دنیا کے امیر ترین افراد میں مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس اس سال دوسرے نمبر پر ہیں۔ یہ 38 برس کی عمر میں دنیا کے امیر ترین شخص بنے۔ بل گیٹس دنیا کی بااثر ترین شخصیات میں شامل ہیں۔ ان کا کاروبار دنیا کے 101 ممالک میں پھیلا ہوا ہے اور انہیں دنیا کے 35 ممالک میں سربراہِ مملکت کا پروٹوکول حاصل ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی بل گیٹس نے گلوبل گڈ میٹنگ کا اہتمام کیا۔ اس میٹنگ کے لئے بل گیٹس دنیا بھر سے پانچ ایسی نمایاں شخصیات کو امریکہ بلا کر ملاقات کرتے ہیں جو ٹیکنالوجی کو صحت‘ تعلیم اور دیگر شعبوں میں بہتری کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ اس سال دنیا کے ان پانچ چنیدہ افراد میں پنجاب آئی ٹی بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر عمر سیف بھی شامل تھے جنہیںسیئٹل‘ امریکہ آنے کی دعوت دی گئی۔ ڈاکٹر عمر سیف نے جب بل گیٹس کو بتایا کہ دو سال قبل پنجاب کے 18 فیصد علاقوں کے بچوں کو بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت بڑھانے کے لیے ٹیکے لگے تھے‘ لیکن پی آئی ٹی بی کے تیارکردہ سسٹم کی وجہ سے دو سال سے بھی کم عرصے میں یہ شرح 18 فیصد سے بڑھ کر 88 فی صد ہو گئی ہے اور جب بل گیٹس کو پتا چلا کہ ڈینگی اور گھوسٹ سکولوں کے خاتمے کے لیے سمارٹ فون ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا تو وہ ششدر رہ گئے اور اپنے سٹاف سے کہنے لگے کہ ہم تو پاکستان کی مدد بھی نہیں کر رہے تھے لیکن انہوں نے ہماری مدد کے بغیر ہی یہ سب کر لیا۔ وہ باقاعدہ اپنے سٹاف سے نالاں ہونے لگے کہ ہمارے پاس تو اتنا بجٹ اور سرمایہ بھی ہے تو پھر ہم ایسے نتائج کیوں حاصل نہیں کر سکے؟ وہ اس کام سے اس قدر خوش تھے کہ طے شدہ ملاقات ختم ہوئی تو انہوں نے پانچ مہمانوں میں سے صرف ڈاکٹر عمر سیف کو روک لیا‘ اور پون گھنٹہ تک مختلف امور پر بات چیت کرتے رہے۔ یہی نہیں عموماً وہ اپنے مہمانوں کے ساتھ تصویر نہیں کھنچواتے لیکن ڈاکٹر عمر سیف کے ساتھ انہوں نے خصوصی تصویر بنوائی جو عالمی و ملکی میڈیا کی زینت بنی۔
ہم برطانوی سماجی شخصیت سر مائیکل باربر سے بھی واقف ہیں۔ یہ برطانوی ایجوکیشن ریفارمز اور ایجوکیشن سسٹمز کے حوالے سے مستند عالمی ماہر مانے جاتے ہیں۔ یہ دو عشروں سے تعلیم‘ ریسرچ اور ترقی پذیر ممالک میں سکولوں کے نظام کی بہتری کیلئے کام کر رہے ہیں۔ برطانوی حکومت کے ساتھ کام کرنے سے قبل وہ یونیورسٹی آف لندن میں بطور پروفیسر تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے۔ انہوں نے بہت سی کتابیں تحریر کیں جن میں سے How to do the Impossible: a Guide for Politicians with a Passion for Education بہت مقبول ہوئی۔ یہ کتاب ہر سیاستدان کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ جون 2001ء میں ٹونی بلیئر دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے تو ان کے کہنے پر سر مائیکل باربر نے کیبنٹ آفس کے تحت پرائم منسٹرز ڈیلیوری یونٹ قائم کیا جس کا مقصد ہوم آفس‘ صحت‘ تعلیم اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں بہتری لانا تھا۔ سرمائیکل باربر برطانیہ سمیت دنیا کے بڑے ممالک کی حکومتوں کی کارکردگی پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ مائیکل باربر نے پنجاب حکومت کے تعلیم‘ صحت‘ ٹرانسپورٹ‘ امن عامہ اور دیگر شعبوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد کہا کہ انہوں نے دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک کا نظام دیکھا ہے لیکن ایسی ترقی دنیا میں کم ہی ہوئی ہے جتنی تیز پنجاب میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کے سمارٹ ٹیکنالوجی کے استعمال سے تعلیم‘ صحت‘ زراعت‘ امن عامہ جیسے شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں‘ اور اس کا سہرا ڈاکٹر عمر سیف کو جاتا ہے۔
