"ACH" (space) message & send to 7575

پنجاب میں تبدیلی

پنجاب کو وسیع پیمانے پر فائدہ پہنچانے والے تیسرے ڈاکٹر‘ ڈاکٹر عمر سیف ہیں۔ یہ پنجاب آئی ٹی بورڈ کے چیئرمین ہیں اور نہ صرف پنجاب بلکہ خیبرپختونخوا‘ سندھ‘ بلوچستان ‘ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو بھی اپنی خدمات اور ایکسپرٹیز مہیا کر رہے ہیں۔ 
آپ خیبرپختونخوا کو لے لیجئے۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی تبدیلی کا نعرہ لگا کر حکومت میں تو آگئی لیکن اس کے پاس ایسے نوجوان‘ ایسا ٹیلنٹ موجود نہ تھا جس سے وہ صوبے میں تبدیلی لا سکے۔جس طرح پولیس کا قبلہ درست کرنے کیلئے اسے پنجاب سے ناصر درانی کی خدمات حاصل کرنا پڑیں‘ اسی طرح بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مبنی جو بھی اقدامات ہوئے ہیں‘ ان کے پیچھے دراصل ڈاکٹر عمر سیف اور پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ ہیں۔ یہ اوربات ہے کہ نہ کبھی عمران خان نے ان کا ذکر کیا اور نہ ہی ڈاکٹر عمر سیف نے ازخود کوئی کریڈٹ لینے کی کوئی کوشش کی۔ خیبرپختونخوا میں آن لائن ایف آئی آر کا اندراج اور شکایات کا آن لائن سسٹم ہو یا پھر ٹریفک سگنلز پر کیمروں کی مدد سے گاڑیوں کی کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹس کے ذریعے چالان کی رسید خودکار طریقے سے مالک کو گھر بھیجنے کا معاملہ ‘ اس کے پیچھے درکار ساری ٹیکنالوجی پنجاب نے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی درخواست پر انہیں مہیا کی۔ میں نے ڈاکٹر عمر سیف سے پوچھا‘ پنجاب اور خیبرپختونخوا کا تو آپس میں سخت مقابلہ ہے اور وزیراعلیٰ شہباز شریف اور عمران خان کی تو آپس میں بہت لگتی ہے تو پھر کیا آپ یہ ساری خدمات انہیں چوری چھپے فراہم کر رہے تھے۔ ڈاکٹر عمر سیف مسکرائے اور بولے‘ وزیراعلیٰ پنجاب کی ہمیں واضح ڈائریکشن ہے کوئی بھی صوبہ ہم سے ٹیکنالوجی کے معاملے میں جو مدد مانگے ہم نے بلاتاخیر معاونت کرنی ہے۔ اگر ہماری وجہ سے دیگر صوبے ترقی کریں گے تو اس سے پاکستان ترقی کرے گا اور یہ ہمارا کوئی احسان نہیں بلکہ ہمارا فرض ہے۔ خیبر پختونخوا کی طرح ڈاکٹر عمر سیف نے سندھ کو بھی خدمات فراہم کیں۔حال ہی میں پنجاب میں بزنس رجسٹریشن پلیٹ فارم لانچ ہوا ہے۔ اس کا مقصد کاروبار کیلئے آسانیاں اور سہولتیں پیدا کرنا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی درخواست پر پنجاب آئی ٹی بورڈ نے چیف سیکرٹری سندھ کیساتھ ایک میٹنگ کے بعد یہ پروگرام سندھ میں بھی لانچ کر دیاہے۔اسی طرح گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کی خواہش پر پنجاب آئی ٹی بورڈ کی مدد سے گلگت بلتستان میں پنجاب کی طرز پر تھانوں کی کمپیوٹرائزیشن‘ قیدیوں کا مینجمنٹ سسٹم ‘ای ڈرائیونگ لائسنس اور ہوٹل آئی جیسے منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں۔ اسی طرح پی ایس ایل تھری کے انعقاد سے قبل نجم سیٹھی اور ڈاکٹر عمر سیف کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس میں ایسا سسٹم وضع کیا گیا جس کے ذریعے ہر کھلاڑی کی انفرادی کارکردگی جانچی جائے گی جس کے بعد ان کی سلیکشن اور کوچنگ کا معیار طے کیا سکے گا۔ 
