یہ ایک پرائیویٹ ہسپتال کے بلنگ کائونٹر کا منظر ہے۔
قطار میں کھڑے ایک آدمی کی جیسے ہی باری آئی‘ اس نے بلنگ افسر کو تین لاکھ روپے دیئے۔ بلنگ افسر نے دو مرتبہ پیسے گنے اور اپنے سینئر کو بتایا کہ فلاں مریضہ کا بل ادا کر دیا گیا ہے۔ سینئر اکائونٹس افسر اس شخص کے قریب آیا اور بولا: یہ رسید لے لو اور آدھے گھنٹے بعد ہسپتال کے مردہ خانے سے اپنی بیوی کی میت لے جانا۔ مریضہ کا خاوند چیخ اٹھا: کیسی میت‘ میری بیوی مر گئی‘ کب‘ کیسے؟ اکائونٹس افسر بولا: وہ تو رات کو ہی فوت ہو گئی تھی۔ وہ شخص گلا پھاڑتے ہوئے بولا ''تو مجھے رات کو کیوں نہیں بتایا؟‘‘ افسر بولا: رات کو بتا دیتے تو تم رونا دھونا ڈال دیتے اور پیسے دئیے بغیر ہی میت لے جاتے۔ کچھ ہی دیر میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ اس ہنگامے میں ایک ہٹا کٹا نوجوان بھی موجود تھا۔ وہ اپنے والد کے چیک اپ کے لئے آیا تھا۔ یہ نوجوان ہسپتال سے باہر نکلا تو دیکھا ایک عورت اپنی بچی کے ساتھ زمین پر بیٹھی رو رہی ہے۔ قریب ہی ایک میت کفن سے ڈھکی پڑی تھی۔ اس نے عورت سے پوچھا: یہ کس کی لاش ہے۔ عورت بولی: یہ اس کا خاوند ہے‘ وہ علاج کے لئے یہاں آئے تھے لیکن لاکھوں روپے مانگے گئے جو ان کے پاس نہیں تھے‘ مریض کو داخل ہی نہیں کیا گیا اور وہ باہر ہی تڑپ تڑپ کر فوت ہو گیا۔ نوجوان نے عورت کو حوصلہ دیا اور ایک انتہائی مشکل کام کے لئے راضی کر لیا۔ نوجوان نے میت کو مکمل ڈھانپا اور بھاگتے ہوئے ہسپتال کی ایمرجنسی کی طرف لے گیا۔ ڈاکٹرز اور نرسوں نے ''مریض‘‘ کو ہاتھوں ہاتھ لیا‘ اور پوچھا: کیا ہوا ہے۔ نوجوان بولا: پتہ نہیں‘ یہ میرے بڑے بھائی ہیں‘ کچھ بول ہی نہیں رہے‘ شاید ہارٹ اٹیک ہوا ہے‘ پلیز ان کی جان بچا لیں۔ ڈاکٹر فوراً ''مریض‘‘ کو ایمرجنسی روم میں لے گئے۔ اندر لے جا کر چیک کیا تو دیکھا‘ دل کی دھڑکن مکمل بند تھی۔ ایک ڈاکٹر بولا: اب کیا کریں۔ دوسرا کہنے لگا: وہی جو کرنا چاہیے۔ نرس سے کہا: جائو اور لواحقین سے کہو فوری آپریشن کرنا پڑے گا‘ پیسوں کا انتظام کریں۔ نرس نے آ کر نوجوان سے کہا: مریض کی جان بچانے کے لئے آپریشن ہو گا‘ جس پر پانچ لاکھ خرچ آئے گا‘ فوری طور پر دو لاکھ روپے جمع کرائو تاکہ آپریشن شروع کیا جا سکے۔ نوجوان اپنے ایک تاجر دوست کے پاس گیا اور اسے ساری کہانی سنائی۔ اس نے اسے پانچ لاکھ دئیے جس میں سے اس نے دو لاکھ روپے مریض کے نام پر جمع کرا دئیے۔ ''آپریشن‘‘ شروع ہونے کے ایک گھنٹے بعد ایک ڈاکٹر باہر آیا اور بولا: مریض کے پھیپھڑے کام کرنا چھوڑ رہے ہیں‘ فوری طور پر سپیشلسٹ ڈاکٹر کو بلانا ہو گا مگر اس کی فیس ایک لاکھ روپے ہے۔ نوجوان بولا: آپ چاہے بھگوان کو بلا لیں لیکن میرے بھائی کی جان بچا لیں۔ آپ جتنے پیسے کہیں گے‘ میں دوں گا۔ تھوڑی دیر میں ایک ''سپیشلسٹ‘‘ ڈاکٹر بھی آ گیا اور آپریشن تھیٹر میں داخل گیا۔ اندر جا کر اس نے مریض کی باڈی کو دیکھا تو دوسرے ڈاکٹر سے بولا: یہ تو مر چکا ہے‘ مجھے کیوں بلایا؟ پہلا ڈاکٹر بولا: یہ آپ کو بھی پتا ہے کہ کیوں بلایا ہے۔ دونوں ڈاکٹروں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور زور کا قہقہہ لگایا۔ اتنے میں ان کی نظر ''مریض‘‘ کے جسم پر پڑی جو ڈی کمپوز ہونا شروع ہو رہا تھا۔ انہوں نے فوری طور پر ڈرامہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک ڈاکٹر باہر آیا اور نوجوان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا: ہمیں افسوس ہے ہم مریض کو نہ بچا سکے۔ نوجوان چیخ اٹھا: مگر میرے بھائی کی موت کیسے ہو گئی‘ یہ تو اتنا بڑا ہسپتال ہے‘ آپ اتنے بڑے ڈاکٹر ہیں، آپ پلیز ایک کوشش اور کریں شاید میرا بھائی بچ جائے۔ ڈاکٹر بولا: آپ کا بھائی مر چکا ہے‘ ڈیڈ باڈی کا علاج کیسے ہو سکتا ہے؟ نوجوان نے ڈاکٹر کا گریبان پکڑا اور بولا: اگر اس ہسپتال میں ڈیڈ باڈی کا علاج نہیں ہوتا تو پھر آپ سب پچھلے چار گھنٹے سے اندر کیا چھنکنا بجا رہے تھے؟ اتنے میں ایک اکائونٹس آفیسر آیا اور بولا: آپ بقایا چار لاکھ روپے جمع کرا کر میت لے جا سکتے ہیں۔ نوجوان نے اسے خون آلود آنکھوں سے دیکھا اور اس میت کا وہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ لہرا دیا جو اسی ہسپتال سے ایک رات قبل جاری ہوا تھا۔ نوجوان بولا: یہ اس میت کا نہیں‘ اس ہسپتال کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ ہے۔
اوپر بیان کردہ کہانی بھارتی فلم ''گھبر اِز بیک‘‘ کا ایک دل دہلا دینے والا منظر ہے اور گزشتہ کئی ماہ سے سوشل میڈیا پر زیرگردش ہے۔ اس فلم کا ہیرو اکشے کمار ہے جو میت کو دوبارہ ہسپتال میں لے کر جاتا ہے۔ فلموں میں دکھائی گئی کہانیاں کم ہی حقیقی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں لیکن نجی ہسپتالوں کی وارداتوں کو اس فلم میں انتہائی جاندار انداز میں دکھایا گیا ہے۔ فلم میں ایک جگہ اکشے کمار ایک ڈاکٹر کی نرس سے گفتگو بھی سن لیتا ہے جس میں نرس ڈاکٹر سے کہتی ہے کہ مریضہ کے لواحقین نارمل ڈلیوری کے لئے اصرار کر رہے ہیں جس پر ڈاکٹر کہتا ہے کہ انہیں سی سیکشن آپریشن پر قائل کرو۔ اگر ہم نارمل ڈلیوریاں کرنے لگیں گے تو ہمارے ہسپتال کا خرچ اور تمہاری تنخواہ کہاں سے نکلے گی۔ ایک اور منظر میں آپریشن تھیٹر سے لواحقین کو ڈھیروں ادویات کی پرچی دی جاتی ہے۔ لواحقین ہزاروں روپے کی ادویات لا کر دیتے ہیں جو سٹاف نرسیں کچھ دیر بعد واپس ہسپتال فارمیسی کو دے کر کمیشن وصول کر لیتی ہیں۔ ایک دوست نے بتایا کہ پاکستان میں بعض نجی ہسپتال تو خون کی ایک بوتل دس دس ہزار میں بیچ دیتے ہیں۔ ان کے کارندے یہ خون سرکاری ہسپتال کے باہر موجود نشئیوں سے دو ہزار فی بوتل کے حساب سے اکٹھا کرتے ہیں‘ انتہائی مہنگی بیچ دیتے ہیں اور اس کی سکریننگ بھی نہیں ہوتی۔ کئی نجی ہسپتالوں میں پرائیویٹ کمرہ پچاس پچاس ہزار میں ملتا ہے جبکہ وارڈ انتہائی مختصر اور ان میں اکثر جگہ ہی نہیں ہوتی؛ چنانچہ لوگ پرائیویٹ کمرہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایک اور واقعہ میں ایک معمر خاتون کو سانس کی تکلیف کے باعث آدھی رات کو لاہور کے ایک نجی ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے اعلان کیا مریضہ کا فوری بائی پاس کرنا پڑے گا‘ جلدی سے آٹھ لاکھ روپے کا انتظام کریں۔ لواحقین نے کہا کہ مریضہ کو پہلے بھی سردیوں میں اکثر سانس کی تکلیف رہتی ہے اور ہسپتال میں سانس کے علاج کے بعد گھر آ جاتی ہے۔ ہم اس ہسپتال میں پہلی بار آئے ہیں۔ ہمارے خاندان میں دور دور تک کسی کو دل کا مرض نہیں۔ جس پر ڈاکٹروںنے کہا کہ ڈاکٹر ہم ہیں یا آپ؟ لواحقین نے ''مدد‘‘ کے لئے مزید عزیز رشتہ داروں کو بلا لیا اور کئی گھنٹوں کے جھگڑے کے بعد رات کے آخری پہر جا کر مریضہ کو ہسپتال کے چنگل سے چھڑانے میں کامیاب ہوئے۔ مریضہ کو ایک اور نجی مگر کم درجے کے ہسپتال لے جایا گیا۔ وہاں مریضہ کے پھیپھڑوں کا علاج کیا گیا۔ ہر چار گھنٹے بعد اسے نیبولائز بھی کیا جاتا رہا۔ چھ دن بعد وہ ہسپتال سے صحت یاب ہو کر گھر آ گئی۔ کل خرچ پینسٹھ ہزار آیا لیکن جان اور لاکھوں روپے بچ گئے‘ اس واقعے کو تین برس گزر چکے ہیں اور وہ مریضہ الحمدللہ خوش و خرم جی رہی ہے۔
گزشتہ دنوں چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے نجی ہسپتالوں کے حوالے سے شکایات پر نوٹس لیا تو مجھے یہ فلم اور واقعات یاد آ گئے۔ کون ایسا شخص ہو گا جس کے کسی عزیز کے ساتھ نجی ہسپتالوں میں ایسے دلخراش واقعات پیش نہ آئے ہوں گے۔ بندہ اپنی قیمتی ترین متاع کو لے کر علاج کی خاطر ہسپتال جاتا ہے۔ قرض لے کر اور چیزیں بیچ کر لاکھوں روپے بھی دیتا ہے اور چند دن بعد لاش لے کر گھر آ جاتا ہے۔ سپریم کورٹ اور پی ٹی آئی کی حکومت اگر سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر بنا دیں تو ممکن ہے لوگ نجی ہسپتالوں کا رخ نہ کریں اور یہ لوٹ مار خود بخود بند ہو جائے وگرنہ ایسے ہسپتالوں کی طرف سے لواحقین سے پیسے وصول کرکے انہیں یہی کہا جاتا رہے گا کہ آپ کی مریضہ تو رات کو ہی مر گئی تھی۔