وزیراعظم عمران خان کا وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ انتہائی شاندار اور قابل تعریف ہے ‘ اس سے نہ صرف اربوں روپے کی بچت ہو گی بلکہ ملک تعلیمی میدان میں ترقی بھی کرسکے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ وزیراعظم ہائوس کو کس طرز کی یونیورسٹی بنایا جائے تاکہ یہ فیصلہ تاریخی اور سنہرے قدم کے طور پر یاد رکھا جائے؟ کیا اسے ملک میں موجود بعض روایتی سرکاری یونیورسٹیوں کی طرح کی ایک ٹیچنگ یونیورسٹی بنا دیا جائے اور سالانہ ہزاروں مزید بیروزگار پیدا کر کے مارکیٹ میں بھیج دئیے جائیں یا پھر ملک اور بیرون ملک سے کسی ایسی مثال کو تلاش کر کے اس کا ماڈل لاگو کیا جائے تاکہ نہ صرف یہ یونیورسٹی دنیا کی اولین یونیورسٹیوں کی فہرست میں آ سکے بلکہ یہاں کے طالبعلم روزگار کی فکر سے آزاد ہوں اور ہزاروں دیگر افراد کیلئے کاروباری مواقع بھی پیدا کر سکیں۔ پاکستان میں صرف ایک سرکاری یونیورسٹی ایسی ہے جو امریکہ کی ایم آئی ٹی ‘سٹینفرڈ اور ہارورڈ یونیورسٹی کی طرز پر قائم کی گئی‘ جہاں کا نصاب جدید ترین تقاضوں کے عین مطابق ہے ‘جہاں کے طالب علم ایم آئی ٹی کی طرح اربوں روپے کی سینکڑوں کمپنیاں بنا چکے ہیں اورجس کا ماڈل واقعتاً وزیراعظم ہائوس کی یونیورسٹی میں بآسانی لاگو کیا جا سکتا ہے‘ یہ کون سی سرکاری یونیورسٹی ہے‘ یہ جاننے سے قبل ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ اعلیٰ تحقیقی یونیورسٹیاں کیسے ملکوں اور دنیا کی تقدیر تک بدل دیتی ہیں۔ دنیا کی اس سال پہلی تین یونیورسٹیوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر میساچیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی یا ایم آئی ٹی ہے‘ دوسرے پر سٹینفرڈ جبکہ تیسرے نمبر پر ہارورڈ ہے۔ یہ تینوں امریکی یونیورسٹیاں ہیں۔ چونکہ دنیا میں اس وقت ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے اور گوگل‘ فیس بک‘ مائیکروسافٹ ‘ ٹیسلا اور ایمزون جیسی ویب سائٹس کے بانی انہی یونیورسٹیوں سے نکلے اور جنہوں نے اربوں افراد کو اپنے سحر اور دنیا کی معیشت کو اپنے تابع کر رکھا ہے چنانچہ اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ وزیراعظم ہائوس میں بننے والی یونیورسٹی کا بنیادی فوکس سائنس‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ پر ہونا چاہیے۔ دوسرا اہم نکتہ جو ایم آئی ٹی ‘سٹینفرڈ اور ہارورڈ کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ یہ یونیورسٹیاں بنیادی طور پر ٹیچنگ نہیں بلکہ تحقیقی یونیورسٹیاں ہیں جو دنیا کے موجودہ اور مستقبل کے مسائل کے حل کرنے کیلئے اپنے طالبعلموں کو عملی طور پر تیار کرتی ہیں۔طالب علم دوران تعلیم ہی اچھوتی ایجادات کرکے کاروباری کمپنیاں تخلیق کر دیتے ہیں اور یہ کمپنیاں انتہائی مختصر عرصے میں کامیابی کے ساتھ دنیا بھر میں پھیل جاتی ہیں۔ اب ہم ان یونیورسٹیوں کے دنیا پر اثرات کی طرف آتے ہیں۔ ایم آئی ٹی یونیورسٹی سے اب تک ایک لاکھ تیس ہزار طالبعلم تعلیم مکمل کر کے تیس ہزار دو سو کمپنیاں تخلیق کر چکے ہیں‘ یہ کمپنیاں چھیالیس لاکھ افراد کو روزگار دے چکی ہیں‘ یہ چھیالیس لاکھ افراد سالانہ 1.9کھرب ڈالر کا ریونیو کما رہے ہیں اور یہ رقم دنیا کی دسویں بڑی معیشت روس کے سالانہ جی ڈی پی سے قریب تر ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایم آئی ٹی اگر ایک ملک ہوتا تو یہ دنیا کی گیارہویں بڑی معیشت ہوتا اور اگر ہم سٹینفرڈ اور ایم آئی ٹی یونیورسٹی سے بننے والے کمپنیوں کو ملا کر دیکھیں تو یہ دونوں سالانہ 4.7کھرب ڈالر دنیا کی معیشت میں انجیکٹ کرتی ہیں اور اب تک چوراسی لاکھ نوکریاں پیدا کر چکی ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ اگر ایم آئی ٹی اور سٹینفرڈ ایک ملک ہوتے تو یہ جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا ترقی یافتہ ملک ہوتا جو جرمنی تک کو پیچھے چھوڑ دیتا۔ یونیورسٹیاں معیشت کو اس قدر طاقتور کر سکتی ہیں‘ یہ جواہر لعل نہرو دہائیوں قبل سمجھ گئے اور 1951ء میں بھارت میں ایم آئی ٹی کی طرز پر انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھ دی۔ آئی آئی ٹی دیکھتے ہی دیکھتے چھا گئی ‘ یہ بھارت کے 23شہروں تک پہنچ گئی اور ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق آئی آئی ٹی کے گریجوایٹس سالانہ تیس لاکھ کروڑ روپے بھارتی معیشت میں شامل کر رہے ہیں۔ اس یونیورسٹی میں ایک روپیہ لگانے سے بھارت سرکار کو پچاس روپے حاصل ہوتے ہیں جبکہ یہاں کے ایک آئی ٹی گریجوایٹ کا مطلب ہے ایک ہزار افراد کا روزگار۔ یہاںکے طالبعلم عالمی کمپنیوں میں نمایاں پوزیشنز پرموجود ہیں حتیٰ کہ دنیا کی نمبر ون ویب سائٹ گوگل کا چیف ایگزیکٹو سندر پچائی بھارتی شہری ہے۔ بھارت کی سب سے بڑی آئی ٹی کمپنی ٹاٹا ہے جس کا تنہا سالانہ ریونیو دس ارب ڈالر سے زائد ہے جبکہ پاکستان کی کل سافٹ ویئر برآمدات بمشکل دو ارب ڈالر بنتی ہیں۔
اب ہم اس پاکستانی سرکاری یونیورسٹی کی طرف آتے ہیں جو صرف پانچ برس قبل قائم ہوئی لیکن پاکستان کی ایم آئی ٹی کے طور پر پہچانی جانے لگی اور جس کا ماڈل وزیراعظم ہائوس کی یونیورسٹی میں اپنا کر پاکستان کو بھی سائنس‘ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کی پہچان بنا کر اربوں کا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ یہ ارفع سافٹ ویئر پارک لاہور میں واقع انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی ہے جو پاکستان کی سائنس و ٹیکنالوجی کی پہلی تحقیقی یونیورسٹی ہے اور جس نے پاکستان میں پہلی مرتبہ ایم آئی ٹی‘ سٹینفرڈ اور ہارورڈ کی طرز پر تدریس اور تحقیق کی بنیاد ڈالی۔ اس کے بانی وائس چانسلر اور تخلیق کار ڈاکٹر عمر سیف ہیں جو کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ سے 22برس کی عمر میں کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والے واحد پاکستانی ہیں اور ایم آئی ٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کر چکے ہیں۔ایم آئی ٹی نے 2011ء میں ان کا نام دنیا کے بہترین 35جدید انوویٹرز میں شامل کیا اور ایم آئی ٹی میں تعلیم کے دوران ہی انہوں نے پاکستان میں بہترین ٹیکنالوجی یونیورسٹی بنانے کا خواب بھی دیکھا۔ آئی ٹی یونیورسٹی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ انجینئرنگ اور سائنس کے شعبوں میں بیچلرز‘ ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم دی جاتی ہے‘ یہاں کی فیکلٹی میں تمام پروفیسرز فارن پی ایچ ڈی کوالیفائڈ ہیں‘ طلبا دوران تعلیم مختلف مسائل کے حل کیلئے ٹیکنالوجی پر مبنی منصوبے پیش کرتے ہیں‘آئی ٹی یونیورسٹی کے طلبا کی بڑی تعداد ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری اور تحقیق کے لئے سکالر شپ پر ایم آئی ٹی‘ ہارورڈ سمیت دنیا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم ہے۔ یہ پاکستان کی پہلی سرکاری یونیورسٹی ہے جہاں پہلی مرتبہ سٹارٹ اپ انکوبیٹرز قائم کئے گئے جہاں گریجوایشن مکمل کرنے کے بعد طالب کو عملی طور پر اپنی تخلیق سامنے لانے میں مدد ملتی ہے۔ یہاں کے ریسرچ سنٹر اور لیب میں طلبا کسی مسئلے کے حل کے لئے گروپ کی شکل میں ٹیکنالوجی پر مبنی منصوبہ چھ ماہ کے عرصہ میں مکمل کرتے ہیںاور انہیں آفس سپیس‘ انٹرنیٹ‘ لیپ ٹاپ‘ انجینئرنگ ٹولز اور ماہرین کی خدمات مفت مہیا کی جاتی ہیں۔ سٹارٹ اپ کے بارے میں اتنا بتا دوں کہ یہ پاکستانیوں کے لئے نئی ٹرم ہے لیکن ایم آئی ٹی جیسی یونیورسٹیوں میں معمول کی بات ہے اور دنیا کی جتنی بھی بڑی ایجادات ہو رہی ہیں وہ انہی یونیورسٹیوں کے سٹارٹ اپس میں طالبعلم ہی کر رہے ہیں۔ یہ پاکستان کی پہلی سرکاری یونیورسٹی ہے جہاں سے اب تک 160سٹارٹ اپ کمپنیاں نکل کر دنیا بھر میں چھا چکی ہیں‘جو سات ارب روپے کا ریونیو ملکی معیشت کے لئے پیدا کر چکی ہیں اور بارہ سو افراد کو روزگار دے چکی ہیں۔ یہاں کے طالب علم واسا‘ صحت ‘ الیکٹریکل اور دیگر اداروں اور شعبوں کیلئے کئی کم لاگت کے کئی جدید منصوبے بنا کر دے چکے ہیں جو کامیابی سے چل رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ایم آئی ٹی‘ ہارورڈ اور سٹینفرڈکو قائم ہوئے ڈیڑھ سو برس بیت چکے ہیں جبکہ پانچ برس کی قلیل مدت میں ایک سو ساٹھ کمپنیوں کا تخلیق پانا آئی ٹی یونیورسٹی اور پاکستان کیلئے ایک منفرد اعزاز ہے۔ یہاں میرٹ اور ضرورت کی بنیاد پر سکالر شپ دئیے جاتے ہیں اور اگر طالب علم ایک مقررہ حد تک سمسٹر میں نمبر برقرار رکھتا ہے تو وہ تمام تعلیم مفت حاصل کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اخباروں میں نیوز ڈیسک پر سب ایڈیٹرز انتہائی قلیل تنخواہ پر کام کرتے ہیںلیکن ان پر اپنے بچوں کو پڑھانے اور قابل بنانے کے سنہرے خواب دیکھنے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ ایک واقعے نے مجھے حیران کر دیا۔ میں جس سابق اخبار میں کام کرتا تھا وہاں ایک سب ایڈیٹر نے چند ماہ قبل مجھے اپنے بیٹے کی اسی آئی ٹی یونیورسٹی میں مفت تعلیم‘ منفرد تعلیمی کامیابی‘ پرکشش نوکری اور بعد ازاں امریکہ میں مستقبل کے پلان کا بتایا تو میں چونک کر رہ گیا۔ (جاری)