"ACH" (space) message & send to 7575

ایک درخواست

ریاض حق امریکہ میں مقیم پاکستانی آئی ٹی ماہر ہیں۔ 1974ء میں انہوں نے کراچی سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں گریجوایشن کی۔ امریکہ آئے۔ الیکٹریکل انجینئرنگ میں ماسٹرز کیا اور 1981ء میں سیلیکون ویلی میں انٹیل کارپوریشن میں ملازمت شروع کر دی۔ اس وقت انٹیل پہلی کمپنی تھی جو کمپیوٹر کے پراسیسر بنا رہی تھی۔ انٹیل نے تھری ایٹی سکس پروسیسر لانچ کیا تو اس میں بنیادی ذمہ داری ریاض حق نے نبھائی جس پر امریکی پی سی میگزین نے انہیں نمایاں شخصیت کے طور پر شائع کیا۔ فی الوقت وہ بطور کنسلٹنٹ اور انویسٹر مختلف آئی ٹی کمپنیوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ریاض حق بتاتے ہیں: امریکہ میں ان کے ایک ہندو پڑوسی رام شری رام ہوا کرتے تھے۔ اس وقت گوگل سرچ انجن ابھی شروع ہونے کے لئے پر تول رہا تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ اسے سرمایہ ملے تاکہ وہ اپنے منصوبے کو حقیقت کا روپ دے سکے۔ حالت یہ تھی کہ گوگل کو کوئی پیسے دینے یا اس میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہ تھا۔ گوگل پیسے مانگتا تو لوگ کہتے یاہو جیسے کئی بڑے سرچ انجن موجود ہیں‘ ان کی موجودگی میں تمہاری دال کیسے گلے گی اور تم کیا کر لو گے۔ تاہم اس بھارتی شری رام نے خطرہ مول لیا اور پندرہ ہزار ڈالر گوگل میں انویسٹ کر دئیے۔ کچھ عرصے بعد جب گوگل نمبر ون سرچ انجن بن گیا تو شری رام کو ان کے پندرہ ہزار ڈالر ایک ارب ڈالر بن کر واپس مل گئے۔ 
دنیا بھر میں اس وقت ستر اسی لاکھ پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں۔ ان میں سے چار سے پانچ لاکھ امریکہ میں ہیں۔ پاکستانی امریکی کمیونٹی امریکہ میں دوسری تیزی سے پھیلنے والی ایشیائی کمیونٹی ہے۔ صرف کیلیفورنیا میں پچاس سے ساٹھ ہزار پاکستانی مقیم ہیں۔ ان میں سے ایک چوتھائی یعنی بارہ سے پندرہ ہزار سیلیکون ویلی میں رہتے ہیں۔ پاکستانی امریکنز کی فی کس اوسط سالانہ آمدنی تریسٹھ ہزار ڈالر ہے‘ جبکہ امریکہ میں شہریوں کی اوسط سالانہ فی کس آمدنی 53 ہزار ڈالر ہے۔ پچھہتر فیصد پاکستانی امریکن بیچلر یا ہائر ڈگری رکھتے ہیں‘ جبکہ صرف اٹھائیس فیصد امریکی شہری بیچلر ڈگری یا ہائر ڈگری کے حامل ہیں۔ پاکستانیوں کی اکثریت ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ مینیجرز‘ اکائونٹنٹس‘ وکلا کی ہے۔ سیلیکون ویلی میں مقیم پاکستانی دنیا کے بہترین آئی ٹی اداروں میں کام کر رہے ہیں جن میں ایپل‘ گوگل‘ مائیکروسافٹ‘ اوریکل‘ سسکو‘ انٹیل جیسی بڑی کمپنیاں شامل ہیں۔ بہت سے پاکستانیوں نے تجربہ حاصل کرکے اپنی کمپنیاں شروع کر لیں۔ ریاض حق نے اپنے بلاگ میں چند ایسے پاکستانیوں کا ذکر کیا ہے‘ جنہوں نے امریکہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں زبردست نام پیدا کیا۔ ان کا کام اس قدر شاندار اور منفرد تھا کہ امریکی کمپنیوں نے منہ بولی آفر دے کر ان کی کمپنیوں کو خرید لیا۔ ان میں سے ایک کمپنی فائر آئی تھی جو 2004ء میں امریکہ میں مقیم پاکستانی اشعر عزیز نے شروع کی۔ یہ کمپنی آج امریکہ کی ٹاپ کمپنیوں کی لسٹ میں شامل ہو چکی ہے اور اشعر عزیز پہلے امریکن پاکستانی ہیں جو ٹیکنالوجی کے میدان میں ارب پتی بنے۔ اس کمپنی کا سالانہ ریونیو ساڑھے ساتھ سو ملین ڈالر‘ سالانہ آمدنی تین سو ملین ڈالر جبکہ کمپنی کی مالیت اڑھائی بلین ڈالر یا اڑھائی ہزار کروڑ پاکستانی روپے ہے۔ یہ بنیادی طور پر انٹرنیٹ اور سائبر سکیورٹی کی سروسز فراہم کرتی ہے۔ جس طرح دنیا کو اس وقت بموں سے لیس دہشت گردوں سے خطرہ ہے‘ اسی طرح انٹرنیٹ پر چونکہ دنیا کا سارا کاروبارِ زندگی ہی شفٹ ہو چکا ہے‘ لہٰذا یہاں پر بھی انٹرنیٹ کے دہشت گرد یعنی ہیکرز حملے کرکے معلومات چوری کرنے اور انٹرنیٹ نظام کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت امریکہ سمیت دنیا بھر میں سب سے زیادہ جس شعبے کی مانگ ہے وہ سائبر سکیورٹی ہے۔ سب سے زیادہ آمدنی بھی اسی شعبے میں ہے۔ سائبر سکیورٹی ایکسپرٹ کی تعداد بہت کم ہے کیونکہ یہ کام انتہائی باریک بین اور گنجلک ہے۔ بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں سے مسلسل سائبر حملے دوسرے ممالک کے اہم سکیورٹی اور فنانشنل حکومتی و نجی اداروں کی ویب سائٹس اور ڈیٹا سنٹرز پر کئے جاتے ہیں۔ کچھ ہیکرز شوقیہ بھی یہ کام کرتے ہیں جبکہ بعض ایسے ہیں جن سے عالمی خفیہ ایجنسیاں بھاری معاوضہ دے کر کام لیتی ہیں‘ اور انہیں اپنے مطلوبہ ہدف کے پیچھے لگا دیتی ہیں۔
راغب حسین ایک اور پاکستانی امریکن ہیں جو سیلیکون ویلی میں کام کرتے ہیں۔ راغب حسین کراچی میں ایک مڈل کلاس خاندان میں پیدا ہوئے۔ این ای ڈی یونیورسٹی کراچی سے 1992ء میں انجینئرنگ کی اور اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ چلے آئے۔ صرف آٹھ سال بعد انہوں نے 2001ء میں کیویم نامی آئی ٹی کمپنی شروع کی۔ یہ کمپنی کمپیوٹر پروسیسر کے پرزے بناتی ہے۔ 2007ء میں یہ کمپنی سٹاک مارکیٹ میں رجسٹر ہو گئی۔ دس برسوں میں یہ اتنی مقبول ہو گئی کہ گزشتہ برس امریکہ کی جائنٹ کمپنی مارولس نے اعلان کیا کہ وہ ساڑھے سات ارب ڈالر میں راغب حسین کی یہ کمپنی خرید رہی ہے۔
ضیا چشتی ایک اور امریکن پاکستانی ہیں۔ وہ سٹینفرڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں۔ سیلیکون ویلی کیلیفورنیا میں انہوں نے 1997ء میں ایلائن ٹیکنالوجی کے نام سے کمپنی شروع کی۔ ٹیڑھے دانتوں کو سیدھا کرنے کے لئے پہلی مرتبہ اس کمپنی نے تھری ڈی کمپیوٹر امیجنگ کا طریقہ استعمال کیا جو دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ میں مقبول ہو گیا۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے بغیر تکلیف کے دانتوں کا علاج ہونے لگا اور چند برسوں میں ہی اس کمپنی کی مالیت دس ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ یہاں تک کہ سال 2012ء میں کمپنی نے سب سے زیادہ ایک کروڑ ستر لاکھ امریکی شہریوں کے دانتوں کے ڈیجیٹل تھری ڈی عکس پرنٹ کئے۔ کمپنی کی ساکھ کا اندازہ اس امر سے لگا لیجئے کہ اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سپین کی سابق وزیراعظم جوز ماریہ‘ سابق امریکی سیکرٹری خزانہ جان شو اور امریکی کمپنی شائن گروپ کی بانی الزبتھ مورج شامل ہیں۔ ضیا چشتی کا تازہ منصوبہ ایفینیٹی ہے۔ اس کے تحت ایک صارف جب ایفینیٹی کال سنٹر میں کال کرتا ہے تو ایفینیٹی کا سافٹ ویئر فوری طور پر اس کے فون نمبر کو ڈیٹا بیس کے ساتھ میچ کرتا ہے‘ جس میں کال کرنے والے کی خریداری کا ریکارڈ‘ آمدنی‘ قرض کی تفصیلات‘ سوشل میڈیا پروفائل اور دیگر تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔ یہ سافٹ ویئر آنے والی کال کو ایسے کال ایجنٹ کی جانب خودکار طریقے سے فارورڈ کر دیتا ہے‘ جو صارف یا کالر کے ماضی کے ریکارڈ سے مطابقت اور آگاہی رکھتا ہو۔ یوں صارف کو اپنی مطلوبہ معلومات حاصل کرنے کے لئے بہت زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ ضیا چشتی کو حال ہی میں اس پراجیکٹ کو ڈیڑھ ارب ڈالر میں خریدنے کی پیش کش ہوئی ہے۔
آخر میں میری وزیراعظم عمران خان سے ایک درخواست ہے۔ ان کا وزیراعظم بننے کا خواب پورا ہو چکا۔ اب وہ عوام کے خوابوں کی تعبیر کیلئے کام کر رہے ہیں۔ کرپشن کا خاتمہ‘ بیرونی سرمایہ کاری اور لاکھوں نوکریاں ان کا بنیادی ہدف ہیں اور یہ ہدف آئی ٹی اور اوورسیز پاکستانیوں کی مدد سے جلد اور موثر انداز میں حاصل ہو سکتا ہے۔ سیلیکون ویلی کیلیفورنیا میں پاکستانی آئی ٹی ماہرین نے ایک فورم بنایا ہوا ہے‘ جس کا نام ''اوپن‘‘ ہے۔ اس فورم کے تحت ہر سال سیلیکون ویلی میں ایک سیمینار منعقد ہوتا ہے‘ جس میں امریکہ سمیت پوری دنیا سے آئی ٹی ایکسپرٹس‘ سی ای اوز‘ بزنس مین‘ انجینئرز‘ سرمایہ کار اور دیگر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی اور امریکی کمپنیوں کے مالکان اور ماہرین شرکت کرتے ہیں۔ اگر وزیراعظم عمران خان اس فورم کے صدر مبشر یزدانی کو وطن عزیز کیلئے کام کرنے کی پیش کش کریں تو یقینا وہ تیار ہو جائیں گے کیونکہ پاکستانی کہیں بھی رہ لیں‘ جتنی بھی ترقی کر جائیں‘ دل ان کے پاکستان کیلئے ہی دھڑکتے ہیں؛ چنانچہ اگر عمران خان اس فورم کے ذریعے امریکی و پاکستانی آئی ٹی ماہرین کی ایک پاک امریکن آئی ٹی ٹاسک فورس بنا دیں اور وفاقی وزیر اسد عمر کی سربراہی میں اس ٹاسک فورس میں ڈاکٹر عطاالرحمن‘ ڈاکٹر امجد ثاقب اور ڈاکٹر عمر سیف جیسے ٹیکنالوجی و تعلیمی ماہرین کو شامل کر لیں‘ تو یہ لوگ نہ صرف امریکہ کی سیلیکون ویلی میں موجود اربوں ڈالرز کی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے راغب کرکے یہاں بھی ایک سیلیکون ویلی قائم کر سکتے ہیں‘ بلکہ پاکستان کو آئی ٹی اور تعلیم کے شعبے میں اعلیٰ مقام دلانے اور نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنے میں شاندار کردار بھی ادا کر سکتے ہیں‘ اور ایسا ہو گیا تو عمران خان اور عوام دونوں کو اپنے اپنے خوابوں کی تعبیر مل جائے گی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں