فیس بک دنیا کی تیسری بڑی ویب سائٹ ہے۔ اس کا بانی مارک زکربرگ انتہائی نالائق طالب علم سمجھا جاتا تھا۔ یہ 2002ء میں ہارورڈ یونیورسٹی پہنچ گیا‘ کمپیوٹر پروگرامنگ میں اسے مہارت تھی۔ 2004ء میں اس نے اپنی جمع پونجی اکٹھی کی اور انٹرنیٹ پر ایک سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک کے نام سے لانچ کر دی۔ یہ اتنی مقبول ہوئی کہ صرف چار ماہ میں لاکھوں لوگ اسے جوائن کر چکے تھے۔ آہستہ آہستہ اس نے فیس بک پر اشتہار لگانے کا فیچر بھی متعارف کروا دیا جس کے بعد فیس بک کا منافع آسمان کو چھونے لگا۔ آج فیس بک دنیا کی مقبول ترین سوشل میڈیا ویب سائٹ بن چکی ہے اور پونے دو ارب صارفین اسے استعمال کرتے ہیں۔ دنیا کا کوئی کنارہ ایسا نہیں جہاں ہر قومیت‘ مذہب اور نسل والا انسان اسے استعمال نہ کر رہا ہو۔ ہر انسان جو شناختی کارڈ بنواتا ہے وہ جی میل اور فیس بک اکائونٹ ضرور بناتا ہے۔ حتیٰ کہ آج بچہ پیدا ہوتے ہی اس کا فیس بک آئی ڈی تجویز کر دیا جاتا ہے۔ بعید نہیں کہ آگے چل کر شناختی کارڈ میں ڈیٹا کے اندراج کے وقت فیس بک اور جی میل اکائونٹ بھی طلب کیا جانے لگے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فیس بک پر آپ کی ایکٹیوٹیز سے آپ کی شخصیت کا رنگ جھلکتا ہے‘ آپ کیا کمنٹ کرتے ہیں‘ کس سیاسی جماعت کے حق میں ہیں‘ کس لیڈر کو پسند کرتے ہیں‘ کیا کھانا پسند کرتے ہیں‘ کہاں کہاں سفر کرتے ہیں‘ غرضیکہ آپ کی ذات کے بارے میں ہر معلومات فیس بک ایک خاص انداز سے محفوظ کر رہا ہے۔ یہی وہ خصوصیات تھیں جنہوں نے فیس بک کو آسمان پر پہنچا دیا اور مارک کو دنیا کی ایک سو بااثر ترین شخصیات میں کھڑا کر دیا۔ یہ 23 سال کی عمر میں دنیا کا ارب پتی نوجوان بنا۔ اس کی سالانہ آمدنی تیرہ ارب ڈالر سے زائد ہے۔ دنیا کا امیر ترین انسان بننے کے باوجود مارک زکر برگ انسان ہی رہا‘ دو سال قبل اس کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ اس خوشی میں اس نے اپنی آمدنی میں سے 45 ارب ڈالر صدقہ کر دیا۔ جی ہاں انسان تاریخ کا سب سے بڑا عطیہ۔ اپنی ننانوے فیصد دولت اس نے انسانیت کے نام کر دی اور غریب ممالک میں صحت‘ تعلیم‘ پانی اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لئے وقف کر دی۔ اس نے صدقہ کرتے وقت کہا: میں اس دنیا کو اپنی بیٹی کے رہنے کے لئے بہتر جگہ بنانا چاہتا ہوں۔ تاہم مارک زکربرگ کی زندگی میں ایک دن وہ بھی آیا جب اسے پہلی مرتبہ بھاری نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ اس کا ستارہ گردش میں آ گیا۔ گزشتہ روز جمعہ کے دن امریکی سٹاک مارکیٹ میں سولہ بروکرز نے فیس بک کے اپنے شیئر کی قیمتوں کے ہدف میں کمی کر دی جس سے کمپنی کو ایک دن میں سولہ ارب ڈالر کا نقصان ہو گیا۔ یہ نقصان کس قدر شدید تھا اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیجئے کہ ایک گھنٹے میں مارک کی آمدنی میں ہونے والی کمی جمیکا جیسے ملک کے سالانہ جی ڈی پی کے برابر تھی۔ یہ اس سے پونے دو گنا زیادہ رقم تھی جتنی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ساری زندگی میں کمائی ہو گی۔ یہ نقصان امریکہ کی سب سے بڑی فضائی کمپنی یونائیٹڈ ایئرلائنز کے اب تک کمائے گئے منافع سے بھی زیادہ تھا اور یہ اتنی زیادہ دولت تھی کہ اگر آپ کے ایک ہزار دوستوں کی سالانہ تنخواہ اڑھائی لاکھ ڈالر ہو اور یہ سب مسلسل ساٹھ سال تک یہ تنخواہ لیتے رہیں؛ تاہم فیس بک کے بانی کو اتنا ہی نقصان صرف ایک گھنٹے میں ہوا۔ وہ جمعرات کو سویا تو دنیا کا امیر ترین انسان تھا لیکن جمعہ کے دن سو کر اٹھا تو تیسرے نمبر پر آ چکا تھا۔ عالمی تجزیہ کار مستقبل میں مزید نقصان کی پیش گوئی کر رہے ہیں اور اس کی وجہ فیس بک پر موجود مواد کی کریڈیبلٹی میں کمی اور غیر محفوظ سکیورٹی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ فیس بک پر امریکی الیکشن میں فیس بک کے لاکھوں صارفین کا ڈیٹا فروخت یا لیک کرنے کا الزام لگا تھا۔ اس خبر نے فیس بک کے جہاز میں سوراخ کر دیا۔ یہ سوراخ آہستہ آہستہ فیس بک سے صارفین کے انخلا کی وجہ بنا۔ فیس بک پر ایک فائل ایسی بنتی رہتی ہے جس میں فیس بک پر کی گئی ہماری ہر ایکٹیویٹی نوٹ ہوتی ہے۔ ایسا ہی ایک رجسٹر ہمارا آخرت کیلئے بھی تیار ہو رہا ہے جس میں ہمارا اعمال نامہ درج ہو گا‘ لیکن ہم لوگ اس پر پوری طرح یقین نہیں رکھتے؛ تاہم فیس بک جیسی مثالوں سے ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں جہاں ہماری ہر حرکت محفوظ ہو رہی ہے‘ اور آپ اگر امریکہ جیسے ممالک کا ویزا اپلائی کرتے ہیں تو وہ آپ کا اکائونٹ نکال کر اس میں سے آپ کے بارے میں دو منٹ میں معلوم کر لیتے ہیں کہ آپ انتہا پسند ہیں یا متعدل مزاج۔ ترقی پسند یا شرپسند۔ فیس بک پر دوسرا بڑا مسئلہ مواد کی کریڈیبلٹی کا ہے۔ پاکستان میں حالیہ الیکشن اور اس سے قبل بھی سیاستدانوں کے بارے میں گھٹیا مہمات چلائی گئیں۔ ٹی وی کلپنگ لے کر اس میں مرضی کے ٹکر اور خبریں فوٹو شاپ سے بنا کر شیئر کی جاتی رہیں‘ سیاسی جماعتوں کے سپورٹرز ترکی کے جلسوں اور سڑکوں کی تصاویر لگا کر اوپر لکھتے رہے کہ دیکھو جلسہ کتنا بڑا ہے اور فلاں شہر پیرس بن گیا ہے۔ جعلی تصاویر‘ جعلی فیس بک اکائونٹس اور جعلی خبروں اور افواہوں کی بہتات کی وجہ سے فیس بک سے لوگوں کا اعتماد اٹھنا شروع ہو گیا ہے۔ پاکستان اس لحاظ سے سب سے آگے ہے۔ یہاں فیس بک کو نوے فیصد دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے اور کردار کشی کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا تو فیس بک بہت جلد قصۂ پارینہ بن جائے گا اور کوئی نیا محفوظ سوشل میڈیا پلیٹ فارم اس کی جگہ لے لے گا۔ یاہو ڈاٹ کام جو کبھی دنیا کی سب سے بڑی یاہو چیٹ میسنجر سروس چلاتا تھا گزشتہ ماہ اسے بالآخر یہ سروس بند کرنا پڑی۔ ٹیکنالوجی اگر وقت کے مطابق اور بااعتماد نہ ہو تو بہت جلد اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔ پاکستان میں تو ویسے ہی ایسی سروسز کا منفی استعمال بہت زیادہ ہے۔ سوشل میڈیا پر جو افواہیں شیئر ہوتی ہیں ان میں سے بہت کم ایسی ہوتی ہیں جن تحقیق و تصدیق کی جاتی ہے۔ فیس بک پر چونکہ مصالحہ دار خبریں‘ ویڈیوز اور پوسٹس لگانے سے ڈالر بھی ملتے ہیں اس لئے ایسے جھوٹ دھڑا دھڑ بک رہے ہیں جو بعض اوقات ملکی ساکھ کے لئے بھی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ گزشتہ دنوں الیکشن میں استعمال ہونے والے آر ٹی ایس کے حوالے سے فیس بک پر یہ چلتا رہا کہ اسے پنجاب آئی ٹی بورڈ نے بنایا ہے حالانکہ اسی سوشل میڈیا پر یہ خبریں موجود تھیں کہ اسے نادرا اور الیکشن کمیشن نے بنایا ہے لیکن کسی نے تصدیق کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اسی طرح بعض ذہنی مریض فیس بک کو خواتین کو بلیک میلنگ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں گوجرانوالہ سے ایک گروہ پکڑا گیا جو لیڈی ڈاکٹرز کے فیس بک پروفائل ہیک کر کے انہیں بلیک میل کرتا تھا۔
جو لوگ بغیر سوچے سمجھے افواہوں کو خبروں کا درجہ دے کر آگے پھیلاتے ہیں‘ ایسے لوگوں کے لئے قرآن و حدیث میں واضح احکامات موجود ہیں۔ سوشل میڈیا پر جو افراد لغو اور گمراہ کن ایجنڈے کے ذریعے پیسہ کماتے ہیں انہیں اس پیسے کے حلال اور حرام ہونے کے بارے میں بھی تصدیق کر لینی چاہیے۔ سب نے خدا کو جان دینی ہے۔ اپنے ایک ایک لفظ اور ایک ایک پل کا حساب دینا ہے۔ روزِ قیامت ہمارے ہاتھ‘ زبان اور تمام اعضا ہمارے تمام اعمال کی گواہی دیں گے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اللہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ وہ ہمارے ذہن میں پیدا ہونے والے ہر خیال سے واقف ہے۔ اس کے باوجود ہم سوشل میڈیا پر آنے والی ہر چٹ پٹی پوسٹ کو بلا سوچے‘ سمجھے اور پرکھے آگے شیئر کر دیتے ہیں اور یہ بھی نہیں دیکھتے کہ اللہ نے سورۃ الحجرات میں صاف لکھا ہے کہ ''اگر کوئی تمہارے پاس خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو‘‘۔ اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ ''آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی باتیں نقل کرتا پھرے‘‘۔ کیا ہم ان احکامات پر عمل کر رہے ہیں؟