"ACH" (space) message & send to 7575

سعودی طرز کا احتساب

سالسبری ملکہ وکٹوریہ کے زمانے میں حکومت برطانیہ کے وزیراعظم تھے‘ اس زمانہ میں کار کا رواج نہ تھا‘ وزیراعظم سالسبری اپنی سائیکل پر جا رہے تھے‘ ایک مقام پر وہ سڑ ک کے غلط رخ سے گزرنے لگے تو سڑک پر متعین کانسٹیبل نے انہیں روکا‘ وزیراعظم نے کانسٹیبل کو بتایا '' حضور‘ میںآپ کے ملک کا وزیراعظم ہوں اور چونکہ مجھے عجلت تھی‘ اس لئے مجھ سے ٹریفک کے ضابطہ کی خلاف ورزی ہو گئی‘‘ کانسٹیبل نے جواب دیا ''میں بھی اسی ملک کا کانسٹیبل ہوںاورمیرا فرض ہے کہ ٹریفک کی خلاف ورزی نہ ہونے دوں‘‘ یہ کہہ کر اس نے وزیراعظم برطانیہ کا چالان کر دیا‘ وزیراعظم جانے لگے تو وہ پھر سے سامنے آ گیا اور نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا '' جناب! یہاں سے نہیں‘ واپس جایئے اور جہاں سے سڑک شروع ہوتی ہے وہاں سے سیدھی سمت میں آئیں‘‘ وزیراعظم نے بے چون و چراں ٹریفک کانسٹیبل کا حکم مان لیا‘ واپسی پر اس واقعے کا ذکر انہوں نے ملکہ وکٹوریہ کے پرائیویٹ سیکرٹری سے کر کے اس فرض شناس کانسٹیبل کو خراج تحسین پیش کیا۔
جی ہاں یہ وہ برطانیہ ہے جہاں تیس تیس سال سے اس ملک پر حکومت کرنے والے شریف خاندان کے اثاثے‘ کاروبار ‘بینک اکائونٹس اور بچے مستقل طور پر مقیم ہیں۔ یہ لندن کے مہنگے ترین علاقے میں مقیم ہیں‘ دنیا کی اعلیٰ ترین کاریں اور جہاز استعمال کرتے ہیں اور مہنگے ترین برانڈز کے کپڑے زیب تن کرتے ہیں لیکن جب یہ لندن کی سڑکوں پر آتے ہیں‘ جب یہ اپنے قدم اپنے محلوں سے باہر رکھتے ہیں تو یہ نہ چاہتے ہوئے بھی عام انسان بننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح برطانوی وزیراعظم سالسبری کو ایک ٹریفک وارڈن کا حکم تسلیم کرنا پڑا۔سوال یہ ہے کہ اگر ایسے حکمرانوں کی اگر ساری دولت ملک سے باہر پڑی ہے‘ ان کا مرنا ان کا جینا لندن‘ دبئی اور نیویارک سے وابستہ ہے تو پھر یہ کیوں کہتے ہیں کہ ان سے بڑا ملک کا وفادار کوئی نہیں۔صرف شریف خاندان ہی نہیں اس ملک کی اشرافیہ بھی انہی کے نقش قدم پر چل نکلی ہے۔ جو کوئی پی ٹی وی کا چیئرمین لگ جاتا ہے یا کسی اور سرکاری ادارے میں جسے چھ ماہ مل جاتے ہیں اس کی کوشش ہوتی ہے جتنا لمبا ہاتھ مار سکتا ہے مار لے اور ساری دولت اٹھا کر بیرون ملک لے جائے تاکہ اسے یہاں کوئی پوچھ نہ سکے۔ ایسے تمام لوگوں کے اب برے دن آ گئے ہیں جنہوں نے پاکستان میں ناجائز طور پر پیسہ کمایا اور اسے بیرون ممالک کسی نہ کسی شکل میں منتقل کر دیا۔گزشتہ دنوں چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثارنے انتہائی اہم مسئلے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ اکثر پاکستانیوں کے ملک سے باہر بینک اکاؤنٹس ہیں اور تمام رقوم بادی النظر میں غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کی گئیں۔ عدالت نے اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایس ای سی پی سے تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے قرار دیا کہ بیرون ملک رقوم بھیجے جانے سے ملک میں عدم توازن پیدا ہوا ۔