سرزمین حجاز سے دیگر مسلم دنیا کی طرح‘ پاکستان کا بھی دوستانہ‘ روحانی اور پیار کا رشتہ ہے۔ اس مقدس سرزمین میں ایسی کشش‘ ایسی محبت اور ایسی خوشبو موجود ہے جو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں کو اپنا اسیر بنائے ہوئے ہے۔ سعودی عرب سے وقتاً فوقتاً مختلف مذہبی شخصیات پاکستان کا دورہ کرتی ہیں جن سے دونوں ممالک کے درمیان دوستی کا یہ رشتہ روز بروز مضبوط ہو رہا ہے۔ گزشتہ دنوں امام کعبہ شیخ صالح بن محمد ابراہیم آل طالب پاکستان کے دورے پر تشریف لائے۔ اپنے اس دورے کے دوران انہوں نے نماز جمعہ کا خطبہ دیا اور کئی شہروں کی بڑی مساجد میں مختلف نمازیں پڑھائیں۔ اس کے علاوہ وہ صدر‘ وزیراعظم‘ آرمی چیف‘ وزیراعلیٰ پنجاب اور دیگر اہم سرکاری و نجی شخصیات سے بھی ملے۔ انہوں نے سینیٹر ساجد میر کی دعوت پر دو روزہ آل پاکستان اہلحدیث کانفرنس میں شرکت کی۔ وہ جامعہ اشرفیہ بھی گئے اور نماز پڑھانے کے علاوہ طلبا سے خطاب کیا۔ معروف سکالر علامہ ابتسام الٰہی ظہیر کی دعوت پر امام کعبہ نے جمعہ کی رات‘ نماز عشا کی امامت مرکزِ قرآن و سنہ لارنس روڈ میں پڑھائی اور اس کے بعد مختصر خطاب بھی کیا۔ خوش قسمتی سے مجھے بھی ان کی امامت میں نماز پڑھنے کا موقع ملا۔ نماز عشا کا وقت آٹھ بجے تھا لیکن لوگ عصر کی نماز سے ہی مسجد کی طرف کھنچے چلے آ رہے تھے۔ وہ شیخ صالح بن آل طالب کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھے۔ ان کی قرأت اس قدر میچور‘ پُرسوز اور واضح تھی کہ دل چاہ رہا تھا کاش کبھی ان کے پیچھے تراویح پڑھنے کا موقع بھی ملے۔
ڈاکٹر صالح بن محمد آل طالب صرف چھیالس برس کے ہیں۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ صرف امام ہی نہیں بلکہ مکۃ المکرمہ کی ہائی کورٹ کے جج بھی ہیں۔ جہاں تک امامت کی بات ہے تو پاکستان کے برعکس سعودیہ میں امام بننے کے لئے کچھ اور ضروریات ہیں۔ پاکستان میں تو زیادہ تر مساجد میں باریش ہونا ہی امام مسجد کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری بیشتر مساجد کے خطیب اپنے فرائض اس طور سے ادا نہیں کر پا رہے جس کی ان سے ایک اسلامی معاشرے میں توقع کی جاتی ہے۔ شیخ صالح بن محمد ابراہیم آل طالب نے انتہائی کم عمری میں ہی سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے ایک مدرسہ سے قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی جبکہ اسی شہر سے ابتدائی اور ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ قرأت اور سبعہ عشرہ کے علوم میں بھی دسترس حاصل کی۔ امام کعبہ نے ریاض کے شریعہ کالج سے گریجوایشن کرنے کے بعد ہائر انسٹیٹیوٹ آف جسٹس سے ماسٹرز ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی۔ سعودی عرب میں ماسٹرز کا دورانیہ چار سال کا ہوتا ہے۔ امام کعبہ نے آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ سے بین الاقوامی دستور میں پی ایچ ڈی کی ڈگر ی حاصل کی۔ اس کے علاوہ وہ تقریباً دس ماہ تک برطانیہ صرف اس مقصد کے لئے مقیم رہے تاکہ انگریزی پر مکمل عبور پا سکیں۔ امام کعبہ نے انفرادی طور پر سعودی عرب میں تحفیظ القرآن کے درجنوں تعلیمی ادارے قائم کر رکھے ہیں جن کا انتظام و انصرام وہ خود کرتے ہیں، جبکہ دیارِ عرب سے باہر بھی سینکڑوں ادارے ایسے ہیں جن کی سرپرستی وہ کرتے ہیں۔ وہ گزشتہ پندرہ برس سے مسجد الحرام سے وابستہ ہیں اور ان کی خوش الحانی کروڑوں مسلمانوں کو ان کا گرویدہ بنا چکی ہے۔ وہ ایک مایہ ناز مصنف و ادیب بھی ہیں، اِنہوں نے اصلاح، تربیت، اجتہاد، تقلید اور نفاق کے موضوعات پر کئی معرکۃ الآراء کتابیں بھی تصنیف کیں جنہیں عرب و عجم میں بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان کی عربی زبان میں لکھی جانے والی ایک کتاب ''تہذیب و ثقافت کی اشاعت میں مسجد الحرام کا کردار‘‘ نے عالم عرب میں بے پناہ شہرت حاصل کی۔
مرکز قرآن و سنہ میں نماز عشا کے بعد شیخ صالح بن محمد آل طالب نے پندرہ منٹ خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب کا آغاز یہ کہہ کر کیا کہ انہیں آج اس بات پر فخر محسوس ہو رہا ہے کہ وہ اس منبر پر موجود ہیں جس پر کبھی ولولہ انگیز خطیب علامہ احسان الٰہی ظہیر دلوں کو گرمایا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا ''یہ بہت بڑی خوشخبری ہے کہ اللہ نے علامہ احسان الٰہی ظہیر کو منبر دعوت سے اٹھا کر اپنے پاس بلایا اور ہمیں اللہ سے امید ہے کہ اللہ ان کی شہادت کو قبول فرمائے گا۔ اللہ نے انہیں شہادت کا درجہ عطا فرما کر صحابہؓ کے ساتھ دفن ہونے کا اعزازعطاکیا۔ میری اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ان کے درجات کو صالحین اور شہدا کے درجے میں بدل دے اور ان کی اولاد کو بھی اسی راستے پر چل کے کتاب و سنت کے منہج کو اختیار کرنے والا بنائے۔ میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مجھے اس منبر پر بیٹھنے کا موقع ملا۔ میری اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں جنت میں اکٹھا فرمائے۔ ہم اس جگہ پر جمع ہیں تو اس اخوت کی بنیاد پر جمع ہیں جو کتاب و سنت نے ہمیں درس دیا ہے۔ اس لئے اللہ ذوالجلال ہمیں اسی اخوت پر قائم رکھے اور اسی پر ہمیں گامزن رکھے اور یہی وہ منہج ہے جس پر رسول اللہﷺ ہمیں چھوڑ کر گئے اور وہ ایسا منہج ہے جس کی راتیں بھی دنوں کی طرح روشن ہیں۔ رسول اللہﷺ نے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور ساتھ کچھ آڑی ترچھی لکیریں بھی کھینچیں اور سیدھی لکیرپر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا‘ یہ ہے وہ سیدھا راستہ ہے جو کتاب و سنت کا راستہ ہے۔ یہی صراطِ مستقیم ہے۔ اللہ ذوالجلال کے پیغمبرﷺ کے بعد چند سالوں میں ہی یہ دین وہاں تک پہنچا جہاں تک سورج کی روشنی پہنچتی ہے۔ پیغمبرﷺ نے جو دین پھیلایا تھا وہ دنیا کے کونے کونے تک پہنچا۔ مسلم امہ کو عروج حاصل رہا جب تک اس نے اپنے منہج کو اختیار کئے رکھا‘ اس امت کو وہ شان و شوکت اس وقت تک دوبارہ نہیں مل سکتی جب تک وہ اسی منہج کی طرف واپس نہیں لوٹتی جو کتاب و سنت کا منہج ہے۔ اس منہج کو رسول اللہﷺ لائے اور اسے سب سے پہلے صحابہ کرامؓ نے قبول کیا۔ صحابہ کرامؓ نے رسول اللہﷺ کے سامنے اس منہج کو اپنی زندگیوں میں نافذ کیا۔ اسی لئے اللہ نے ان سے راضی ہونے کا عندیہ دیا۔ ہمارا منہج بھی وہی ہے جو صحابہ کرامؓ کا منہج تھا۔ کچھ لوگ اللہ‘ اس کے رسولﷺ اور ہمارے درمیان جو تعلق ہے‘ اسے توڑنا چاہتے ہیں‘ اس کے دفاع کیلئے ہمیں متحد ہونا ہو گا۔ یہ وہ منہج ہے جس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا: میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں‘ جب تک تھامے رہو گے‘ کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ ایک‘ اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت۔ یقینا ہم جب تک اس منہج پر قائم رہیں گے دشمن ناکام رہیں گے۔ بہت ساری ایسی دعوت دنیا میں پھیلائی جا رہی ہے جس میں کتاب و سنت سے انحراف ہے۔ دین اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم کتاب و سنت کے ساتھ اپنے آپ کو منسلک کریں اور اپنی اولادوں اور اپنے معاشرے کی تربیت کریں۔ یہی منہج امت کی عزت کو برقرار رکھے گا۔ امت اگر کامیاب ہو سکتی ہے تو کتاب و سنت پر عمل کر کے ہی ہو سکتی ہے۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ اس امت کو دین کی طرف واپس لوٹا ئے‘ ہر جگہ پر مسلمانوں کے حال کو بہتر بنائے اور ہمیں آپس میں محبت اور ہر اس خیر سے نوازے جس کی ہم تمنا کرتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹرصالح بن محمدابراہیم آل طالب کو دیکھ کر اس خواہش نے زور پکڑا کہ کاش ہمارے ہاں بھی چھوٹی بڑی مساجد کے امام اعلیٰ تعلیم یافتہ اور حالات و واقعات پر گہری نظر رکھنے والے ہوں۔ ہم نے دراصل دین اور دنیا کو الگ کر دیا ہے اور یہی ہمارے زوال کی بڑی وجہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں علما یا امام مسجد کا کام صرف نمازیں پڑھانا ہے اور انہیں دنیاوی تعلیم اور دنیا کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم نے انہیں نمازِ جنازہ پڑھانے‘ دم درود کرنے اور بچے کے کان میں اذان دینے تک محدود کر دیا ہے۔ اس میں حکومت‘ اداروں اور معاشرے کا بھی اتنا ہی قصور ہے۔ درحقیقت جب تک امام اور خطیب دین ا ور دنیا کو ساتھ لے کر نہیں چلتے‘ معاشرے میں تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تبدیلی تبھی آئے گی جب مسجدوں اور منبروں کی ذمہ داری روایتی اماموں کی جگہ دینی اور دنیا وی علوم کے ماہر‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد سنبھالیں گے۔ کاش ڈاکٹر صالح بن محمد آل طالب کی طرح ہمارے ہاں بھی حفظِ قرآن‘ پُرسوز قرأت‘ ڈاکٹریٹ کی ڈگری اورکتاب و سنت کے علوم پر دسترس رکھنے والے نوجوان اس میدان میں قدم رکھیں‘ پھر دیکھیں منبر و محراب سے اٹھنے والی صدائیں کیسے دلوں کو منور اور مسخر کرتی ہیں‘ پھر دیکھیں یہاں اسلام اپنی اصل روح اور اصل شکل میں کیسے نافذ ہوتا ہے!