چند روز بعد تیس اپریل کو ملک میں یوم شہدا منایا جا رہا ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 30اپریل 2010ء کو منایا گیا ۔اس روز ان پانچ ہزار سے زائد شہیدوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے دہشت گردی کی جنگ میں اپنی جانیں وطن عزیز پر نچھاور کر دیں۔ جب بھی پاک فوج کی کسی کامیابی یا کسی معرکے میں کسی فوجی کی شہادت کی خبر آتی ہے اور ہر سال جب یہ دن منایا جاتا ہے تو مجھے کیپٹن منیب کی داستان شجاعت یاد آ جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کیپٹن منیب صرف اٹھائیس سال کی عمر میں اس عہدہ پر فائز ہوا جب ہمارے جیسے نوجوانوں کی اکثریت زندگی کی چکاچوند اور دنیاوی عہدوں کی تلاش میں گم ہوتی ہے‘ جب ہمیں اپنی جوانی‘ اپنی صحت اور اپنی جان سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے اور جب ہمارا ہر پل سہانے مستقبل کے خواب بنتے گزرتا ہے۔ کیپٹن منیب نو بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور بچپن میں ہی ان کے والد داغ مفارقت دے گئے تھے لیکن ان کی والدہ نے ان کی تربیت اس انداز میں کی کہ یہ بچہ تاریخ میں امر ہو گیا۔
کیپٹن منیب 9مئی 2009ء کو سپن کلے گائوں کے قریب اپنے یونٹ کی کوئک ری ایکشن فورس کے ساتھ سیکنڈ ان کمانڈ کی ذمہ داری نبھا رہا تھا۔سپن کلے دہشت گردوں کا گڑھ تھا‘ کیپٹن منیب کا فوجی دستہ اس گائوں سے گزر رہا تھا کہ اچانک کئی اطراف سے شدید فائرنگ شروع ہو گئی۔ اس وقت یہ دستہ صرف سولہ فوجی جوانوں اور دو افسران یعنی کیپٹن منیب اور ایک آرٹلری آبزرور پر مشتمل تھا۔ اس موقع پر کیپٹن منیب نے پیچھے رہنے کی بجائے دستے کی کمانڈ کرنے کا فیصلہ کیا‘ اپنی گن سنبھال لی اور یہ گن دشمن کی طرف شعلے اُگلنے لگی۔ کیپٹن منیب نے دو دہشت گردوں کو نشانے پر رکھا اور یہ دونوں چند سیکنڈ میں تڑپنے لگے۔ یہ ان دہشت گردوں کے کمانڈر تھے۔ یہ دیکھ کر دہشت گردوں نے راکٹ لانچر ز اور دستی بموں کے سارے ذخیرے کا رُخ کیپٹن منیب کی جانب کر دیا‘ لیکن وہ اپنی جان کی پروا کئے بغیر اگلے مورچے میں ڈٹے رہے۔ اس دوران ایک راکٹ کے ٹکڑے کیپٹن منیب کے جسم میں آ لگے‘وہ زخمی ہو گئے‘ خون ان کے جسم سے مسلسل رس رہا تھا لیکن ان کی انگلیاں مسلسل ٹریگر پر رقص کر رہی تھیں‘ اس دوران دو فوجی جوان کیپٹن منیب کی مدد کو آئے لیکن خون زیادہ بہہ چکا تھا اور کیپٹن منیب اس مرتبے پر فائز ہو چکے تھے جہاں پہنچنے کیلئے انہوں نے صرف چھ سال قبل سفر کا آغاز کیا تھا‘ وہ شہید ہو گئے لیکن آخری لمحات میں بھی ان کے ہاتھ میں موجود اے کے 47کا رُخ دشمن کی طرف تھا۔ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ کیپٹن منیب نے اپنے فوجی ساتھیوں کیلئے جس جرأت اور ولولے کی مثال قائم کی تھی‘ اس نے دیگر سترہ فوجی جوانوں کے جسموں میں بجلی بھر دی تھی‘ چنانچہ یہ سترہ لوگ کیپٹن منیب کا ولولہ لیکر آگے بڑھے او ردو گھنٹوں کی لڑائی کے بعد 42کے 42دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کیپٹن منیب کے اس جرأت مندانہ اقدام اور شہادت سے پاک فوج کو سات کامیابیاں ملیں‘ ایک‘ وانا کے علاقوں میں دہشت گردوں کے مراکز ٹریس ہوئے اور اس نیٹ ورک کو جڑ سے ختم کیا گیا‘ دوم‘42دہشت گرد مارے گئے۔تین‘ دہشت گردوں کے کنٹرول روم کا سراغ لگایا گیاا ور وہاں سے کمپیوٹرز‘ سی ڈیز‘ واکی ٹاکی سیٹ اور دیگر الیکٹرانک اور خفیہ ڈیوائسز کو قبضے میں لیا گیا‘چار‘ دہشت گردوں کے زیراستعمال ہائی لکس گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو تباہ کیا گیا‘پانچ‘ دہشت گرد کارروائیوں میں استعمال ہونے والا اسلحہ برآمد ہوا ‘چھ‘ ان مراکز سے حاصل ہونے والے سامان اور مواد سے دشمن کے بارے میں بہت سی معلومات ملیں اور سات‘ ان معلومات کی مدد سے فوج کو دیگر علاقوں میں کامیاب آپریشن کرنے میں مدد ملی۔