پے پال کو پاکستان لانے کا ارادہ کر کے حکومت نے شاندار قدم اٹھایا ہے۔ جس دن حکومت پے پال کو پاکستان لے آئی‘ اسی روز ہماری معیشت سے وینٹی لیٹر اُتر جائے گا اور پاکستان کو آئی ایم ایف کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔
پے پال دنیا میں آن لائن رقوم کی ترسیل کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ یہ دنیا کے دو سو ممالک میں موجود ہے۔ 1998ء میں بننے والی اس کمپنی کے اس وقت چوبیس کروڑ صارفین ہیں۔ اس کا سالانہ ریونیو 13 ارب ڈالر ہے جو پاکستان کے زر مبادلہ کے موجودہ ذخائر سے دو گنا زیادہ ہے۔ پے پال دنیا کی پہلی پچاس سب سے زیادہ دیکھی جانی والی ویب سائٹ میں سے ہے۔ اس کے ملازمین کی تعداد اٹھارہ ہزار سے زائد ہے۔ دنیا بھر میں سینکڑوں کمپنیاں آن لائن رقوم کی ترسیل کی سروس فراہم کر رہی ہیں‘ لیکن پے پال سب سے زیادہ مقبول ہے اور اس کی وجہ اس کا آسان اور موثر طریقۂ ترسیل ہے۔ اس وقت کروڑوں ویب سائٹس اور آن لائن شاپنگ سٹورز پے پال استعمال کر رہے ہیں۔ پے پال صرف معیاری ویب سائٹس کو ہی سروس فراہم کرتا ہے اور اس بات کی گارنٹی دیتا ہے کہ اگر صارف کو اس کی منگوائی جانے والی چیز وقت پر نہ ملے یا پھر گھٹیا معیار کی ملے تو پے پال نہ صرف پوری رقم واپس کرانے کی ذمہ داری لیتا ہے بلکہ وہ چیز واپس سٹور کو بھجوانے کے لئے شپنگ کا کرایہ بھی خود ادا کرتا ہے۔ اگر آپ پے پال کے ذریعے خریداری کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو صرف اپنا ای میل دینا ہو گا‘ جس میں موجود معلومات کے مطابق آپ کے پتے پر چیز بھی آپ کو مل جائے گی اور آپ کے ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ سے رقم بھی خود بخود منہا ہو جائے گی۔ اور اگر آپ کو کوئی چیز پسند نہیں آتی تو آپ مقررہ وقت میں واپس کرکے ریفنڈ بھی لے سکتے ہیں۔ پے پال بر اعظم افریقہ‘ ایشیا‘ امریکہ اور یورپ کے تقریباً ہر ملک میں موجود ہے۔ تنہا امریکہ کے ایک کروڑ نوے لاکھ آن لائن سٹورز پے پال کی سروس استعمال کر رہے ہیں۔ پے پال فی ٹرانزیکشن ان سٹورز سے معمولی رقم بطور فیس وصول کرتا ہے۔ پوری دنیا میں اس وقت آن لائن خریداری کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔ اس میں وقت بھی بچتا ہے اور پیسہ بھی۔ آپ حیران ہوں گے کہ 2016ء میں پوری دنیا میں ایک ارب چھیاسٹھ کروڑ افراد نے آن لائن خریداری کی۔ اگر ہم بچوں کو نکال دیں تو یہ تعداد دنیا کی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی بنتی ہے۔ ٹرینڈ یہی رہا تو 2021ء تک یہ تعداد دو ارب چودہ کروڑ تک ہونے کا امکان ہے۔ صرف خریداری ہی نہیں پے پال دیگر خدمات بھی فراہم کرتا ہے۔ مثلاً اگر آپ کسی ادارے کو ڈونیشن دینا چاہیں تو پے پال یہ سروس بھی دیتا ہے۔ آپ اندازہ کریں اس وقت اگر پے پال پاکستان میں ہوتا تو دیامیر بھاشا ڈیم کے لئے فنڈ کس قدر تیزی سے اکٹھے ہوتے۔ رقوم کی ترسیل کے طریقے جس قدر آسان اور وسیع ہوں گے‘ اتنے ہی زیادہ ڈونیشن اکٹھے ہوں گے۔ صرف امریکہ میں آٹھ سے نو لاکھ پاکستانی موجود ہیں۔ ان سب کے پے پال اکائونٹ موجود ہیں۔ یہ اگر ایک ہزار ڈالر فی کس ڈیم فنڈ میں بھیجیں تو صرف امریکہ سے چند دن میں ایک ارب ڈالر آ سکتے ہیں۔ دوسرے طریقے روایتی اور مشکل ہیں۔ وہاں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ بینک جائے اور جا کر پیسے بھیجے۔ لوگوں کے پاس زیادہ تر ایسے موبائل ہیں جن میں انگلیوں کی سکیننگ کا آپشن موجود ہے۔ لوگ متعلقہ اکائونٹ سیلیکٹ کرتے ہیں‘ رقم لکھتے ہیں ‘انگوٹھا رکھتے ہیں اور رقم ادا ہو جاتی ہے۔ صرف امریکہ ہی نہیں دنیا بھر کے ساٹھ ستر لاکھ اوورسیز پاکستانی اس سروس سے استفادہ کر سکتے ہیں؛ چنانچہ پے پال کے پاکستان میں داخلے سے وزیر اعظم اور چیف جسٹس ڈیم فنڈ بھی جلد پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے۔
پے پال کا دوسرا بڑا فائدہ پاکستان کی فری لانسنگ اور شاپنگ انڈسٹری کو ہو گا۔ میں روز دیکھتا ہوں‘ ہمارے جادوگر اینکر اور دانشور پاکستان کی ایسی رینکنگ گنواتے ہیں جس میں پاکستان بہت پیچھے ہوتا ہے۔ انہیں یا تو فری لانسنگ کا علم ہی نہیں یا وہ دانستہ منفی خبریں بیچ کر اپنا دھندا چلانا چاہتے ہیں۔ پاکستان چاہے دیگر معاملات میں پیچھے ہو لیکن اس وقت دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں فری لانسنگ میں چوتھے نمبر پر ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک سو چھیانوے ممالک پاکستان سے پیچھے ہیں۔ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ فری لانسر کام کر رہے ہیں۔ یہ فری لانسر اوسطاً دس ڈالر یومیہ سے لے کر ایک ہزار ڈالر یومیہ تک کما رہے ہیں۔ یہ مختلف کام مثلاً گرافکس ڈیزائننگ‘ ڈیجیٹل مارکیٹنگ‘ ٹرانسلیشنز‘ میڈیکل ٹرانسکرپشن اور دیگر کام کرتے ہیں اور بدلے میں ڈالر میں معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ فی الوقت معاوضہ وصول کرنے کے لئے وہ پے یونیر جیسے بالواسطہ ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ بعض ایسی کمپنیاں ہیں جو امریکہ سے پاکستان پیسے بھیج دیتی ہیں تاہم اس میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے‘ ان کے ساتھ رجسٹریشن بھی مشکل ہے اور پیسوں کی کٹوتی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں پے پال جیسا مستند اور موثر ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے ہمسایہ ملک بھارت بزنس کا بڑا حصہ لے اُڑتا ہے۔ پاکستان میں ہزاروں ایسے فری لانسر موجود ہیں جو بھارتیوں سے کہیں زیادہ بہتر اور معیاری کام کر سکتے ہیں لیکن رقوم کی وصول کا مرحلہ آتا ہے تو وہ ہمت ہار دیتے ہیں۔ اس وقت چین کی نمبر ون شاپنگ ویب سائٹ علی بابا بھی پاکستان آنے کے لئے پر تول رہی ہے۔ اسی طرح ایمزون جو بھارت تک پہنچ چکی ہے اسے بھی پاکستان لایا جا سکتا ہے لیکن جو سب سے بڑی رکاوٹ درپیش ہے وہ پے پال جیسی کمپنیوں کی یہاں عدم موجودگی ہے۔ تیسر بڑا فائدہ آن لائن شاپنگ سٹورز کو ہو گا۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ اس سال جنوری سے مارچ تک پاکستان میں موجود شہریوں نے ساڑھے چار ارب روپے کی آن لائن خریداری کی۔ صارفین نے یہ خریداری ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز اور موبائل کمپنیوں کی سروسز کے ذریعے کی جبکہ بھارت میں پے پال گزشتہ کئی برسوں سے موجود ہے۔ بھارت میں ایمزون بھی قدم رکھ چکا ہے جو دنیا کی سب سے بڑی شاپنگ ویب سائٹ ہے۔ یہ بھی پے پال کی سروس دیتی ہے چنانچہ امریکہ میں بیٹھے ہزاروں بھارتی شہری ایمزون سے خریداری کرتے ہیں‘ رقم کی ترسیل کے لئے پے پال استعمال کرتے ہیں اور یوں بھارتی معیشت کو روزانہ لاکھوں ڈالر زر مبادلہ فراہم کرتے ہیں۔
پے پال کو پاکستان لانے میں اگر کوئی اہم کردار ادا کر سکتا ہے تو وہ ڈاکٹر عمر سیف ہیں۔ ان کا نام ایم آئی ٹی نے دنیا کے 35 عظیم موجدوں میں شامل کر رکھا ہے‘ یہ واحد پاکستانی ہیں جو پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو سرکاری سطح پر ری شیپ کر رہے ہیں‘ یہ فری لانسنگ کا سب سے بڑا پروگرام ای روزگار بھی چلا رہے ہیں۔‘ یہ سب سے بڑی آئی ٹی یونیورسٹی کے سب سے کم عمر وائس چانسلر بھی ہیں‘ یہ آئی ٹی کی صنعت اور نبض سے خوب واقف بھی ہیں‘ یہ دنیا کے ان پانچ نوجوانوں میں سے ہیں جنہیں بل گیٹس نے اس سال امریکہ بلا کر آٹھ گھنٹے ملاقات کی اور یہ چند روز بعد امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں جس میں یہ ورلڈ بینک سے خطاب بھی کرنے والے ہیں۔ یہ اس وقت ایف بی آر کے ساتھ مل کر ٹیکس نظام میں جدید انقلابی اصلاحات بھی کر رہے ہیں اور یہ پرائم منسٹر ڈلیوری یونٹ کی تشکیل میں بھی مصروف ہیں؛ چنانچہ اگر وفاقی وزیر اسد عمر پے پال کو پاکستان میں لانے کی ذمہ داری ڈاکٹر عمر سیف کو دے دیتے ہیں تو یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وہ یہ کام کر دکھائیں گے اور اگر ایسا ہو گیا‘ پے پال پاکستان آ گیا تو پھر تبدیلی کا ایک ایسا سفر شروع ہو جائے گا جو وزیر اعظم عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت کا دیرینہ خواب بھی ہے اور بائیس کروڑ پاکستانیوں کی خواہش بھی۔