یکم اکتوبر کا دن یادگار رہے گا۔ میں اس دن اسلام آباد میں تھا۔ یہ نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن (نیوٹیک) کے ہیڈ کوارٹر کا ایک کانفرنس روم تھا جس کی کانفرنس ٹیبل کے ایک طرف نیوٹیک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ذوالفقار احمد چیمہ اور ان کی ٹیم کے افسران جبکہ ان کے بالکل سامنے چیئرمین پی آئی ٹی بی ڈاکٹر عمر سیف اپنی ٹیم کے ہمراہ موجود تھے۔ میں بھی ڈاکٹر صاحب کی ٹیم میں شامل تھا اور اس کی وجہ میرے فری لانسنگ پر چند کالم تھے جنہیں پڑھ کر ذوالفقار چیمہ صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ پنجاب آئی ٹی بورڈ کے فری لانسنگ پروگرام ای روزگار کو نیوٹیک کے ذریعے ملک بھر میں پھیلایا جائے۔ میں نے چیمہ صاحب کو ای روزگار کی ٹیم سے ملوا دیا اور یوں یہ پروگرام شروع ہو گیا۔ یہ چیمہ صاحب کی دور اندیشی تھی کہ وہ ٹیکنالوجی کی افادیت کو سمجھتے ہیں اور نئے اُفق تلاش کرنے کے عادی ہیں‘ ورنہ کم سرکاری افسران ہی ایسا جنون پالنے کی ہمت کرتے ہیں۔ چیمہ صاحب جن محکموں میں گئے وہاں انقلابی تبدیلیاں لے کر آئے۔ اب وہ ای روزگار کو ملک بھر میں پھیلانا چاہتے ہیں جو پنجاب کی حد تک محدود ہے۔ یہ گزشتہ برس شروع ہوا اور اب تک پنجاب کے تئیس ای روزگار سنٹرز سے ساڑھے تین ہزار نوجوان طلبا و طالبات آن لائن کام کرکے پانچ کروڑ روپے کما چکے ہیں۔ میں نے اپنے کالموں میں کئی ایسے نوجوانوں کی مثالیں بھی دیں جو انفرادی طور پر دس برس سے فری لانسنگ سے وابستہ ہیں اور تنہا کروڑوں روپے سالانہ کما رہے ہیں تاہم اصل ضرورت ان نوجوانوں کو دھارے میں لانا تھی جو فری لانسنگ کی باریکیوں سے نا واقف تھے۔
نیوٹیک کے ساتھ مفاہمتی یادداشت سے قبل ڈاکٹر عمر سیف نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا جو دراصل پنجاب میں ای روزگار فری لانسنگ پروگرام کی بنیاد بنا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ایک روز اُن سے ایک نوجوان ملنے آیا۔ اس نے بتایا کہ وہ آن لائن کام کر کے تین چار لاکھ ماہانہ کما لیتا ہے۔ اس وقت تک عموماً یہی خیال کیا جاتا تھا کہ آن لائن کمائی بالخصوص پاکستان میں دھوکہ بازی کے سوا کچھ نہیں۔ اکثر رکشوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے کہ روزانہ چار گھنٹے کام کریں اور پانچ ہزار روزانہ کمائیں۔ ڈاکٹر عمر سیف نے اس نوجوان کی ملاقات کی بنیاد پر تحقیق کروائی تو معلوم ہوا کہ پاکستان میں کم و بیش ایک لاکھ نوجوان اپنے طور پر فری لانسنگ سے قریباً اٹھاسی کروڑ سالانہ کما رہے ہیں۔ اس بنیاد پر انہوں نے پنجاب بھر میں ای روزگار سنٹرز قائم کئے جہاں بیروزگار افراد تین ماہ کی تربیت حاصل کرتے ہیں اور دوران تربیت ہی پیسہ کمانے لگتے ہیں۔ ای روزگار سنٹرز میں داخلے کی شرائط میں پینتیس برس کی عمر اور سولہ برس کی تعلیم شامل تھی۔ نیوٹیک نے جو معاہدہ کیا ہے‘ اس میں ایف اے اور بی اے پاس طلبا اور بیروزگار افراد بھی تربیت حاصل کر سکیں گے۔ معاہدے کے تحت نیوٹیک پہلے سال گریجوایٹ پروگرام کے تحت آٹھ ہزار اور انڈر گریجوایٹس پروگرام کے تحت پانچ ہزار طلبا کو تربیت دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ نیوٹیک یہ تربیت سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں دے گا‘ جہاں پہلے سے فنی اور تکنیکی شعبوں میں تربیت دی جا رہی ہے۔ پی آئی ٹی بی اپنے ماسٹر ٹرینرز کے ذریعے نیوٹیک کے ٹرینرز کو تربیت دے گا جو آگے طلبا کو فری لانسنگ سکھائیں گے۔ نیوٹیک کا دائرہ کار نہ صرف چاروں صوبوں بلکہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر تک پھیلا ہوا ہے۔ یوں وہ بیروزگار ذہین نوجوان جو کمپیوٹر استعمال کرنا جانتے ہیں اور بغیر کسی خاص سرمائے کے کام شروع کرنا چاہتے ہیں وہ پورے ملک سے اس پروگرام میں شامل ہو سکیں گے۔ میں سمجھتا ہوں اس معاہدے کا سہرا ڈاکٹر عمر سیف کے سر جاتا ہے جنہوں نے پنجاب میں اس پروگرام کی بنیاد رکھی جو اب اللہ کے فضل سے پورے ملک میں پھیلنے جا رہا ہے۔ اعداد و شمار کو دیکھیں تو پاکستان میں ایک فری لانسر اوسطاً تیس ڈالر یومیہ آن لائن کام سے کماتا ہے جو ماہانہ ایک لاکھ روپے بنتے ہیں۔ اگر ہر سال ایک لاکھ نوجوان فری لانسنگ کی تربیت حاصل کر کے روزانہ تیس ڈالر اوسطاً کمائیں تو یہ ایک ارب ڈالر بنتے ہیں اور اگر دس لاکھ نوجوان روزانہ تیس ڈالر کمائیں تو یہ رقم دس ارب ڈالر سالانہ بنتی ہے جو پاکستان کی کل برآمدات کا پچاس فیصد ہے اور یہ ایسا ناممکن بھی نہیں۔ بنگلہ دیش جیسے ملک میں پانچ لاکھ فری لانسرز کام کر رہے ہیں تو یہاں کیوں نہیں کر سکتے؟ وہاں تو انٹرنیٹ بھی قدرے سست اور ہر جگہ دستیاب نہیں۔ جو اصل نکتہ سمجھنے کا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں ساٹھ فیصد آبادی تیس برس سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان کمپیوٹر اور موبائل چلانا جانتے ہیں‘ اور آج کا دور بھی ٹیکنالوجی کا ہی دور ہے۔ دوسرا نکتہ یہ سمجھنے کا ہے کہ آج کا دور ای دور ہے۔ آج ہر چیز الیکٹرانک ہو رہی ہے۔ ہر چیز کے ساتھ ای لگ رہا ہے حتیٰ کہ گورنمنٹس بھی ای گورنمنٹس ہو رہی ہیں۔ بینکوں کا اکثر لین دین اب ویب سائٹس اور موبائل ایپس پر ہو رہا ہے۔ خریداری‘ ٹیکس‘ یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی‘ سکولوں کی فیسیں سب کچھ انٹرنیٹ کی ایک کمانڈ سے ہو رہا ہے اور اس سارے نظام کو کھڑا کرنے اور چلانے والے ننانوے فیصد نوجوان ہیں۔ پرنٹ یا ٹی وی ایڈورٹائزنگ کی جگہ بھی ڈیجیٹل میڈیا مارکیٹنگ لے رہی ہے۔ ہم کوئی موبائل ایپلی کیشن یا ویب سائٹس کھولتے ہیں تو اچانک ایک طرف جو چھوٹے چھوٹے گوگل کے اشتہارات کھلتے ہیں ان سب کو چلانے‘ بنانے اور سمجھنے کے لئے بھی نوجوان دماغ درکار ہیں۔ بڑی عمر کے لوگ تو ان چیزوں کو سمجھ ہی نہیں سکتے لیکن کم از کم یہ نئی نسل کے لئے فیصلہ سازی تو کر سکتے ہیں۔ اس ای دور میں اگر ہم اپنے ملک کے ساڑھے بارہ کروڑ نوجوانوں کو دھکے کھانے کے لئے چھوڑ دیں تو یہ ان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہو گی۔ ایسے نوجوانوں کے لئے نیوٹیک اور پی آئی ٹی بی کا مشترکہ ای روزگار پروگرام ہنگامی آکسیجن ثابت ہو گا۔ بالخصوص خواتین کے لئے جو اس ملک کی آبادی کا باون فیصد ہیں۔ یہ گھر بیٹھ کر صرف ایک کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعے محفوظ طریقے سے کما سکتی ہیں۔ اس معاہدے سے قبل اسلام آباد کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں نیوٹیک نے نیشنل سکلز پروگرام لانچ کیا جس کے مہمان خصوصی وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود تھے۔ شفقت محمود نے نیوٹیک کو وفاقی حکومت کے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ نیوٹیک اب تک لاکھوں افراد کو فنی اور تکنیکی میدان میں تعلیم دے چکا ہے اور لوگوں کو ہنرمند بنا کر اپنے پائوں پر کھڑا کر رہا ہے۔ اس تقریب کے مہمانوں میں یورپی یونین‘ ناروے اور جرمنی کے سفرا بھی شامل تھے۔ ناروے کے سفیر کا خطاب بہت جاندار تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں مختلف منصوبوں میں پیسہ ضرور لگاتے ہیں لیکن پاکستانیوں کو اپنے مسائل خود حل کرنے ہیں۔ ہم صرف پیسے دے سکتے ہیں لیکن پاکستان کو تبدیل پاکستانیوں نے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈونر جس قدر جلد واپس چلا جائے اتنا بہتر ہوتا ہے کیونکہ اصل مقصد متعلقہ منصوبے کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا ہوتا ہے۔ سفیر کی بات میں بڑا وزن تھا۔ ہم پاکستانی جب تک اپنے مسائل کو نہیں سمجھیں گے اور ان سے چھٹکارا پانے کی دل و جان سے کوشش نہیں کریں گے‘ تب تک امریکہ‘ برطانیہ یا چین بھی ہمارے حالات نہیں بدل سکتے۔ نیوٹیک کے ساتھ ای روزگار کو ملک بھر میں پھیلانے کا معاہدہ اس وقت طے پایا ہے جب ملک میں ایک ایسی حکومت ہے جو تبدیلی کی خواہشمند اور نوجوانوں کی دلدادہ ہے۔ نیوٹیک کے اس ای روزگار پروگرام کو وفاقی حکومت کی بھرپور سپورٹ حاصل ہونے سے ہر سال پانچ لاکھ نوکریاں تو صرف فری لانسنگ سے بآسانی پیدا کی جا سکتی ہیں‘ اس طرح تحریک انصاف کے موجودہ پانچ سالہ دور میں ایک کروڑ میں سے پچیس لاکھ نوکریاں تو فری لانسنگ سے حاصل ہو جائیں گی اور اربوں ڈالر کا زر مبادلہ الگ سے حاصل ہو گا جس کا کریڈٹ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ذوالفقار احمد چیمہ اور ڈاکٹر عمر سیف کو جائے گا جو نہ صرف ٹیکنالوجی کی افادیت کو سمجھتے ہیں بلکہ اپنی توانائیاں نوجوانوں کو باعزت روزگار دلوانے اور ملک میں تبدیلی لانے کی خاطر صرف کر رہے ہیں۔