اور ہم ڈاکٹر عشرت حسین کو بھی جانتے ہیں۔ یہ اس ملک کا اثاثہ ہیں۔ یہ ملک کے نامور معیشت دان اور بینکر ہیں۔ یہ سات برس تک سٹیٹ بینک کے گورنر رہے۔ یہ پاکستان کے بہترین اعزازات ہلال امتیاز اور نشان امتیاز بھی حاصل کر چکے ہیں۔ یہ ایشین بینکر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں اور یہ درجنوں کتابیں اور ورلڈ بینک اور عالمی اداروں کیلئے ریسرچ پیپرز بھی لکھ چکے ہیں۔ ان کی تازہ کتاب Governing the Ungovernable ہے جس میں انہوں نے پاکستان کے معاشی اور سیاسی مسائل کی نہ صرف نشاندہی کی ہے بلکہ اپنے تجربات کی روشنی میں ان کا حل بھی پیش کیا ہے۔ کتاب میں انہوں نے تین بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن‘ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی توجہ ان نکات کی جانب دلانے کی کوشش کی ہے جن پر عمل کرکے ایک خوشحال پاکستان کی تعمیر ممکن ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے اپنی کتاب میں سرکاری عہدوں پر فائز ان شخصیات کا بھی تذکرہ کیا ہے جو پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر عمر سیف بھی ہیں۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹر عشرت حسین کی اس کتاب کے حوالے سے ایک سیمینار ہوا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے سٹیج پر موجود ڈاکٹر عمر سیف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کاش ہم ڈاکٹر عمر سیف کو کلون کر سکتے تو پنجاب کی طرح سندھ‘ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں بھی ایک ایک ڈاکٹر عمر سیف بٹھا دیتے تاکہ پنجاب کی طرح یہ صوبے بھی ٹیکنالوجی سے بھرپور طور پر مستفید ہو سکتے۔ یہی نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ کے ساتھ میٹنگ‘ جس میں وزیراعلیٰ شہباز شریف بھی موجود تھے‘ میں تو وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے کہا کہ آپ ڈاکٹر عمر سیف ہمیں دے دیں تاکہ ہم بھی اپنے صوبے کو ٹیکنالوجی سے مستفید کر سکیں۔
اس ملک میں جہاں ایک عام آئی ٹی ماہر‘ انجینئر‘ ڈاکٹر‘ مستری یا مزدور تک موقع ملنے پر بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتا ہے وہاں ایک ایسا شخص‘ جسے اقوام متحدہ نے پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی یونیسکو چیئر کے لئے منتخب کیا ہو‘ جس کی کارکردگی پر بل گیٹس‘ مائیکل باربر اور ڈاکٹر عشرت حسین فخر کرتے ہوں‘ جو ایم آئی ٹی اور ہارورڈ جیسی دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے پڑھ چکا ہو اور جسے گوگل جیسی کمپنیوں سے کروڑوں روپے کی جاب کی آفر ہو لیکن وہ پھر بھی پاکستان میں تبدیلی کے لئے زبردست کام کر رہا ہو‘ ایسے لوگ ہمارا اثاثہ ہیں؛ تاہم ہمارے وہ ''مہربان‘‘ جو ایسے قومی ہیروز کے خلاف کسی خاص ایجنڈے کے تحت اپنا قلم یا اپنی زبان حرکت میں لاتے ہیں‘ انہیں ایسا کرتے ہوئے کم از کم اتنا ضرور سوچنا چاہیے کہ ایسا کرکے اپنے وطن کیلئے کام کرنے والے پاکستانی ٹیلنٹڈ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں یا حوصلہ شکنی اور ایسا کرکے ملک کی خدمت کر رہے ہیں یا دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل؟ اگر ہم ایسی ماہر شخصیات کو خود ہی بلا وجہ تنقید کا نشانہ بنائیں گے‘ انہیں زچ کرنے کی کوشش کریں گے تو اس سے نقصان ہمارا ہی ہو گا۔ یہ لوگ تو پاکستان چھوڑ جائیں گے۔ انہیں تو دنیا کے کسی بھی ملک میں بہترین نوکری مل جائے گی لیکن ہم ایک اعلیٰ دماغ اور ٹیلنٹ سے محروم ہو جائیں گے۔ اس سے قبل ہم نادرا کے سابق چیئرمین طارق ملک کے ساتھ بھی ایسا ہی کر چکے ہیں۔ وہ سابق وزیرداخلہ نثار علی خان کی انا کا شکار ہو کر ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور اب اقوام متحدہ کے ساتھ چیف ٹیکنیکل ایڈوائزر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ موجودہ چیئرمین نادرا عثمان یوسف مبین کے خلاف بھی گزشتہ دنوں میڈیا میں مہم چلائی گئی۔ دراصل کچھ طاقتیں یہ نہیں چاہتیں کہ تمام ادارے اور تمام کام کمپیوٹرائزڈ ہو جائے کیونکہ سب کچھ آن لائن ہونے سے شفافیت آتی ہے اور ان کی روزی پر لات پڑتی ہے۔ میں ڈاکٹر عمر سیف کے مکمل کئے گئے دو سو ستر منصوبوں میں سے ایک کا ذکر کرکے کالم ختم کروں گا جو بات سمجھانے کے لئے کافی ہے۔ انہوں نے گزشتہ تین چار برسوں میں پنجاب کے ساڑھے پانچ کروڑ کاشتکاروں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا جس پر انہیں پٹواری اور لینڈ مافیا سے خوفناک دھمکیوں اور دبائو کا سامنا کرنا پڑا؛ تاہم ان کی کاوشوں کا ثمر ہمارے سامنے ہے۔ آج کوئی بھی شخص لینڈ ریکارڈ سنٹر جا کر چند منٹ میں کمپیوٹرائزڈ فرد حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے بعد پٹواری کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ اب آپ خود بتائیں کہ ایسے مافیاز کے لئے ڈاکٹر عمر سیف‘ عثمان یوسف مبین اور طارق ملک کیونکر قابل قبول ہوں گے؟