یہ ڈھاکہ شہر ہے۔ 2012ء کے اوائل کی بات ہے۔ بیالیس سالہ خاتون پروین سلطانہ اپنے دو بچوں کے ہمراہ ایک کرائے کے مکان میں مقیم تھی۔ خاوند کی تنخواہ میں گزارا نہیں چلتا تھا؛ چنانچہ گھر چلانے کے لئے اس نے ایک مقامی سکول میں نوکری کر لی؛ تاہم اس نوکری سے بھی گھر کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے تھے۔ اس دوران اس نے اخبار میں ایک مضمون پڑھا جو فری لانسنگ کے بارے میں تھا۔ اس نے کمپیوٹر کے شارٹ کورس میں داخلہ لے لیا۔ کورس کے بعد اس نے او ڈیسک نامی فری لانس ویب سائٹ میں رجسٹریشن کر لی۔ رجسٹریشن کے بارہ دن بعد اسے ایک کمپنی کے لئے گرافک ڈیزائننگ کا کام مل گیا۔ اس نے چھوٹا سا ایک لوگو ڈیزائن کر دیا۔ اس کام میں اسے چھ گھنٹے لگے۔ کلائنٹ کو وہ ڈیزائن پسند آ گیا اور یوں اس نے انٹرنیٹ سے پانچ ڈالر کی پہلی آمدن حاصل کر لی۔ پہلے تین ماہ کے دوران اسے صرف بارہ آرڈرز ملے اور وہ صرف ساٹھ ڈالر کما سکی؛ تاہم وہ مستقل مزاجی سے کام کرتی رہی۔ اس نے تعداد کی بجائے معیار پر توجہ مرکوز رکھی جس کی وجہ سے اسے کلائنٹس سے فائیو سٹار ریٹنگ ملتی رہی۔ یہ ریٹنگ اس کی کامیابی کی وجہ بنی۔ تین مہینے بعد اسے کام پہلے سے زیادہ ملنے لگا۔ یوں پہلا ایک سال مکمل ہونے پر وہ چھ ہزار ڈالر کما چکی تھی۔ یہ ایک ایسے ملک میں کمائی جانے والی غیر معمولی رقم تھی جہاں اوسط سالانہ فی کس آمدن ایک ہزار ڈالر تھی۔ پروین ان چند ہزار آئی ٹی فری لانسرز میں سے ایک تھی جو امریکہ‘ یورپ اور دیگر ممالک کی کمپنیوں اور لوگوں کے لئے کام کر رہے تھے۔ بنگلہ دیش کپڑے کی صنعت کے لئے معروف ہے اور لاکھوں افراد اس سے وابستہ ہیں۔ لیکن کیلیفورنیا کی فری لانس کام دینے والی کمپنی او ڈیسک کے مطابق بنگلہ دیش دنیا میں فری لانس کام کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ اپ ورک ویب سائٹ کے ساتھ ساڑھے چھ لاکھ بنگلہ دیشی فری لانسرز رجسٹرڈ ہیں۔ 2013ء میں بنگلہ دیشی فری لانسرز نے صرف اپ ورک ویب سائٹ سے ملنے والے کام کے ذریعے دو کروڑ ڈالر کمائے۔ بنگلہ دیش کی کل آبادی سولہ کروڑ ہے۔ اس میں سے پچاس فیصد یعنی آٹھ کروڑ کی آبادی پچیس سال سے کم عمر کے نوجوانوں اور بچوں پر مشتمل ہے؛ چنانچہ یہ نئی نسل تیزی سے آئی ٹی کے میدان میں اتر رہی ہے۔ ان کے لئے نئی ٹیکنالوجی کو سیکھنا آسان ہے کیونکہ یہ نسل پیدا ہی ٹیکنالوجی کی گود میں ہو رہی ہے۔ آج بچے کے دانت بعد میں نکلتے ہیں لیکن وہ ٹچ والا موبائل فون چلانا پہلے سیکھ لیتا ہے۔ ڈھاکہ ایک گنجان آباد شہر ہے۔ یہاں ٹریفک کا اژدہام رہتا ہے۔ کام پر جانے کے لئے لوگوں کے گھنٹوں ضائع ہوتے ہیں۔ ایسے میں پروین جیسی خواتین اور نوجوانوں کی ترجیح فری لانسنگ ہے کیونکہ اس کے لئے کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک کمپیوٹر اور اچھا انٹرنیٹ کنکشن درکار ہوتا ہے جس کے بعد آئی ٹی کی مہارت رکھنے والا اپنا مستقبل خود بنا سکتا ہے۔
ڈھاکہ میں ہی ایک اور نوجوان نظم الحسین رہتا ہے۔ یہ بھی فری لانسر ہے۔ اٹھائیس سالہ حسین ریاست کھلنا میں مقیم ہے اور 2009ء میں اپنے کالج کے زمانے سے فری لانسنگ سے وابستہ ہے۔ وہ دوسروں کو بھی آن لائن لیکچرز کے ذریعے فری لانسنگ سکھاتا ہے۔ اس نے جینیٹیک انجینئرنگ میں ڈگری بھی حاصل کر لی ہے اس کے باوجود اسے اچھی نوکری نہیں مل سکی؛ چنانچہ اس نے فری لانسنگ کو مستقل کیریئر کے طور پر اپنا رکھا ہے۔ فی الوقت وہ پندرہ سو ڈالر ماہانہ کما رہا ہے۔ اس کے ساتھ کے کئی نوجوان بیرون ممالک میں نوکریوں کی تلاش میں گئے لیکن چند ہی برسوں میں ناکام ہو کر واپس آ گئے۔ حسین خوش ہے کہ وہ اپنے ملک کے لئے زرمبادلہ کمانے میں کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ اس کے اپنے حالات بھی بہتر ہو رہے ہیں۔ اس کی خواہش ہے کہ بنگلہ دیش کے پسماندہ شہروں اور دیہات میں انٹرنیٹ کی موجودگی کو یقینی بنایا جا سکے‘ تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان اس میدان میں قسمت آزما سکیں۔ اس کے لئے کمپیوٹر سکلز کے ساتھ ساتھ انگریزی سے بھی شناسائی ضروری ہے۔ انگریزی جس قدر بہتر ہو گی‘ کلائنٹ سے کمیونیکیشن میں مشکلات کم پیش آئیں گی اور کام ملنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
بائیس سالہ ابو کہار کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ یہ انتہائی غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ایف اے کے سالانہ امتحان میں دو مرتبہ ناکام ہوا۔ اس کے باوجود اس کے اندر آگے بڑھنے کی رمق باقی تھی۔ ڈھاکہ ٹریبیون میں اس نے فری لانسنگ سے متعلق ایک اشتہار دیکھا اور اگلے ہی روز ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے پروگرام میں داخلہ لے لیا۔ تربیت حاصل کرنے کے بعد آن لائن کام شروع کیا اور چند ہی ماہ بعد وہ اس وقت پچاس ہزار ٹکا یا پچھتر ہزار پاکستانی روپے کما رہا ہے۔ ابو کہار جیسے ہزاروں بنگلہ دیشی اب فری لانسنگ سے اپنا حال اور مستقبل سنوار رہے ہیں اور یہ سب بنگلہ دیش کے ڈیجیٹل ویژن کے تحت ہو رہا ہے جس کے مطابق بنگلہ دیشی حکومت ملک میں انفارمیشن‘ کمیونیکیشن اور ٹیکنالوجی کے فروغ سے سالانہ اربوں ڈالر کمانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ فی الوقت بنگلہ دیش فری لانسنگ کا دنیا کا سترہ فیصد حصہ بن چکا ہے جبکہ بھارت 24 فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ چونکہ بنگلہ دیش کی ستر فیصد آبادی تیس برس سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے اس لئے بنگلہ دیشی حکومت کا فوکس اور اس کی معیشت کا انحصار بھی انہیں نوجوانوں پر ہے؛ چنانچہ قومی سطح فری لانسنگ کی ٹریننگ کے کئی بلا معاوضہ پروگرام شروع کئے جا چکے ہیں جن کی وجہ سے بیروزگار افراد جو عموماً نوکری نہ ملنے سے جرائم‘ منشیات اور بے راہ روی کے باعث معیشت پر بوجھ اور امن و امان کے لئے مسئلہ بن جاتے تھے‘ اب ڈالروں میں آمدن ہونے سے خوش حالی کی جانب رواں دواں ہیں۔
بنگلہ دیش کا پاکستان سے موازنہ کیا جائے تو بنگلہ دیش پاکستان سے دس گنا آگے نظر آتا ہے۔ پاکستان میں فری لانسرز سالانہ ایک کروڑ ڈالر کما رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے ساڑھے چھ لاکھ فری لانسرز میں سے پانچ لاکھ باقاعدگی سے فری لانسنگ کرتے ہوئے سالانہ دس کروڑ ڈالر کما رہے ہیں۔ بنگلہ دیش پسماندہ ترین ملک ہے‘ وہاں انٹرنیٹ کی سہولیات بھی اتنی تیز تر نہیں اور لوگوں کا معیار زندگی بھی کم تر ہے جبکہ پاکستان میں لیپ ٹاپ‘ موبائل فون اور سمیں ریڑھیوں اور ٹھیلوں پر ملتی ہیں۔ دونوں ممالک میں ایک چیز البتہ مشترک ہے اور وہ یہ کہ دونوں ممالک کی پچاس فیصد سے زائد آبادی کی عمریں تیس برس سے کم ہیں۔ یہ سیکھنے کی عمر ہوتی ہے اور بزرگوں اور بڑی عمر کے لوگوں کی نسبت بچوں اور نوجوانوں کے لئے ٹیکنالوجی سیکھنا آسان ہوتا ہے۔ آج جو بڑے بڑے تجربہ کار بیوروکریٹس اور افسران ہیں‘ موبائل فون پر بمشکل کال سن اور وصول کر سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ بڑے بڑے جغادری صحافی جو خود کو حکومتیں گرانے اور بنانے کا اہل سمجھتے ہیں وہ سرکاری سطح پر آئی ٹی کے لئے بے پناہ خدمات انجام دینے والے نوجوان سربراہوں پر بلا جواز تنقید تو کرتے ہیں‘ لیکن خود ان کا اپنا حال یہ ہے کہ ای میل بھیجنی ہو یا واٹس ایپ پر ایک میسج فارورڈ کرنا ہو‘ ان کی انگلیاں کانپنے لگتی ہیں؛ چنانچہ ایسے ملک میں جہاں میڈیا اور حکومتوں میں زیادہ تر غلبہ ایسے لوگوں کا ہو جو ٹیکنالوجی کی الف ب سے بھی واقف نہ ہوں اور جو کمپیوٹر مائوس تک چلانا نہ جانتے ہوں‘ ایسے ملک میں آئی ٹی میں غیرمعمولی کامیابیاں حاصل کرنا آسان نہیں۔ میڈیا کو بھی اب آنکھیں کھول لینی چاہئیں۔ فری لانسنگ کے بارے میں آگاہی ابتدائی قدم ہے لیکن بد قسمتی سے یہ قدم بھی ابھی تک پاکستان میں پوری طرح سے اٹھایا ہی نہیں گیا۔ حکومتوں اور میڈیا کو اس میں اسی طرح دلچسپی لینا ہو گی جس طرح ڈیموں یا لوڈ شیڈنگ کے لئے لی جاتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت چار سے پانچ کروڑ نوجوان بیروزگار ہیں۔ یہ ایسا ٹائم بم ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور اگر ان کے مسائل کو بروقت ایڈریس نہ کیا گیا تو ایسے نوجوان انتہا پسندی اور جرائم کی طرف بآسانی مائل ہو سکتے ہیں۔ کیا ہمارا میڈیا اور ہمارے حکمران نوجوانوں کے بارے میں سوچنے کو تیار ہیں؟