عدالت نے خفیہ اداروں آئی بی،ایم آئی اور آئی ایس آئی سے بھی پاکستانیوں کی بیرون ملک اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کرلیں۔چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ برٹش ورجن آئی لینڈ، سپین،سوئٹزرلینڈ، دبئی اور برطانیہ میں پاکستانیوں کے بنک اکاؤنٹس کی تفصیل فراہم کی جائے ۔نواز شریف کے پاناما کیس میں پھنسنے کے بعد ایک رائے یہ بھی سامنے آ رہی تھی کہ چلیں انہیں اقاما پر ہی سہی نکالا تو گیا لیکن وہ ساری دولت جو اس کیس کی بنیاد ہے اور جسے یہاں سے خفیہ طور پر لے جا کر لندن فلیٹس خریدے گئے اور جنہیں اتنا عرصہ چھپایا گیا وہ دولت جب تک پاکستان واپس نہیں آتی تب تک یہ کیس اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا نہ ہی آئندہ یہ لوٹ مار رُک سکے گی ۔نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانا کوئی بڑی سزا اس لئے نہیں کہ وہ اقامے کی بددیانتی ثابت ہونے پر قانونی طورپر پبلک سروس ہولڈر نہیں رہ سکتے تھے۔ رہی بات ان کے پاناما کیس کی تو اس کا فیصلہ چھ ماہ مکمل ہونے پر اٹھائیس فروری کے بعد آ جائے گا ۔ اسی لئے شریف خاندان نے عدلیہ مخالف مہم بھی تیز کر دی ہے اور ایسے ہی ایک ''خودکش حملے‘‘ میں نہال ہاشمی اڈیالہ جیل کو پیارے ہو چکے ہیں۔ان کے بعد طلال چودھری اور دانیال عزیز کی باری ہے جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنے بیٹھے ہیں اور ایک خاندان کو خوش کرنے کی کوشش میں ملک میں انتشار کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔اگلی باری مریم نواز اور نواز شریف صاحب کی ہے۔ گزشتہ چھ ماہ سے جس طرح عدلیہ پر حملے کئے گئے اس کا حساب دینے کا وقت آ چکا ہے۔ فی الوقت جسٹس ثاقب نثار کا یہ از خود نوٹس اشرافیہ کی نیندیں حرام کئے ہوئے ہیں جس کے بعد ان کی بیرون ملک پڑی تمام تر دولت کی رپورٹ چند دن میں منظر عام پر آ جائے گی۔ ایسے لوگوں کے ساتھ وہی ہونا چاہیے جو سعودی عرب میں بدعنوانی مہم میں گرفتار 437افراد اور شہزادوں کے ساتھ ہوا۔ درجنوں شہزادے ، اعلیٰ حکام اور بڑی کاروباری شخصیات بشمول کابینہ کے کئی اراکین اور ارب پتی لوگ اس کرپشن کو ختم کرنے کے نام پر شروع کی گئی مہم کے تحت حراست میں تھے ۔ سعودی حکومت نے غالباً ایک سو بلین ڈالر کی ریکوری کا ہدف رکھا تھا لیکن وہ گرفتار افراد سے اپنے ہدف سے زیادہ یعنی 106بلین ڈالر کی رقم نکالنے میں کامیاب رہے۔یہ رقم اثاثہ جات بشمول جائیداد، کمرشل کمپنیوں، سکیورٹیز اور نقدی کی صورت میں آئی ہے ۔زیر حراست ارب پتی شہزادوں میں پرنس ولید بن طلال بھی تھے جن کے مغربی ممالک اور امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیوں میں حصص ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی ولید بن طلال موجود ہیں۔ لوگ ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک دیکھنا چاہتے ہیں۔ جن جن لوگوں کی رقوم غیرقانونی طور پر بیرون ملک موجود ہیں‘ انہیں یہ موقع دیا جائے کہ وہ اسے ایک ہفتے کے اندر جسٹی فائی کریں بصورت دیگر ایسے افراد کو سعودی شہزادوں کی طرح گرفتار کر کے فائیو سٹار ہوٹلوں اور چھانگا مانگا ریسٹ ہائوسز میں منتقل کر دیا جائے جہاں نواز شریف صاحب نے ہارس ٹریڈنگ کی بنیاد رکھی تھی اور جب تک یہ لوگ رقم واپس نہ کریں انہیں رہا نہ کیا جائے۔ آصف علی زرداری کے چھ ملین ڈالر کی طرح کا احتساب عوام کو قبول نہیں نہ ہی سرے محل جیسا کہ جس میں ایک دھیلے کی رقم بھی واپس نہ آئی اور وزیراعلیٰ شہباز شریف جو ببانگ دہل یہ اعلانات کرتے تھے کہ وہ ان کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی رقم واپس لائیں گے‘ گزشتہ ساڑھے چار برس سے موصوف بھی خاموش ہیں۔ کسے خبر نہیں یہ نعرہ انہوں نے عوام کو لبھانے کے لئے لگایا تھا جبکہ اندر کھاتے دونوں سیاسی جماعتوں کا آپس میں ''مذاق جمہوریت‘‘ چل رہا تھا۔ اس سال کے آغاز پر پاکستان نے ٹرمپ کی دھمکیوں پر امریکہ سے امداد نہ لینے کا اعلان تو کر دیا لیکن کیا ہم نے ملکی معیشت کو چلانے اور خزانہ بھرنے کے لئے کوئی حکمت عملی اپنائی ہے؟ پاناما میں چار سو سے زائد لوگوں کے نام ہیں ‘نواز شریف سمیت تمام لوگوں کی بیرون ملک منتقل کی گئی ناجائز رقم واپس آ جائے تو پاکستان کا سارا قرض اتر سکتا ہے۔ فی الوقت تو ہمارے پاس تین چار ماہ سے زیادہ کے زرمبادلہ کے ذخائر موجود نہیں‘ امپورٹ بل بھی بڑھتا جا رہا ہے‘ حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر کے سارا بوجھ عوام پر منتقل کر رہی ہے۔ یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ اگر عمران خان کی ساری کمائی پاکستان میں موجود ہے تو پھر باقی کیا چاند سے اترے ہیں؟ یہ شخص جیسا بھی ہے کم از کم پاکستان کی مٹی کے ساتھ مٹی بن کر تورہنا چاہتا ہے۔ ابھی تک جتنے بھی کیس چلے ہیں خان کی بیرون ملک ایک پائی کی رقم کی موجودگی ثابت نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس نواز شریف صاحب کے دونوں بیٹے ملک واپس آنے کو تیار ہیں نہ ہی یہ ملک ان کی ترجیح ہے۔انہوں نے اپنے ابا جی کو بھی سمجھایا ہے کہ چھوڑیں اقتدار کو‘ بیرون ملک جو اتنا سرمایہ پڑا ہے اس کو سنبھالیں اور سکون کی زندگی گزاریں۔ابا جی مگر کسی اور مار پر ہیں۔ کبھی تو واقعی لگتا ہے وہ نریندر مودی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور اس ملک اور اس کے اداروں کی دھجیاں اڑانا ان کی زندگی کی آخری خواہش بن چکا ہے۔ جس طرح ایک طویل ٹرائل کے بعد ڈاکٹر عاصم حسین کو دوبارہ چیئرمین ایچ ای سی لگا دیا گیا ہے اس کے بعد احتساب کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس مسئلے کا حل وہی ہے کہ پکڑیں ان ساروں کو اور ڈالیں سعودی عرب کی طرح کسی ہوٹل یا تھانے میں اور دیں پولیس کے ہاتھ میں تیرہ نمبر کا چھتر بالکل اسی طرح جس طرح پولیس کسی غریب چور سے موبائل فون برآمد کراتی ہے یا قصور کے بے گناہ مدثرکو کسی بچی سے زیادتی کا اعتراف کرنے پر مجبور کرتی ہے ‘ پھر دیکھیں کیسے لوٹی ہوئی دولت ان کی توندوں اور معدوں سے اُبل کر باہر آتی ہے!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں