جب سے چیف جسٹس نے مہمند دیامیر بھاشا ڈیمز کی تعمیر کے لئے فنڈقائم کیا ہے ‘ بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اتنی بڑی رقم محض چندے سے اکٹھی کرنا ممکن نہیں۔ایک تاثر یہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ لوگوں کے پاس شاید دینے کو پیسہ نہیں‘ جس کی حقیقت ایمنسٹی سکیم سے حاصل ہونے والی رقم سے ہو جاتی ہے۔ پاکستانیوں کے پاس کتنا پیسہ ہے؟ اس کی جھلک آپ کو ایف بی آر کی خبر سے واضح ہو جائے گی‘ جس کے مطابق ایمنسٹی سکیم میں کراچی کی ایک خاتون نے 3ارب 30کروڑ روپے ٹیکس ادا کیا ہے۔ خاتون نے بیرون ملک اثاثوں کی مالیت 165ارب روپے ظاہر کی اور صرف 2فیصد ٹیکس ادائیگی کے بعد اثاثے قانونی کرالئے۔میں خاتون کا نام نہیں لکھ رہا‘ تاہم یہ کوئی سیاسی یا معروف خاتون نہیں ہے۔ ویسے بھی ایمنسٹی سکیم سیاستدانوں کے لئے نہیں تھی‘ تاہم اس کے اثاثوں کی تفصیل سن کر عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اشرافیہ کے لئے ایسی سکیمیں کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے کیوں لائی گئیں اور بجائے اس کے کہ ناجائز اور مشکوک کمائی پر مشتمل ایسی رقوم اور اثاثوں کو پاکستان لایا جاتا اور ان سے پاکستان کے قرضے اتارے جاتے اور ڈیموں جیسے بڑے قومی مسائل حل کئے جاتے ‘ صرف دو فیصد دے کر کھرب پتی لوگوں کو کلین چٹ دی جا رہی ہے اور ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنایا جا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں قانونی طور پر ہم آنے والی نسلوں کے لئے یہ مثال قائم کر رہے ہیں کہ پہلے جی بھر کے لوٹو‘ ناجائز آمدنی بیرون ملک لانچوں اور ہنڈی کے ذریعے منتقل کرو اور اس کے بعد کسی ایمنسٹی سکیم کے ذریعے کالا دھن سفید کروا لو۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ اس طرح حکومت کے خزانے بھی بھر جائیں گے اور آپ کی سات پشتیں بھی سونے کے نوالے کھاتی رہیں گی۔
یہ بھی مثالیں دی جاتی ہیں کہ ماضی میں 'قرض اتارو ملک سنوارو‘ اور مشرف کی پریذیڈنٹ ریلیف فنڈ جیسی سکیمیں ناکام ہو گئی تھیں۔ماضی میں جتنی بھی ایسی سکیمیں لائی گئیں ‘وہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے زیر اثر تھیں۔ ڈیم فنڈبراہ راست ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے تحت قائم کیا گیا ہے‘ اس لئے اسے ماضی کی سکیموں یا فنڈز سے ملانا مناسب نہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے برملا کہا ہے کہ وہ یہ ہدایت کر کے جائیں گے کہ آئندہ چیف جسٹس بھی اسے جاری رکھیں گے‘ لہٰذا اس کی شفافیت پر قبل از وقت انگلیاں اٹھانا کسی طور مناسب نہیں۔ یہ الزام وہ لگا رہے ہیں‘ جنہیں عدلیہ اور ان کے فیصلے چبھتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ سپریم کورٹ اس ملک کی ترقی اور بہتری میں کوئی کردار ادا کرے۔ یہ کام سیاستدانوں کا تھا‘ لیکن کسی نے اس پر توجہ دینا ضروری نہ سمجھا۔ بھاشا ڈیم کا 2007ء سے اب تک تین مرتبہ افتتاح ہو چکا ہے۔ ہر سیاستدان آ کر اپنی تختی لگا جاتا ہے‘ لیکن کسی کو اسے شروع کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عوام سیاستدانوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہ تھے اور اس مد میں اگر کوئی فنڈ بنایا بھی جاتا‘ تو ماضی کی طرح خردبرد کا شکار ہو جاتا۔ جب تک کوئی شفاف سیاستدان اقتدار کی مسند نہیں سنبھالتا‘ تب تک دیگر اداروں کو ہی اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔
دوسری جانب آپ بھارت کو دیکھ لیجئے۔ بھارت روایتی جنگوں میں ناکامی کے بعد پاکستان کو دیگر شعبوں میں چت کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ اس نے اپنے گھس بیٹھئیوں اور جاسوسوں کے ذریعے دہشت گردی بھی کروا کر دیکھ لی‘ اس کے لئے افغانستان کا کندھا اور سرحد بھی استعمال کر لی اور ہمارے بعض گمراہ لوگوں کو بھی استعمال کر لیا‘ اس کے باوجود بھارت پاکستان کو وہ نقصان نہیں پہنچا سکا‘ جس کا وہ خواہشمند رہا ہے۔ اب اس نے پانی کو ہتھیار بنا لیا ہے اور پاکستان کو خشک سالی سے دوچار کرنے اور دریا اور ندی نالے خشک کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ دو ہزار بارہ تک بھارت 32سو چھوٹے بڑے ڈیم اور آبی ذخائر تعمیر کر چکا ہے‘جبکہ پاکستان میں نئے آبی ذخائر نہ ہونے سے کھربوں روپے مالیت کا پانی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ یہاں آبی ذخائر نہ بننے کی بڑی وجہ سیاسی اختلافات ہیں۔ اختلافات پیدا کرنے والے ہمسایہ ملک کے پے رول پر ہیں اور وہ پاکستان میںپاکستان کو بنجر کرنے کے بھارتی منصوبے کے لئے اپنا کندھا دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے فنڈ قائم کر کے اس قوم پر وہ احسان کیا ہے‘ جسے آنے والی نسلیں بھی سنہرے الفاظ میں یاد رکھیں گی۔ انہوںنے پہلے کالاباغ ڈیم کے لئے کوشش کی‘ لیکن اس پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے بغیر وقت ضائع کئے دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے فنڈ قائم کر دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا چیف جسٹس اس مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس کا جواب بڑا سادہ ہے۔ چیف جسٹس نے جو قدم اٹھایا ہے‘ وہ اپنی ذات کے لئے نہیں‘ بلکہ ہماری آئندہ نسلوں کے لئے اٹھایا ہے۔ وہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے دس لاکھ روپے دے کر فنڈ کا آغاز کر دیا۔ ابتدائی دس دنوں میں فنڈ میں دس کروڑ روپے جمع ہو چکے ہیں۔ سوال رفتار کا نہیں‘ ایک دوسرے کو جگانے کا ہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں‘ جنہوں نے اب تک اس فنڈ میں کوئی رقم دی ہو‘ اپنے دوست رشتہ داروں کو قائل کیا ہو۔ ہم آئے روز دس بیس ہزار کے ڈنر تو کر لیتے ہیں‘ لیکن چند ہزار ڈیم فنڈ میں دینے کو تیار نہیں۔ ہم اس مسئلے کی سنگینی کو ابھی تک سمجھ ہی نہیں سکے‘ جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور معاشی دارالحکومت کراچی میں پانی ٹینکروں کے ذریعے سپلائی کیا جا رہا ہے۔ لاہور‘ راولپنڈی اور دیگر شہروں میں بھی حالت مختلف نہیں۔ پینے کا صاف پانی سات سو فٹ سے کہیں زیادہ گہرائی میں جا کر مل رہا ہے۔ لاہور شہر میں بارہ گھنٹے کے لئے کسی وجہ سے لوڈشیڈنگ بریک ڈائون ہو جائے‘ تو ڈیفنس سے لے کر شاہدرہ تک لوگ پانی کی بوند بوند کو ترسنے لگتے ہیں۔ ملک بھر میں ایک سو چھتیس کمپنیاں پینے کا صاف پانی بوتلوں میں سونے کے داموں بیچ رہی ہیں‘ لیکن ایک کے سوا سب مضر صحت پانی فروخت کر رہی ہیں۔ بجلی کی پیداوار کا زیادہ انحصار پن بجلی کی بجائے تیل سے چلنے والے پلانٹس پر ہے‘ جن سے مہنگی بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ ان سارے حقائق کے باوجود بھی‘ اگر ہم چیف جسٹس کے اس شاندار اقدام کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں اور اگر ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی معجزہ ہمیں پانی کے مسئلے سے نکال سکتا ہے ‘تو یہ ہماری کم ظرفی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں قومی مفاد کے بڑے منصوبے ایسے ہی مکمل ہوتے ہیں۔ بل گیٹس جیسا کھرب پتی بھی اپنی نوے فیصد دولت دنیا کی فلاح کے لئے وقف کر چکا ہے۔ وہ تو اپنے بیٹے تک کو صاف کہہ چکا ہے کہ تمہارا میری دولت میں حصہ ختم‘ تم خود کمائو اور کھائو‘جبکہ ہمارے ہاں کراچی کی ایک خاتون کے پاس سے ایک سو پینسٹھ ارب روپے کی غیرقانونی رقم نکلتی ہے اور ہم تین ارب لے کر خوش ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کراچی کی ایک غیرمعروف خاتون‘ اگر ڈیڑھ دو سو ارب کی مالک ہو سکتی ہے‘ تو پھر ہمارے سینکڑوں سیاستدان‘ بیوروکریٹس‘ بزنس مین؛ حتیٰ کہ چند برس میں موٹر سائیکل سے لینڈ کروزروں تک پہنچنے والے صحافی‘ اینکر اور دانشور تو کہیں زیادہ مالدار ہوں گے اوراگر ملک کی اسی فیصد دولت پر قابض یہ چند سو لوگ اپنی ایک چوتھائی دولت ہی اس فنڈ میں دے دیں ‘تو یہ ڈیم فنڈ برسوں نہیں ‘بلکہ چند ہفتوں میں بھر سکتا ہے اور جب ہم نے ایسے فنڈز میں پیسہ اپنے ہی حلق کو خشک ہونے سے بچانے کے لئے دینا ہے‘ تو پھر اس قدر سوچ و بچار کیوں؟ اگر کراچی کی اس خاتون جیسے صرف سو افراد کی غیرقانونی دولت جمع کر لی جائے‘ تو ان سے مہمند اور دیامیر بھاشا ڈیم جیسے دو سو ڈیموں کی تعمیر مکمل کی جا سکتی ہے اور آپ مانیں نہ مانیں‘پاکستان میں ڈیم ایسے ہی بنیں گے۔