کیپٹن منیب جیسے پانچ ہزار سے زائد شہداء دھرتی کے سینے پر مائوں اور بہنوں کے گرنے والے آنسو لوٹا گئے‘ یہ ہم وطنوں اور جوانوں کے لہو کا قرض اتار گئے ‘ یہ اپنا آج ہمارے کل کیلئے قربان کر گئے اور اپنی زندگیوں‘ اپنی وفائوں اور اپنی جفائوں کو اس وطن اور اس کے اٹھارہ کروڑ عوام کے نام کر گئے اور اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر گئے کہ شہادت سے بڑا کوئی عہدہ اور شہید سے بڑا کوئی اعزاز نہیں ہوتا۔ وہ لوگ جو فائیو سٹار ہوٹلوں کی لابیوں میں بیٹھ کر پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ‘ انہیں دھرتی کے ان سپوتوں کی قربانیوں کا اندازہ ہو ہی نہیں سکتا ۔
پاکستانی افواج نے نہ صرف ماضی میں اپنی بے پناہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے بلکہ وطن عزیز کو گزشتہ تین برسوں میں دہشت گردوں کے ناپاک قدموں سے بھی پاک کیا ہے۔ پاک فوج کے اس دلیرانہ کردار کی وجہ سے سعودی عرب نے اسلامی اتحاد کے فوجی سربراہ کے لیے پاکستانی جرنیل راحیل شریف کا انتخاب کیا ۔حال ہی میں سعودی عرب میں چوبیس ممالک کی ایک ماہ جاری رہنے والی کامیاب مشترکہ مشقوں '' شیلڈ ون‘‘میں پاک فوج کو بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ دمام کے شمال مشرق میں تقریباً 140 کلومیٹر دور صحرا میں ایک ماہ سے سعودی عرب میں ''گلف شیلڈ ون ‘‘ کے نام سے 24ممالک کی مشترکہ فوجی مشقیں گزشتہ ہفتے اختتام پذیر ہوئیں۔ اختتامی تقریب میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کئی دیگر عالمی رہنماؤں کے ہمراہ شرکت کی اور عسکری مہارتوں کا شاندار مظاہرہ دیکھا۔ سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز السعود نے سربراہان کا تقریب میں خیرمقدم کیا ۔ وزیراعظم کے ہمراہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی موجود تھے ۔41ممالک کے اتحاد''اسلامک ملٹری کاؤنٹر ٹیررازم کولیشن‘‘ کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف بھی تقریب میں شریک تھے ۔ رائل سعودی لینڈ فورسز کی مشق کی کمان کے تحت سلطنت کے شرقی ساحل کے ساتھ منعقد ہونے والی تینوں افواج کی مشترکہ مشق کا اہتمام باہمی رابطہ کو فروغ دینے اور مشترکہ مقاصد کے حصول کیلئے مل کر کام کرنے کا عملی تجربہ حاصل کرنے کیلئے کیا گیا تھا۔ مشق کی اختتامی تقریب میں پاک فضائیہ کے جے ایف17لڑاکا طیاروں نے شاندار مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اہداف کو نشانہ بنایا۔ سعودی فرمانروا اور مہمان شخصیات نے ایک بڑے ہال سے اس تقریب کا مشاہدہ کیا جس کے تین اطراف پر بڑی بڑی شیشے کی دیواریں تھیں اور صحرا کے مناظر کو دیکھنے کیلئے درجنوں بڑی ٹی وی سکرینیں نصب کی گئی تھیں۔ فائر پاور شو کا اختتام شریک ممالک کے دستوں کی پریڈ اور سعودی عرب اور دیگر علاقائی افواج کی طرف سے استعمال کی جانے والی توپوں، اسلحہ نظام، لانگ رینج آرٹلری اور میزائلوں کے مظاہرہ سے ہوا جبکہ اس موقع پر فلائی پاسٹ کا بھی شاندار مظاہرہ کیا گیا۔
شیلڈ ون جنگی مشقوں سے نہ صرف پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں نئے باب کا اضافہ ہوا بلکہ پاکستانی فوج کی مہارتوں کے چہار دانگ عالم چرچے بھی ہوئے۔ پاک فوج کے انہی سپوتوں کیلئے شاعر کا خراج پیش :
تمہیں معلوم ہے لوگو!
خاکی وردیاں پہنے
یہاں کچھ لوگ ہیں جو
اپنی سانسیں بیچ دیتے ہیں
وطن کے پیار کی خاطر
بدن میں گولیاں سہہ کر
پاتے ہیں یہ بشارت کہ وہ زندہ و دائم ہیں
کہ وہ جنت کے مالک ہیں
ہماری قوم کے بیٹے
ہمارا فخر ہوتے ہیں
ہمارا مان ہوتے ہیں
یہ اپنے خون کی لالی
یہ اپنے جان کے نذرانے
ہمارے نام کرتے ہیں
یہ دھرتی کے ہر ذرے پہ
اپنا قرض رکھتے ہیں
تمہیں معلوم ہے لوگو
یہ خاکی وردیوں والے
بہت انمول ہوتے ہیں