"ACH" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم عمران خان کا ویژن

معروف چینی کمپنی علی بابا گروپ نے اعلان کیا ہے کہ گروپ کے موجودہ سی ای او ڈینئل ژانگ آئندہ برس سے علی بابا گروپ کے نئے چیئرمین ہوں گے۔ علی بابا گروپ کے بانی جیک ما بطور چیئرمین مستعفی ہونے کا اعلان پہلے ہی کر چکے ہیں۔ اس سے قبل 2013 میں جیک ما سی ای او کے عہدے سے مستعفی ہوئے تھے اور انہوں نے جوناتھن لو کو اپنی جگہ سی ای او منتخب کیا تھا۔ 2015 میں جوناتھن لو کی جگہ ڈینیل ژانگ نے سی ای او کی ذمہ داری سنبھالی تھی جو آئندہ برس سے چیئرمین علی بابا گروپ کے طور پر کام شروع کر دیں گے۔ میڈیا کو جاری ایک مراسلے میں جیک ما نے کہا کہ ژانگ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل اور ٹیم کو لیڈ کرنا جانتے ہیں۔ جیک ما کے مطابق وہ آہستہ آہستہ گروپ سے علیحدگی اختیار کریں گے۔ وہ تعلیم کے فروغ کے لئے کام کرنے کی خاطر بے چین ہیں کیونکہ انہیں تعلیم سے جنون کی حد تک لگائو ہے۔ انہوں نے کہا: دنیا بہت وسیع ہے اور میں یعنی جیک ما اس کا بہت ادنیٰ سا حصہ ہوں۔ نئے خواب دیکھنے پر پابندی نہیں۔ میں زندگی میں کچھ نیا اور مختلف کرنا چاہتا ہوں اور آخر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ علی بابا جیک ما سے نہیں بلکہ جیک ما ہمیشہ علی بابا کی وجہ سے جانا اور پہچانا جاتا رہے گا۔
جیک ما نے علی بابا کی بنیاد 1999 میں ای کامرس ویب سائٹ کے طور پر رکھی تھی۔ آج علی بابا ڈاٹ کام دنیا کی سب سے بڑی ای کامرس ویب سائٹ بن چکی ہے۔ چین میں کھرب پتی دولت مندوں کی کوئی کمی نہیں‘ لیکن جو شہرت اور کامیابی علی بابا گروپ کو نصیب ہوئی ہے اس کی کوئی مثال نہیں۔ اس کے بانی جیک ما چھتیس ارب ڈالر کے ساتھ چین کے امیر ترین شہری بن چکے ہیں۔ علی بابا ای کامرس یا دوسرے الفاظ میں انٹرنیٹ پر کاروباری اور تجارتی سر گرمیوں کی سب سے بڑی چینی کمپنی ہے۔ 1999ء میں جیک ما کے ذہن میں خیال آیا کہ جس طرح انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر سے لوگ ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے ہیں‘ تصاویر اور ویڈیوز کا تبادلہ کر رہے ہیں تو کیوں نہ ایک ایسا پلیٹ فارم شروع کیا جائے جس کے ذریعے عام لوگ انٹرنیٹ کو استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے کو اشیا کی ترسیل بھی کر سکیں۔ اس مقصد کیلئے اس نے اپنے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں سولہ سترہ دوستوں کا ''اجلاس‘‘ بلایا اور کمپنی کی بنیاد رکھ دی۔ آپ کمپنی کی کامیابیوں کی رفتار کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس بابا کے ہیڈ کوارٹر میں چونتیس ہزار سے زائد افراد ملازمت کرتے ہیں۔ یہ دو سو ممالک میں اپنا کاروبار پھیلا چکا ہے۔ اس نے دنیا کی سب سے بڑی کمپنی وال مارٹ اور ایمزون کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ امریکہ میں تمام آن لائن کامرس ویب سائٹس کا بجٹ ایک طرف اور اکیلے علی بابا کی آن لائن آمدن دوسری طرف ہے۔ اس گروپ نے تین برس قبل جب نیویارک سٹاک ایکسچینج میں اپنے شیئرز بیچے تو ان کی اتنی ڈیمانڈ تھی کہ کمپنی نے بائیس ارب ڈالر کے لگ بھگ ابتدائی سرمایہ کاری حاصل کر لی جو جلد ہی پچیس ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ یہ تاریخی کامیابی تھی۔ یہ گروپ چھوٹے اور درمیانے کاروبار کرنے والوں کو ایسی شاندار سہولیات فراہم کرتا ہے کہ ان کا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگتا ہے۔ لوگ اس کی ویب سائٹس پر جا کر تقریباً ہر وہ چیز جو ذہن میں آ سکتی ہے‘ منٹوں میں خرید لیتے ہیں۔ یہ شاپنگ ویب سائٹ کھربوں روپے کی معاشی سرگرمیاں کرتی ہے۔ چودہ کروڑ سے زائد لوگ اس گروپ کی ویب سائٹس اور موبائل ایپ کو روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ لوگ ذاتی یا کاروباری مقصد کیلئے اشیا فوری منگوا سکتے ہیں۔ طریقہ بڑا آسان ہے۔ علی بابا پر ای میل کی طرح ایک اکائونٹ بنایا جاتا ہے جس کے بعد آپ بطور خریدار یا دکاندار لاکھوں اشیا کے ساتھ کھیل سکتے ہیں۔ ان اشیا میں سوئی سے لے کر جہازوں کے پرزے تک شامل ہیں۔ چین سمیت دنیا بھر کے کاروباری ادارے آپ کو آن لائن معلومات فراہم کرتے ہیں۔ آپ آن لائن پیسے ادا کرتے ہیں تو آپ کو مطلوبہ سامان مقررہ دنوں کے اندر موصول ہو جاتا ہے۔ علی بابا گروپ کی کامیابی کا اہم راز اس کا سادہ اور موثر نظام ہے۔ اسے ایک نیا کاروباری شخص بھی آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ویب سائٹ سے روزانہ ساڑھے تین ارب ڈالر سے زیادہ کی معاشی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ جیک ما کو کمپنی کا نام علی بابا رکھنے کا خیال یوں آیا کہ وہ ایک دن سان فرانسسکو میں ایک کافی شاپ میں بیٹھے تھے۔ انہیں کتابیں پڑھنے کا شوق بچپن سے تھا۔ ان دنوں انہوں نے تازہ تازہ علی بابا چالیس چور کی کہانی پڑھی تھی۔ ویٹرس ان کے لئے کافی لے کر آئی تو جیک ما نے اس سے از رہ تفنن پوچھا: کیا تم علی بابا کو جانتی ہو؟ وہ بولی: کھل جا سم سم۔ جیک ما مسکرایا اور بولا: ہاں وہی علی بابا جو غار کے خزانوں تک پہنچ گیا تھا۔ جیک ما کہنے لگے: میں وہاں سے اٹھا اور مختلف جگہوں پر تیس مختلف قومیت کے لوگوں سے ملا۔ ان میں آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ برطانیہ سمیت دیگر لوگ شامل تھے۔ جیک نے ان سب سے پوچھا کہ کیا وہ علی بابا کو جانتے ہیں تو سبھی نے ہاں میں جواب دیا اور کہا کہ ہم سب اس کردار کو بہت پسند کرتے ہیں کیونکہ اس میں علی بابا نے گائوں والوں کی مدد کی تھی اور غار کے دہانے پر جا کر بولا تھا: کھل جا سم سم۔ اسی وقت جیک ما نے فیصلہ کر لیا وہ اپنی کمپنی کا نام علی بابا رکھے گا اور اس کے ذریعے چھوٹے اور درمیانے درجے کی کاروباری کمپنیوں اور لوگوں کے لئے اپنے پلیٹ فارم پر اسی طرح کاروبار کے دروازے کھول دے گا جس طرح علی بابا نے غار کا دروازہ کھولا تھا۔ 
علی بابا اس قدر تیزی سے ترقی کر رہا ہے کہ 2036ء تک دنیا کے دو ارب افراد یا ایک تہائی آبادی کا شمار اس کے صارفین میں ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ اس قدر ترقی کی بنیاد کیا ہے۔ اس کا جواب ہے: میرٹ اور صرف میرٹ۔ جب انسان کسی کمپنی یا ادارے میں بہترین کارکردگی نہ دکھا سکے تو اسے اپنی پوسٹ کو ایک بہترین آدمی کے ساتھ تبدیل کر دینا چاہیے جیسا کہ جیک ما نے کیا۔ وہ اس کمپنی کا بانی تھا اور چاہتا تو مرتے دم تک چیئرمین رہ سکتا تھا۔ وہ چاہتا تو اپنے بیٹے بیٹی بیوی یا قریبی رشتہ دار کو بھی چیئرمین نامزد کر سکتا تھا لیکن جناب یہ چین ہے‘ پاکستان نہیں۔ وہاں ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک سیاسی جماعت یا ادارے کا سربراہ بوڑھا ہو جائے تو بیٹا اس کا سربراہ اور سردار بن کر بیٹھ جاتا ہے اور یہ سلسلہ نسلوں چلتا رہتا ہے۔ جیک ما نے ڈینئل ژانگ کو چیئرمین نامزد کیا کیونکہ وہ گزشتہ پانچ برس سے دیگر تمام لوگوں سے بہتر کارکردگی دکھا رہے تھے۔ انہوں نے علی بابا گروپ کے تحت ایک ٹی مال نامی کمپنی بنائی جو دیکھتے ہی دیکھتے آسمانوں کو چھونے لگی۔ ڈینئل ژانگ جیک ما کا کوئی رشتہ دار یا دوست نہیں تھا بلکہ یہ میرٹ تھا جس نے ایک عام پر ذہین شخص کو ترقی کی بلندیوں پر فائز کیا۔ جیک ما کے اس اقدام سے ثابت ہوتا ہے علی بابا گروپ کا انحصار چند مخصوص لوگوں پر نہیں بلکہ یہ ایسے نظام کے ذریعے آگے بڑھ رہا ہے جس میں ٹیلنٹ کی قدر کی جاتی ہے اور کوئی بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا کر ترقی کی بلندیوں پر پہنچ سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ پاکستان کو دیکھیں تو یہاں ہر جانب اقربا پروری کا راج رہا ہے اسی لئے سرکاری ادارے تو ایک طرف‘ ہماری نجی کمپنیاں بھی ایک حد سے آگے نہیں ترقی کرتیں کیونکہ نالائق اولادوں کو کاروبار ورثے میں مل جاتا ہے اور وہ چند برسوں میں سارا کچھ اجاڑ کر بیٹھ جاتی ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا ویژن جیک ما سے ملتا جلتا ہے اور وہ بھی میرٹ کی بالا دستی پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر وہ اپنے ویژن کے نفاذ میں کامیاب ہو گئے تو ایک نہ ایک دن چین کی طرح پاکستان بھی ضرور اٹھے گا‘ یہ بھی ترقی کی بلندیوں پر پہنچے گا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں