوتے ہیں‘دل کی شریانیں الٹی لگی ہوتی ہیں یا دل بائیں کی بجائے دائیں جانب یا سینے سے باہر ہوتا ہے ‘ ایسے غریب بچوں کیلئے حکومت نے چلڈرن ہسپتال یا پنجاب کارڈیالوجی میں علاج کی سہولت دی ہوئی ہے‘ لیکن یہاں آنے والوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے‘ یہ کن مشکلات سے گزرتے ہیں‘ ان کی باری کئی کئی سال بعد کیوں آتی ہے اور یہ بچے اپنا دُکھ اور اپنا درد لیکر دنیا کو خدا حافظ کہنے پر مجبور کیوں ہوجاتے ہیں‘ یہ ایسے سوال ہیں جن کا جواب ہم سب کو تلاش کرنا ہو گا‘ فی الوقت اتنا سمجھ لیجئے کہ پاکستان میں سالانہ دس ہزار بچوں کو دل کے آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ان دونوں ہسپتالوں میں آپریشن کی سہولیات اور گنجائش کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یہاں صبح شام بھی آپریشن ہوں تو ایک سال میں پندرہ سو بچوں سے زیادہ آپریشن نہیں ہو سکتے‘ان میں سے ایک سے دو ہزار بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا آپریشن ملک میں ممکن ہی نہیں ہوتا‘ دوسرے لفظوں میں پانچ سے سات ہزار بچے ایسے ہوتے ہیں جو پرائیویٹ علاج نہیں کرا سکتے اور کئی کئی سال باری کا انتظار کرتے ہوئے موت کا جام پینے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ یہ بچے کہاں جائیں؟ یہ باتیں ہمیں معلوم ہیں تو کیا شریف برادران جن کے گھر سے ہسپتال کا پیدل فاصلہ دس منٹ کا ہے‘ انہیں معلوم نہ ہوں گی اور اگر معلوم ہیں تو کیا شہروں کو خوبصورت اور نیلی پیلی بسوں ٹرینوں کے منصوبے بنانا سالانہ ہزاروں ایسے دل کے تڑپ تڑپ کر مرنے والے بچوں کو بچانے سے زیادہ ضروری ہے؟
اس پر ظلم یہ کہ جب آپ اس پر آواز اٹھاتے ہیں تو اس کے جواب میں شہبازشریف صاحب یا ان کے احسان مند آپ کو یہ ''دلیل‘‘ دیتے ہیں کہ باقی صوبوں نے کون سے اعلیٰ تعلیمی ادارے اور عالمی معیار کے ہسپتال قائم کر دئیے ہیں جو شہباز شریف صاحب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تو جناب اس کا جواب اگر چاہیے تو خود کسی دن چلڈرن ہسپتال لاہور میںچلے جائیں اور وہاں کے شعبہ ہارٹ کے چیف ڈاکٹر مسعود صادق سے مل لیں‘ وہ آپ پر ساری حقیقت واضح کر دیں گے۔ ڈاکٹر مسعود صادق نے اپنے گھر میں میرے سامنے بیٹھ کر مجھے بتایا تھا کہ ہم دل کے مریض بچوں کو تین تین چار چار سال بعد کی تاریخیں دینے پر مجبور ہیں کیونکہ نہ یہاں بچوں کے اتنے سرجن ڈاکٹر ہیں اور نہ ہی آپریشن کی ضروری سہولیات۔ پورے پنجاب سے یہاں بچے آ رہے ہیں ہم چار سرجنز کیا کریں؟ اگر ایسی دلیلیں قبول کرلی جائیں تو کل عمران خان یا آصف زرداری سے پشاور یا کراچی کے ہسپتالوں بارے پوچھا جائے گا تو کیا ان کا بھی یہ جواب قبول کر لینا چاہیے کہ پنجاب یا بلوچستان میں ن لیگ یا ق لیگ نے کون سے تیر مار لیا ہے جو ہم پر تنقید کر رہے ہیں۔جناب عالی! بات صرف ترجیحات کی ہے۔ والدین اپنے بچے کو تعلیم‘ صحت اور اچھی تربیت کی بجائے اگر دو سو سی سی موٹرسائیکل‘ کھلا جیب خرچ ‘ مہنگا موبائل فون اور ایک پستول دے دیں‘ اسے سڑکوں پر آوارگی کے لئے چھوڑ دیں تو بچہ کیا بنے گا اور کیا ایسے والدین کو ذمہ دار کہا جا سکتا ہے۔ وارڈن ریڈ سگنل توڑنے پر پکڑے تو کیا آپ کو اس لئے چھوڑ دے کہ فلاں نے بھی تو سگنل توڑا ہے‘ اس کو کیوں نہیں پکڑتے۔عالی مقام! اگر آپ نے حساب ہی برابر کرنا ہے تو پھر سارے کے سارے تھانے اور عدالتیں بند کرا دیں‘ ووٹ مانگنا اور الیکشن کرانا چھوڑ دیں‘ جمہوریت کا ڈھونگ رچانا ختم کر دیں اور ماڈل ٹائون سانحے کی طرح دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو بھی چودہ چودہ شہریوں کو پولیس کے ذریعے گولیاں مروانے کا حق دے دیں‘ حساب برابر ہو جائے گا!