پنجاب میں ای خدمت مرکز انتہائی شاندار پراجیکٹ ہے ۔ میں نے ارفع کریم ٹاور میں اسے وزٹ کیا ہے اور یورپی معیار سے کم نہیں پایا۔ اس کا افتتاح چند روز تک متوقع ہے۔ ایسے آٹھ مراکز لاہور‘ راولپنڈی‘ ملتان‘ فیصل آباد ‘سرگودھا‘ بہاولپور ‘ساہیوال اور گوجرانوالہ میں کامیابی سے چل رہے ہیں۔پندرہ لاکھ شہری ان سے مستفید ہو چکے ہیں۔ ان مراکز میں اسلحہ وڈرائیونگ لائسنس ‘ نادراکارڈز اور سرٹیفکیٹس‘ فرد ‘ ڈومیسائل‘ ٹوکن ٹیکس‘ گاڑیوں کی رجسٹریشن اور ٹرانسفر‘ روٹ پرمٹ‘ ٹریفک چالان اور بینک سمیت سترہ سے زائد سہولیات ایک ہی چھت تلے بیک وقت حاصل کی جا سکیں گی۔ اس سے لوگ کئی دفتروں میں جانے کی خواری سے بچ جائیں گے۔ شہر میں ٹریفک کی جو صورتحال ہے اس میں انسان ایک دن میں ایک دو دفاتر سے زیادہ نہیں جا سکتا لیکن یہاں پر وہ اپنے سارے کام ایک ہی جگہ مکمل کر سکتا ہے اور ضروری نہیں کہ آپ مرکز میں جائیں اور ٹوکن لے کر باری کا انتظار کریں بلکہ آپ ای سہولت مرکز کی ایپ موبائل میں ڈائون لوڈ کریں‘ رجسٹر کریں اور متعلقہ سہولیات مثلاً فرد کے حصول اور ٹوکن ٹیکس کیلئے اپلائی کر دیں‘ آپ کو اسی وقت ایک ٹوکن نمبر مل جائے گا جس کے بعد آپ ای مرکز جائیں گے اور بغیر کسی انتظار یا قطار کے متعلقہ سہولت حاصل کر لیں گے۔ اسی طرح پی آئی ٹی بی سپورٹس اور یوتھ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر اکیس ای لائبریریاں بنا رہی ہے۔تعلیمی معیار کی بہتری کیلئے پنجاب بھر کے سرکاری سکولوں میں موبائل ٹیبلٹ دئیے گئے ہیں جن پر بچوں کی روزانہ حاضری لگتی ہے اور اسی وقت اپ ڈیٹ ہو کر مرکزی سسٹم میں آ جاتی ہے۔اس طرح رئیل ٹائم میں سرکاری سکولوں میں بچوں کے داخلوں اور ڈراپ آئوٹ کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اس سسٹم میں سرکاری سکولوں کے ایک کروڑ چودہ لاکھ بچے رجسٹر ہیں۔
تعلیم کے بعد پنجاب کا دوسرا بڑا مسئلہ صحت کا ہے۔ لوگ شکایت کرتے ہیں سرکاری ہسپتالوں میں یا تو ڈاکٹر موجود نہیں یا پھرعلاج کا معیار اچھا نہیں۔اسی طرح ڈاکٹرز دیہات اور پسماندہ اضلاع میں جانے کو تیار نہیں ہوتے۔ نئے سسٹم کے تحت ڈاکٹرز کو ایک خاص وقت رُورل ایریاز میں گزارنا ہو گا ‘ اس بنا پر ان کی گریڈنگ اور ترقی ہو گی۔ جس ضلع‘ قصبہ یا تحصیل کے کسی ہسپتال میں ڈاکٹر کی ضرورت ہو گی‘ میڈیکل سافٹ ویئر خودبخود اس کی نشاندہی کر دے گا اور یوں ہر جگہ ایک جیسی ورک فورس مہیا ہو گی۔ سپیشلسٹ ڈاکٹر بننے کیلئے ڈاکٹرز کو پوسٹ گریجوایٹ ٹریننگ کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے‘پرانے نظام میں وہ سپیشلسٹ بننے کیلئے کسی پروفیسر کے ساتھ منسلک ہو جاتے تھے۔اس میں صوبائی حکومت کیلئے یہ تعین کرنا مشکل تھا کہ ہر ہسپتال میں ہر سپیشیلٹی کے ڈاکٹر موجود ہیں‘ ان کی ٹریننگ ٹھیک کی جا رہی ہے اور وہ واقعی سپیشلسٹ بننے کے قابل ہیں یا نہیں۔ اس سسٹم میں سفارش کا بھی بہت امکان تھا۔ایک ڈاکٹر جو راجن پور میں ایم بی بی ایس کر کے پاس ہوتا‘اس کے لئے لاہور کے کسی ہسپتال میں ٹریننگ حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔اس کے حل کیلئے ایک آن لائن سسٹم ترتیب دیا گیا جس کے تحت ڈاکٹرز میرٹ کے تحت ایک کمپیوٹرائزڈ خود کار سسٹم میں اپلائی کرتے ہیں‘یہ سسٹم ان کے میرٹ کا تعین کرتا ہے‘ ایم بی بی ایس کے نمبر دیکھتا ہے‘ ان کا تجربہ اور سپیشلیٹی کی خواہش کو دیکھتا ہے اور اس کو مختلف ہسپتالوں کی طلب سے میچ کرتا ہے کہ وہاں پر کس سپیشلائز ڈاکٹر کی ضرورت ہے‘ دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ دور دراز علاقے‘ جہاں کوئی ڈاکٹر جانے کو تیار نہیں ہوتا اس نظام کے تحت اس میں پانچ سے بیس نمبر ڈاکٹر کے دیہی مراکز میں کام کرنے کو دئیے گئے ہیں۔ اب ایسے ڈاکٹرز کیلئے لازمی ہے وہ کسی دیہی ہسپتال میں جا کر کام کرے اور پھر سپیشلائزیشن کیلئے اپلائی کرے نتیجتاً تمام چھوٹے ہسپتالوں یعنی ڈی ایچ کیوز‘ٹی ایچ کیوز اور دیہی مراکز میں ڈاکٹرز کی موجودگی کا امکان بڑھ گیا ہے کیونکہ اس کی بنا پر ہی ان کو اس سنٹرل انڈکشن سسٹم کے تحت آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔اسی طرح ہسپتالوں میں سپیشلیٹی کا جو عدم توازن موجود تھامثلاً کسی ہسپتال میں انستھیزیا کے ڈاکٹر کم اور سرجری کے معمول سے زیادہ ہوتے تھے‘ یہ سینٹرلائزڈ سسٹم ہر طرح کے ڈاکٹرز کو بیلنس کرے گا اور خود کار نظام کے تحت ہر ہسپتال میں ہر طرح کے سپیشلسٹ ڈاکٹر کی موجودگی اور توازن کو یقینی بنائے گا۔
میں دعوے سے کہتاہوں اس سے آدھے کام عمران خان نے خیبرپختونخوا میں کئے ہوتے تو پی ٹی آئی ان کا زبردست ڈھنڈورا پیٹتی لیکن پنجاب میں یہی کام خاموشی سے کئے جا رہے ہیں یا پھر پنجاب کے پاس ان کی تشہیر کی بہتر ٹیم ہی موجود نہیں ہے۔ڈاکٹر عمر سیف نے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے متعلق بہت سے اشکالات کو دور کر دیا ہے۔ میں سیاست کی بات نہیں کر رہا کہ سیاست میں سبھی غلطیاں کرتے اور اپنی اپنی ترجیحات رکھتے ہیں۔ خود عمران خان جو موروثی‘ جاگیردارانہ اور لوٹا سیاست کے خلاف تھے‘ آج ان کی جماعت ق لیگ اور پیپلزپارٹی کا ملغوبہ بن چکی ہے جبکہ اصل پی ٹی آئی لا پتہ ہو چکی ہے۔ وزیراعلیٰ خوش قسمتی ہیں انہیں ڈاکٹر عمر سیف جیسے جینئس ‘سسٹم کو سمجھنے والے‘ تجربہ کار اور کام کا جذبہ رکھنے والے افسر کی معاونت حاصل ہے ۔ڈاکٹر عمر سیف بھی ڈاکٹر حیدر اشرف اور ڈاکٹر امجد ثاقب کی طرح عوام کی زندگیوں میں آسانی لانے‘پنجاب کو ترقی یافتہ صوبہ بنانے اور صوبے کا روایتی کلچر اور امیج بدلنے کیلئے خاموشی مگر تیز رفتاری سے انتہائی موثر اقدامات کر رہے ہیں اور اگر ایسے چند ڈاکٹر وزیراعلیٰ پنجاب کو اور مل گئے تو پھر وہ تبدیلی پنجاب میں آ جائے گی جس کی آس عمران خان ایک عرصہ سے خیبرپختونخوا کے لئے لگائے بیٹھے ہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں