"ACH" (space) message & send to 7575

لاہور کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کا حب بنا دیں!

حکومت نے ایک کروڑ نوکریاں دینی ہیں‘ تو اسے چین کا انڈسٹریل نیٹ ورک کلسٹرنگ ماڈل اپنانا ہو گا۔ یہ انتہائی دلچسپ ماڈل ہے۔ اس ماڈل کے تحت آج چین نے مختلف چیزوں کے الگ الگ شہر بسا دئیے ہیں‘ مثلاً: ایک موبائل فون بنانے میں کئی چیزیں درکار ہوتی ہیں‘ جن میں سکرین‘ کی پیڈ‘ بیٹری‘ باڈی‘سافٹ ویئر‘سرکٹ بورڈ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں چین کے مختلف شہروں میں نہیں‘ بلکہ ایک ہی شہر شین زن میں بنتی ہیں۔ یہاں کئی فیکٹریاں ایسی ہیں جہاں صرف ٹچ سکرینیں بن رہی ہیں‘ اسی طرح درجنوں فیکٹریاں صرف بیٹریاں بنا رہی ہیں‘ اس طرح مقامی صنعت وسعت پاتی ہے اور روزگار تیزی سے پھیلتا ہے۔ دنیا کی بات کریں تو امریکہ کا شہر ڈیٹرائٹ موٹر سٹی کہلاتا ہے‘ یہ آٹو پارٹس بنانے کے لئے مشہور ہے۔ اسی طرح نیویارک کو فنانشل سیکٹر مانا جاتا ہے۔یہ پوری دنیا کا فنانس حب ہے‘ جبکہ سان فرانسسکو ٹیکنالوجی حب یا سیلی کون ویلی کے نام سے معروف ہے۔ پاکستان میں بھی اس قسم کی کلسٹرنگ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے‘ مثلاً: پنکھوں‘ واشنگ مشینوں وغیرہ کے لئے گوجرانوالہ اور فیصل آباد مشہور ہیں‘ جبکہ کھیلوں کے سامان کے لئے سیالکوٹ کا نام ذہن میں آتا ہے‘ لیکن کیا کسی نے کبھی سوچا ہے کہ اکیسویں صدی کا ایک چوتھائی گزرنے کو ہے اور جب دنیا چاند پر سیروتفریح کے لئے عام مسافر بھیج رہی ہے‘ وہاں پاکستان انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کہاں کھڑا ہے؟
آئی ٹی کے لئے اگر اب تک سرکاری سطح پر کوئی کام ہوا ہے اور کوئی نام سامنے آتا ہے‘ تو وہ پنجاب آئی ٹی بورڈ کا ہے۔ اس کے علاوہ کسی کے ذہن میں کوئی نام آتا ہے‘ تو مجھے بتا دے۔ بلوچستان اور سندھ میں آئی ٹی بورڈ نام کی کوئی چیز نہیں۔ اگر ہے‘ تو صرف نمائشی حد تک ۔ کے پی کے میں کے پی کے آئی ٹی بورڈ‘ بھی پنجاب نے ہی بنا کر دیا‘ تاہم یہ ابتدائی سٹیج پر ہے۔ پنجاب آئی ٹی بورڈ نے وسیع پیمانے پر کام کیا ہے اور منظر پر نمایاں ہے۔ یہ درجنوں ناممکن منصوبے مکمل کر چکا ہے‘ مثلاً:کمپیوٹرائزڈ فرد کا اجراجس سے پٹوار سسٹم کا خاتمہ ہوا اور پٹواری سے لوگوں کی جان چھوٹی‘تمام تھانے کمپیوٹرائز ہوئے‘تمام سرکاری سکول آن لائن ہوئے‘ جس سے گھوسٹ سکولوں کا خاتمہ ہوا‘سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کی فراہمی کا مرکزی ریکارڈ سسٹم کا اجرا‘جس کے تحت جس سرکاری ہسپتال میں ادویات کا تیس فیصد سٹاک رہ جائے ‘تو سسٹم خودکار طریقے سے مزید ادویات آرڈر کر دیتا ہے‘ اسی طرح بچوں کو ویکسی نیشن لگانے کے لئے مانیٹرنگ نظام کا قیام‘ای سٹامپ پیپرز کا اجرا جس سے جعلی اور پرانی تاریخوں والے بوگس سٹامپ پیپرزکا خاتمہ ممکن ہوا ‘ کلاس رومز میں پڑھانے کیلئے ڈیجیٹل بورڈز کا آغاز وغیرہ وغیرہ ۔ اسی طرح پنجاب نے ہی دیگر صوبوں کو آئی ٹی کی جدید سہولیات مہیا کیں۔ کے پی کے میں جب ناصر خان درانی آئی جی تھے تب پی آئی ٹی بی نے کے پی پولیس کے لئے جدید نظام بنا کر دیا تھا‘ جس پر ناصر درانی نے چیئرمین پی آئی ٹی بی ڈاکٹر عمر سیف کو شکریے کے طور پر ایک عدد شیلڈ اور تہنیتی خط بھیجا تھا۔وزیراعظم عمران خان نے موجودہ دور میں ناصر درانی کو پنجاب پولیس میں ریفارمز لانے کے لئے وزیراعلیٰ کا مشیر مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ درا نی صاحب سے بہتر کون پی آئی ٹی بی کی کارکردگی سے واقف ہو گا‘ تاہم آئی ٹی میں قومی سطح پر کئی گنا زیادہ کام ہونا باقی ہے۔ تحریک انصاف کو مرکز‘ پنجاب اور کے پی میں حکومت مل چکی ہے۔ اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ پنجاب آئی ٹی بورڈ لاہور کی پرشکوہ بلند عمارت ارفع سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک میں واقع ہے۔یہاں درجنوں ملکی و غیر ملکی آئی ٹی کمپنیوں کے دفاتر بھی ہیں۔ اس لحاظ سے حکومت اگر لاہور کو سیلی کون ویلی کی طرز پر ٹیکنالوجی کا حب ڈکلیئر کر دے ‘تو اس کے بے شمار فائدے ہوں گے؛چونکہ پورے پاکستان میں سرکاری سطح پر آئی ٹی کا اسی فیصد کام پی آئی ٹی بی نے کیا ہے اور یہ لاہو رمیں واقع ہے‘ تو اس طرح لاہور خطے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا گڑھ بن سکتا ہے اور اس سلسلے میں کئے گئے تمام اقدامات کو بورڈ کے ماہرین کی معاونت اور تائید بھی حاصل ہو گی۔ دوسرا یہ کہ ارفع سافٹ ویئر پارک جیسے مزید ٹاور اور ہائی ٹیک انڈسٹریل زونز فوری طور پر بنائے جانے چاہئیں‘ جہاں ملکی و غیر ملکی آئی ٹی کمپنیاں‘ کال سنٹرز‘ سافٹ ویئر ہائوسز‘ ڈیٹا سنٹرز اورسٹارٹ اپس اپنے دفاتر شروع کر سکیں۔ سٹارٹ اپ ایسی جگہ ہوتی ہے ‘جہاں نوجوان اپنا آئیڈیا عملی طور پر ڈھال سکتے ہیں۔ یہاں انہیں تیز ترین انٹرنیٹ‘ لیپ ٹاپس‘ مسلسل بجلی ‘ایئرکنڈیشنڈ ماحول اور ماہرین کی خدمات حاصل ہوتی ہیں۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر سٹارٹ اپ کا پہلا منصوبہ پلان نائن تھا جو ارفع سافٹ ویئر پارک میں شروع ہوا اور جہاں سے اب تک نوجوانوں کے ڈیڑھ سو سے زائد گروپس اپنے منصوبے مکمل کر کے کروڑوں ڈالر کی کمپنیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
تیسرا یہ کہ فوری طور پر فری لانسنگ کے لئے سرکاری سطح پر پالیسی بنائی جائے۔ فری لانسنگ کے ذریعے کوئی بھی شخص کہیں بھی بیٹھ کر صرف انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی مدد سے کام کر کے لاکھوں روپے ماہانہ کما سکتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں فری لانسنگ سے کم لوگ آگاہ ہیں‘ جبکہ فلپائن جس کی آبادی دس کروڑ ہے‘ وہاں پندرہ لاکھ شہری فری لانسنگ سے اربوں کا زرمبادلہ کما رہے ہیں۔پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق صرف ڈیڑھ لاکھ فری لانسرز کام کر رہے ہیں ۔ اگر حکومت سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں فری لانسنگ کو لازمی یا آپشنل کورس کے طور پر لاگو کر دے تو چند ہی مہینوں میں لاکھوں نوجوان برسرروزگار ہو سکتے ہیں۔طالب علم پارٹ ٹائم کام کر کے اپنا خرچ خود اٹھا سکتے ہیں‘خواتین گھر بیٹھے معقول آمدنی کما سکتی ہیں‘ جبکہ بے روزگار افراد فل ٹائم فری لانسنگ سے دیگر لوگوں کو بھی کام دے سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک کروڑ نوکریوں کا جو وعدہ کیا ہے‘ اس کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس شعبے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری بھی درکار نہیں اور اس کے نتائج بھی جلد اور نفع بخش ہیں۔اسی طرح پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ کو بھی آن بورڈ لینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت موبائل ایپ ڈویلپمنٹ کا رجحان بہت فروغ پا رہا ہے۔پاکستان میں ساڑھے بارہ کروڑ افراد کے پاس موبائل کنکشن موجود ہیں۔اب کالیں کم اور ڈیٹا کا استعمال زیادہ بڑھ گیا ہے۔ لوگ فون کرنے کی بجائے سوشل میڈیا اور موبائل ایپلی کیشنز کا استعمال زیادہ کر رہے ہیں۔ پیسے بھیجنے اور چیزوں کی خریدو فروخت‘ حتیٰ کہ بکروں‘ قصائیوں اور ٹیکسیوں کی بکنگ تک موبائل سے ہو رہی ہے۔ یہاں تک کہ یوٹیوب گلوبل ٹیوشن سنٹر کا درجہ حاصل کر چکا ہے ‘جہاں ہر شعبے کا علم اور معلومات ویڈیوز کی شکل میں موجود ہیں اور بچوں سے لیکر بڑوں تک سبھی اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔
پاکستان میں باسٹھ فیصد آبادی‘ یعنی بارہ کروڑ سے زائد افراد تیس سال سے کم عمر کے نوجوان اور بچے ہیں۔ انہی نے مستقبل سنبھالنا ہے۔ ان میں بے انتہا پوٹینشل موجود ہے۔ یہ آئی ٹی کی باریکیاں بھی جلد سمجھ جاتے ہیں۔ پوری دنیا میں آئی ٹی کا دور دورہ ہے۔ ٹی وی کی جگہ یوٹیوب لے رہا ہے۔ فیکس اور لینڈ لائن فون پہلے ہی متروک ہو چکے۔ آہستہ آہستہ بینکوں کی برانچزاور عملہ بھی کم ہوجائے گا۔آج بھی صرف پاکستان میں ایک ارب روپے سے زیادہ کی آن لائن ٹرانزیکشنز ہو رہی ہیں۔ وہ زمانے گئے جب لوگ بینکوں میں جا کر بیلنس اور سٹیٹمنٹ مانگا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ کیش ختم اور بٹ کوائن جیسی کرنسیاں ان کی جگہ لے لیں گی۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس وقت کیلئے خود کو تیار کر لیا ہے؟ آئی ٹی میں کتنا پیسہ ہے اس کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ بھارت کی صرف ایک آئی ٹی کمپنی انفوسس کا سالانہ ریونیو پندرہ ارب ڈالر ہے‘ جو ہماری کل سالانہ برآمدات کے برابر ہے۔اگر بھارت یہاں تک جا سکتا ہے‘ تو پاکستان کیوں نہیں؟بھارت میں بنگلور آئی ٹی کی سیلی کون ویلی ہے‘ جہاں مائیکروسافٹ‘ ایپل‘ گوگل‘ فیس بک‘سام سنگ اور ایمزون جیسی ٹریلین ڈالر کمپنیوں کے دفاتر بن چکے ہیں۔ لاہور آئی ٹی کا حب بن گیا‘ تو یہاں بھی یہ کمپنیاں سرمایہ کاری کریں گی‘ یہاں بھی لاکھوں نوکریاں نکلیں گی اور اربوں ڈالر کا زرمبادلہ یہاں بھی آسکے گا‘ کیا یہ سودا مہنگا ہے؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں