پنجاب میں کوڑے کرکٹ سے بجلی پیدا کرنے کے حوالے سے سینئر وزیر پنجاب عبدالعلیم خان نے بڑے منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے‘ جن کیلئے چین سمیت غیر ملکی کمپنیوں کو مدعو کیا جائے گا تاکہ ویسٹ کی ڈمپنگ کے نقصانات سے بچنے کے علاوہ اْسے پیداواری استعمال میں لایا جا سکے۔ یہ اس لئے قابل تحسین اقدام ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ری سائیکلنگ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور کوئی چیز ضائع نہیں جانے دی جاتی‘ حتیٰ کہ لندن جیسے شہر میں تو استعمال شدہ پانی کو فلٹر کرنے کے پلانٹ بھی موجود ہیں جو اس پانی کو فلٹریشن کے عمل سے گزار کر دوبارہ قابل استعمال بنا دیتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ برطانیہ جیسے ممالک کو آبادی کے بے تحاشا اضافے جیسا کوئی خطرہ نہیں‘ لیکن اس کے باوجود وہاں پر قدرتی خزانوں کو محفوظ اور دیرپا رکھنے کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں‘ جبکہ ہمارے ہاں آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے‘ اس کے پیشِ نظر تو وسائل کے محفوظ استعمال اور ری سائیکلنگ جیسے شعبوں کو قومی اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔ گزشتہ دور میں بھی کوڑے کرکٹ سے بجلی بنانے کے حوالے سے خبریں سامنے آتی رہیں‘ لیکن مجال ہے کہ سابق حکومت نے اس پر کوئی عمل کام کر کے دکھایا ہو۔ صاف پانی منصوبہ اس کی ایک مثال ہے جس میں نجی کمپنیاں بنا کر افسران کروڑوں روپے کی تنخواہیں اور مراعات وصول کرتے رہے لیکن لاہوریوں کو صاف پانی کا ایک قطرہ بھی میسر نہ آیا۔ آج تک کسی کو یہ تک معلوم نہیں ہو سکا کہ صاف پانی کے فلٹریشن پلانٹ کس جگہ پر لگے اور وہاں پر کیا کام ہوا۔ اسی طرح سابق حکومت کا کوڑے کرکٹ سے بجلی بنانے کا منصوبہ بھی کاغذوں کی حد تک محدود رہا اور مجھے یقین ہے کہ جلد ہی یہ ایک اور بڑا سکینڈل بن کر سامنے آئے گا کیونکہ آج تک ایک واٹ بجلی بھی کوڑے سے پیدا نہیں کی گئی۔ موجودہ صوبائی حکومت جس سپرٹ کے ساتھ کام کر رہی ہے‘ ناقدین کو بھی یقین ہے کہ یہ منصوبے کرپشن کی نذر نہیں ہوں گے کیونکہ تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی جدوجہد کی بنیاد ہی کرپشن کے خلاف جنگ ہے۔ یہ منصوبے اس لئے بھی کامیاب ہونے کا امکان ہے کہ عمران خان سمیت ان کی پارٹی کے کئی رہنما فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے میں شوکت خانم ہسپتال کے ان مریضوں کی دعائیں بھی شامل ہیں جو اس ہسپتال کی عدم موجودگی میں عرصے سے کینسر کا شکار ہو چکے ہوتے۔ مجھے ان مخالفین پر حیرانی ہوتی ہے جو اپنی سیاست کے لئے اس ہسپتال کو بھی نشانہ بناتے‘ اور یہ بھی سوچنے کی زحمت گوارا نہ کرتے تھے کہ ان کی تنقید سے اگر ہسپتال کے فنڈز میں کمی ہو گی تو اس کا نقصان ان کینسر کے غریب مریضوں کو ہو گا جو ان کی طرح اپنا علاج بیرون ملک سے کرانے کی سکت رکھنا تو دور کی بات‘ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اسی طرح تحریک انصاف کے ہی رہنما عبدالعلیم خان بھی ذہنی اور جسمانی معذور بچوں کے لئے ایک ادارہ چلا رہے ہیں جن کے والدین کے لئے ایسے بچے کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ چند برس قبل ڈی ایچ اے میں خصوصی بچوں کے سکول رائزنگ سن میں سینکڑوں ذہنی و جسمانی معذور بچوں کے اس قدر جدید کیمپس کو دیکھا‘ جہاں ڈس ایبل بچے با عزت انداز میں جینے کے قابل ہو رہے ہیں۔ اس ادارے کی تعمیر و ترقی میں دو لوگوں نے جنون کی حد تک حصہ لیا: لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما عبدالعلیم خان۔ گزشتہ برس عمران خان نے مغل پورہ میں اس ادارے کی دوسری برانچ کا افتتاح کیا تو میں بھی اس موقع پر موجود تھا۔ اس میں سوئمنگ پول سے لے کر فزیو تھراپی اور نصابی تعلیم سے ہنر سکھانے تک تمام سہولیات عالمی معیار کے مطابق ڈیزائن کی گئی ہیں۔ یہ مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اپنی زندگی کو صرف اپنی دولت کو پھیلانے تک محدود کر لیتے ہیں وہ عارضی طور پر تو خوشحالی حاصل کر لیتے ہیں لیکن ان کا ضمیر کبھی مطمئن نہیں ہوتا‘ نہ ہی وہ دولت ان کے کسی کام آتی ہے۔ آپ مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس سے لے کر فیس بک کے مارک زکربرگ تک سب کو دیکھ لیں‘ ان کی مجموعی دولت دنیا کے ایک سو بیس ممالک کی مجموعی دولت سے زیادہ ہے لیکن ان دونوں نے اپنی دولت کا نوے فیصد سے زائد حصہ دنیا بھر میں فلاحی کاموں کے لئے وقف کیا ہوا ہے۔ اگر چاہتے تو وہ بھی اپنی دولت پر سانپ بن کر بیٹھ جاتے جس طرح ہمارے بعض سیاسی رہنمائوں نے کیا اور بالآخر نیب‘ عدالتوں اور جیلوں کی خوراک بن کر رہ گئے۔
کچرے سے بجلی پیدا کرنے کے کئی فوائد ہوں گے‘ مثلاً یہ کہ ویسٹ مینجمنٹ کا سارا نظام ایک منظم شکل اختیار کر لے گا کیونکہ جب کوڑا کرکٹ فیول کی شکل اختیار کرے گا تو اس کی کولیکشن اور ڈلیوری بھی جدید اور سائنٹفک انداز میں کی جا سکے گی۔ دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ شہروں اور دیہات میں صفائی کی صورت حال بہتر ہو جائے گی۔ اہم چوکوں اور چوراہوں میں مخصوص جگہوں پر علاقے کا کچرا اکٹھا ہو گا‘ جہاں سے ویسٹ مینجمنٹ کی گاڑیاں اسے مرکزی جگہ منتقل کریں گی‘ اور یہ ری سائیکلنگ کے عمل سے گزر کر بجلی کی شکل اختیار کر لے گا۔ تحریک انصاف کی صفائی مہم کا بھی اس میں بہت فائدہ ہو گا کیونکہ عمومی طور پر لوگ کچرا ادھر اُدھر سڑکوں پر پھینک دیتے ہیں‘ جسے اٹھانا اور ڈبوں میں جمع کرکے ڈمپنگ پوائنٹس تک لے جانا ایک طویل عمل بن جاتا ہے۔ اگر لوگ سڑک کنارے ڈبوں میں ہی کچرا ڈالیں گے تب اسے جمع کرنا بھی آسان ہو گا۔ جدید ممالک میں تو خوراک‘ پلاسٹک اور شیشہ پھینکنے کے لئے بھی الگ رنگوں کے ڈبے مخصوص ہوتے ہیں اور لوگ متعلقہ ڈبے میں وہی چیز پھینکتے ہیں جس کے لئے یہ مخصوص ہو۔ اگر کوڑے کرکٹ سے بجلی بنانا مقصود ہے تو آصف فاروقی ان کے لئے اہم معاون ثابت ہو سکتے جن کی کمپنی لاہور سمیت آٹھ شہروں میں اپنا نیٹ ورک قائم کر چکی ہے۔ اس کمپنی کے پاس دو سو چھوٹے بڑے ٹرک ہیں اور تین ہزار لوگ اس کمپنی کے باقاعدہ ملازم ہیں۔ یہ سب کے سب ماحول کو بہتر بنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ کمپنی اس وقت کوڑے کرکٹ سے گیس‘ ایل پی جی پراڈکٹس‘ کھاد‘ کوئلہ وغیرہ پیدا کر رہی ہے‘ لیکن یہ اب اس سے بھی آگے قدم رکھنے والی ہے اور یہ جو کرنا چاہتی ہے وہ بھی پاکستان میں پہلا کام ہو گا۔ یہ کچرے سے بجلی بنانا چاہتی ہے اور یہی صوبائی حکومت کا خواب بھی ہے۔ اگر یہ دونوں مل کر چلیں تو یہ مقصد بہ آسانی پورا ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں چینی کمپنیاں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں اور تکنیکی خدمات کے ذریعے پنجاب میں اس منصوبے کو جلد کھڑا کر سکتی ہیں۔ اگر لاہور میں چھ میں سے تین ہزار ٹن کوڑا کھاد وغیرہ کیلئے استعمال کر لیا جائے اور باقی تین ہزار ٹن سے بجلی بنا لی جائے تو صرف لاہور شہر میں روزانہ چھ ہزار کلو واٹ بجلی کوڑے سے پیدا ہو سکتی ہے جو نیشنل گرڈ سے منسلک کی جا سکتی ہے اور جو نہ صرف روایتی بجلی سے دس گنا سستی ہو گی بلکہ اس سے لاہور کے تمام ہسپتال‘ تعلیمی ادارے‘ سٹریٹس لائٹس‘ بینک اور چھوٹی فیکٹریاں آسانی سے چل سکتی ہیں اور یہ کام ناممکن نہیں کیونکہ یہ دنیا بھر میں ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں اب تک یہ اس لئے نہیں ہو سکا کہ یہاں ماضی میں حکومتیں صرف کک بیکس‘ کمیشنوں اور جعلی کمپنیوں پر چلتی تھیں جبکہ موجودہ دور میں کرپشن اور دو نمبریوں کی گنجائش دکھائی نہیں دیتی اور عمران خان کے ویژن کے مطابق سینئر وزیر عبدالعلیم خان نے یہ منصوبہ واقعتاً سچ کر دکھایا‘ اور اگر واقعی کچرے سے بجلی پیدا ہونے لگ گئی تو یہ ایک منفرد کارنامے کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور صفائی اور ستھرائی کے حوالے سے بھی یہ ملک ایک مثال بن کر ابھرے گا۔