ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں پر کس طرح غالب آ رہی ہے اس کا اندازہ آپ کو یورپین سیٹیلائٹ ایجنسی کے اس منصوبے سے ہو جائے گا۔ یورپین ایجنسی نے گوگل ارتھ کی طرز پر سیٹیلائٹ کا ایک نظام سینٹینل ٹو متعارف کروایا ہے۔جس طرح گوگل کے ذریعے ہم کمپیوٹر اور موبائل سے دنیا بھر کی سیر کر لیتے ہیں‘ مقامات کو قریب سے دیکھ سکتے ہیں اور ان کی ہیئت اور رقبے کے بارے میں جان سکتے ہیں‘ یورپین ایجنسی کا نظام بھی اسی طرز پر کام کرتا ہے لیکن یہ گوگل سے مختلف اور جدید ہے۔ یورپین سیٹیلائٹ ایجنسی کے یہ امیج گوگل کی طرح آن لائن مفت دستیاب ہیں اور ہر ہفتے جاری ہوتے ہیں۔ ان تصاویر سے ناقابل یقین فوائد حاصل کئے جا رہے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ایک خبر کے مطابق پنجاب آئی ٹی بورڈ نے اس ایجنسی کے جاری کردہ سیٹیلائٹ تصاویر کی مدد سے پاکستان میں زراعت کو جدید طرز پر استوار کرنے اور فصلوں کی اقسام اور پیداوار سے متعلق معلومات کے نظام پر مکمل عبور حاصل کر لیا ہے۔ اس نظام کے تحت زمین سے دس میٹرکی بلندی تک کی سیٹیلائٹ تصاویرکے ذریعے پاکستان بھر میں فصلوں کی 26اقسام اور ان کی پیداوار کے بارے میں کمپیوٹر کے ذریعے کہیں بھی بیٹھے معلومات حاصل کی جا سکیں گی۔ تیرہ مختلف رنگوں یعنی کلر بینڈز کے ذریعے یہ پتہ چلایا جا سکے گا کہ سیٹیلائٹ امیج میں زمین پر نظر آنے والی فصل کا رنگ مثال کے طور پر اگر نارنجی ہے تو یہ گندم ہو گی اور اگر ہلکا سبز ہے تو گنے کی فصل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سارے عمل کا ایکوریسی ریٹ 93فیصد ہے۔ اس نظام کے ذریعے اب زمینداروں کی زمینوں کا درست رقبہ اور ان میں کاشت کی گئی فصل کی مکمل معلومات آن لائن دستیاب ہوں گی۔ یہ نظام یہاں تک بتا سکتا ہے کہ مٹی میں کھاد ڈالی گئی ہے اور زمین میں نمی موجود ہے یا نہیں۔ یہ سب رنگوں کی ایک سیریز کے ذریعے معلوم ہوتا ہے جو سیٹیلائٹ کے ذریعے جاری ہوتے ہیں۔اس نظام سے حکومت‘ بینک‘ انشورنس کمپنیاں اور کسان بے شمار فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ مثلاً حکومت یہ معلوم کرنے کے قابل ہو سکے گی کہ کس علاقے کے کون سے رقبے میں کپاس یا فلاں فصل کب کاشت کی گئی۔ بینک کسانوں کو قرضے دینے سے قبل اس نظام کے ذریعے دیکھ لیا کریں گے کہ درخواست دہندہ نے کتنے رقبے پر کون سی فصل کاشت کی ۔ اس طرح بوگس معلومات یا سفارش پر قرضے حاصل کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی کسان یا زمیندار یہ شکایت کرتا ہے کہ اس کی فصل تباہ ہو گئی ہے تو انشورنس کمپنیاںوہاں جائے بغیر پی آئی ٹی بی کے اس وضع کردہ نظام کے ذریعے فصل کی خرابی بارے دیکھ سکیں گی ۔ اگر تو فصل کا رنگ اور ہئیت سیٹیلائٹ امیج کے مطابق تبدیل ہوئی ہوگی تو وہ کسانوں کو ادائیگی میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ اس نظام کا سب سے زیادہ فائدہ کاشتکاروں کو ہو گا۔وہ پیشگی یہ معلومات حاصل کر سکیں گے کہ کس علاقے میں کون سی زمین کس فصل کے لئے موزوں ہے۔یوں ہر سال ان کی فصل کی پیداوار بہتر ہو گی اور ملکی زراعت دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکے گی۔ چند برس قبل پاکستان کی برآمدات 34ارب ڈالر تھیں جو کم ہو کر 21ارب ڈالر پر آ چکی ہیں۔ ان میں کمی کی بڑی وجہ اس مدت میں کپاس کی پیداوار اور برآمدات کا تقریباً نہ ہونا تھا۔ کوئی نظام ایسا تھا ہی نہیں جس سے معلوم ہو سکتا کہ کس ضلعے میں کپاس کی کتنی پیداوار ہے اور کاشتکاروں کے مسائل کیا ہیں۔ نئے نظام سے تمام زرعی رقبے کو سیٹیلائٹ سے مانیٹر کیا جا سکے گا۔ یہ تمام ڈیٹا زرعی پالیسی کو فروغ دے گا۔
سرکاری سطح پر ٹیکنالوجی کا ایک اور استعمال کسانوں کا اندراج‘قرضے اور سبسڈی کی فراہمی ہے ۔ صرف پنجاب میں اب تک اراضی مراکز میں ساڑھے تین لاکھ کسانوں کا اندراج ہو چکا ہے جس کی مدد سے پی آئی ٹی بی کی وضع کردہ دس موبائل ایپلی کیشنز کو استعمال کر کے ایک لاکھ پچیس ہزار موبائل فونز کے ذریعے کسانوں کو تیس ارب روپے کے قرضے دئیے جا چکے ہیں۔یہ سارا نظام بھی جدید طریقہ کار پر مشتمل ہے۔ یہ قرضے اخوت اور این آر ایس پی کی معاونت سے موبائل ایزی پیسہ کے ذریعے تقسیم کئے گئے ہیں۔اسی طرح ماضی میں کسانوں کو کھاد کمپنیوں کی جانب سے 57ارب روپے کی سبسڈی دی گئی تھی جبکہ نئے طریقہ کار کے مطابق باردانے میں ایک کوپن ڈال دیا جاتا ہے جسے سکریچ کر کے کسان قریبی ایزی پیسہ دکان سے سبسڈی حاصل کر لیتا ہے یوں اس سال ایک ارب اسی کروڑ روپے سبسڈی کی مد میں بچائے گئے جبکہ سبسڈی حاصل کرنے والے کسانوں کی تعداد پندرہ فیصد بڑھی۔
ان ساری کامیابیوں کے باوجود آج بھی پاکستان ٹیکنالوجی میں دنیا سے بہت پیچھے ہے۔ ہمارے چار بڑے صوبے ہیں لیکن پنجاب کے سوا کسی صوبے کی آئی ٹی پالیسی ہی نہیں ہے۔ پنجاب نے پہلی آئی ٹی پالیسی گزشتہ دور میں لانچ کی جس میں پنجاب کو خطے کے ان چوٹی کے صوبوں میں سے ایک بنانے کا تصور پیش کیا گیا ہے جہاں ای گورنمنٹ ہو گی، جہاں قدم قدم پر آئی ٹی ایپلی کیشنز استعمال ہوں گی اور جو ای لٹریٹ ہو گا، جو آئی ٹی کی عالمی کمپنیوں کی ترجیحی منزل اور تربیت یافتہ آئی ٹی ہیومن ریسورس کا فراہم کنندہ ہو گا۔ اس کے ساتھ تعلیم کے شعبے میں جنگی بنیادوں پر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم ہر سال ڈھائی لاکھ بیروزگار ڈگری ہولڈرز پیدا کر رہے ہیں۔آج کل کمائی کے ذرائع انٹرنیٹ پر منتقل اور موبائل ایپس سے منسلک ہو رہے ہیں۔ پوری دنیا میں سٹارٹ اپ منصوبے تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں جن میں طلبا اور نوجوانوں کو نئے آئیڈیاز کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے مواقع دئیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں سٹارٹ اپ منصوبے اپنے ابتدائی مراحل میں ہیں لیکن سرکاری سطح پر پلان نائن سے نکلنے والی ایک سو ساٹھ سٹارٹ اپ کمپنیاں عالمی مقام پا چکی ہیں۔پلان نائن پورے ملک میں سترہ سے زیادہ سٹارٹ اپ انکیوبیٹر کی مدد کر رہا ہے۔ انکیوبیٹر ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں کوئی اچھوتا منصوبہ تخلیق پاتا ہے۔ بعض طلبا شاندار خیالات رکھتے ہیں لیکن ان کے پاس کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ‘ ریسورسز‘آفس کی جگہ اور آئی ٹی مارکیٹ سے پہچان کی کمی ہوتی ہے ۔ حال ہی میں سرکاری یونیورسٹی آئی ٹی یو کے طلبا نے ایک ایسی ڈیوائس تیار کی ہے جو واسا لاہور کے مختلف علاقوں میں ان مقامات پر نصب کر رہا ہے جہاں مون سون میں بہت زیادہ پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہ ڈیوائسز خود کار طریقے سے پانی کی بڑھتی ہوئی سطح کی معلومات مرکزی کنٹرول روم تک پہنچا دیتی ہیں جس کے بعد واسا کی ٹیمیں فوری طور پر وہاں پہنچ کر نکاسی آب کا کام کر سکتا ہے۔ یہ ڈیوائس صرف پچھتر ہزار میں بنائی گئی جب کہ اس طرح کی ڈیوائس اگر بیرون ملک سے منگوائی جاتی تو اس پر اسی کروڑ روپے کی لاگت آتی ہے۔
الیکشن میں چند دن باقی ہیں۔ نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ اقتدار سنبھالتے ہی پنجاب میں ہونے والی آئی ٹی کی ترقی کو مثال بناتے ہوئے اسے پورے ملک میں پھیلانے کا منصوبہ بنائے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اب ہر صوبہ مکمل اختیارات اور بجٹ رکھتا ہے اس لئے کسی بہانے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ تاہم پنجاب کے سوا کسی صوبے کا آئی بورڈ ہی نہیں ہے۔ کے پی کا آئی ٹی بورڈ پنجاب نے بنایا لیکن یہ ابتدائی مراحل سے آگے نہیں گزر سکا۔ سندھ‘ بلوچستان‘ کے پی کے‘ گلگت بلتستان‘ آزادکشمیر حتیٰ کہ دبئی اور دیگر سات ممالک کو آئی ٹی کی سروسز بھی پنجاب ہی مہیا کر رہا ہے۔ پاکستان میں آئی ٹی پارکس کی بھی کمی ہے‘ فری لانس آن لائن کام کے کورسز ہر جماعت کے نصاب میں شامل ہونے چاہئیں اور پنجاب کی طرز پر ای گورننس بھی پورے ملک میں عام ہونی چاہیے۔ خدا کرے نئی حکومت میں ٹیکنالوجی کی ذمہ داری اُن کو ملے جو اس شعبے کے ماہر ہوں‘ جو کیمبرج اور ایم آئی ٹی جیسی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوں اور نجی و سرکاری سطح پر آئی ٹی کے عملی نفاذ کیلئے غیرمعمولی خدمات فراہم کر چکے ہوں‘ایسے ماہرین ملک میں تبدیلی لانے کیلئے حکمرانوں کے حقیقی معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