گورنر پنجاب کی اس بات میں بڑا وزن تھا کہ خیبر پختونخوا کے عوام ووٹ دینے اور حکمران منتخب کرنے کے معاملے میں بہت حساس ہیں اور اگر کسی صوبائی حکومت سے مطمئن نہ ہوں تو پھر اسے اگلے دور کے لئے منتخب نہیں کرتے لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا‘ یہ رواج ٹوٹا اور خیبر پی کے نے تحریک انصاف کو دوبارہ منتخب کر لیا اور وہ بھی بھاری مینڈیٹ سے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف نے سابق دور میں کوئی نہ کوئی کام ایسا ضرور کیا تھا جس نے عوام کو اپنا فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں دینے پر مجبور کیا۔ یہ رُوداد گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کے ساتھ گزشتہ دنوں سینئر صحافیوں اور ممتاز سماجی رہنمائوں کی نشست سے متعلق ہے جس میں گورنر صاحب نے پارٹی پوزیشن اور اپنی وضع کردہ سرور فائونڈیشن کے فلاحی کاموں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ چودھری محمد سرور کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں کہ جب انہوں نے سکاٹ لینڈ سے بطور مسلمان ممبر پارلیمنٹ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو انہیں کن مسائل‘ دبائو اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ خود بتاتے ہیں: اس وقت یوں لگتا تھا جیسے سایہ بھی ساتھ چھوڑ گیا ہو۔ وہی برٹش اور سکاٹش کمیونٹی جو ان کی ہاں میں ہاں ملانے پر فخر محسوس کرتی تھی‘ اس کمیونٹی کے نمایاں لوگ تب آہستہ آہستہ ان سے کنارہ کشی اختیار کر رہے تھے۔ بنیادی طور پر انہیں یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ برطانوی پارلیمنٹ میں کسی مسلمان کی کوئی گنجائش موجود نہیں اور انہیں اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنا ہو گی؛ تاہم تاریخ نے بالآخر وہ دن بھی دکھایا جب چودھری سرور تمام تر مخالفتوں کے باوجود سکاٹش کمیونٹی کے ووٹوں سے ہی پہلے مسلمان ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے‘ وہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئے اور پھر ایسا سلسلہ چل نکلا کہ ان سے لے کر آج میئر لندن صادق خان تک‘ درجنوں پاکستانی برطانوی حکومتی مشینری اور قانون سازی کا باقاعدہ حصہ بن چکے ہیں۔
اب ہم کے پی کے میں تحریک انصاف کی جیت کی طرف آتے ہیں۔ گورنر سرور کے نزدیک اس کی دو بڑی وجوہات تھیں: ایک‘ اختیارات کی مقامی اور نچلی سطح پر منتقلی اور دوسرا پولیس کو سیاسی دبائو اور مداخلت سے آزاد کرنا۔ ایوب خان کے دور میں جس طرح انتخابات کرائے گئے تب سے آج تک دیہات میں بھی دھڑے بندیاں بدستور چلی آ رہی تھیں لیکن کے پی کے میں نافذ نئے بلدیاتی نظام کے باعث سبھی کو اپنے جوہر دکھانے اور منتخب ہونے کا یکساں موقع ملا اور نئی اور صحتمند سیاست نے جنم لیا۔ اس نظام کے تحت جو اپوزیشن کو ووٹ دیتا ہے وہ بھی آ جاتا ہے جو حکومت کو دیتا ہے وہ بھی اس کا حصہ بن سکتا ہے۔ اسی طرح دیہی کونسلز کو مقامی مسائل کے حل کے لئے تیس فیصد تک ترقیاتی بجٹ دیا گیا۔ اس کا بہت زیادہ فائدہ ہوا کیونکہ اگر ایک دیہی کونسل کو تیس لاکھ بھی سالانہ مل جائے تو پانچ برسوں میں اسے ڈیڑھ کروڑ مل جاتے ہیں جو دیہات کے چھوٹے چھوٹے مسائل جیسے سٹریٹ لائٹس کی درستی‘ نالیاں اور سولنگ وغیرہ کی تعمیر و مرمت وغیرہ کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ گورنر سرور کا کہنا تھا کہ دیہی کونسل کا الیکشن جماعتی بنیادوں پر نہیں ہونا چاہیے اور کے پی کے کی طرح پنجاب میں بھی یہی نظام اور طریقہ کار نافذ کیا جائے گا‘ کیونکہ اس میں اختیارات اور وسائل نچلی ترین سطح پر منتقل ہو جاتے ہیں‘ اور نئی قیادت سامنے آتی ہے۔ ان کے مطابق تحصیل اور ضلعی کونسل کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر جبکہ دیہی کونسل کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے چاہئیں۔
چودھری سرور سابق دور میں بھی ڈیڑھ دو سال تک گورنر پنجاب کے عہدے پر فائز رہے اور اس وقت بھی انہوں نے اپنا زیادہ فوکس فلاحی کاموں کی جانب رکھا۔ وہ پینے کے صاف پانی کی دستیابی کے لئے سرور فائونڈیشن کے تحت بہت سا کام کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔ صاف پانی میسر ہو گا تو بیماریوں سے بچائو بھی ممکن ہو گا۔ یہ بتا کر انہوں نے حیران کر دیا کہ پنجاب کے بعض علاقے مثلاً ننکانہ صاحب اور حافظ آباد جیسے شہر ایسے ہیں جہاں ہر دس میں سے آٹھ افراد ہیپاٹائٹس کے مریض ہیں جو انتہائی خوف ناک صورت حال ہے کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں اگر مریض ہوں گے تو پھر زندگی کی گاڑی کون چلائے گا؟ ایسے ملک میں معیشت کیا ترقی کرے گی جہاں اسی فیصد لوگ چارپائیوں پر پڑے ہوں گے۔ مسئلے کی سنگینی کی ایک وجہ تو صاف پانی کی عدم دستیابی ہے اور دوسرا صفائی سے آگاہی کی کمی۔ ہسپتالوں میں آنے والے ستر فیصد مریض ایسے ہیں جو خراب پانی کی وجہ سے بیمار ہو کر آتے ہیں۔ بیشتر لوگ ریڑھیوں اور ٹھیلوں سے کھاتے پیتے ہیں جہاں گندا پانی انہیں جوس کی شکل میں پلایا جاتا ہے۔ اسی طرح پسماندہ علاقوں میں حجام ایک ہی بلیڈ سے شیو کرتے جاتے ہیں اور یہ مرض اپنے ہاتھوں سے آگے پھیلا رہے ہیں۔ ہر مسلمان یہ جانتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے اور ہر مسلمان کو پاک صاف رہنا چاہیے۔ پانچ وقت نماز کے لئے وضو کرنے سے بھی انسان پاک رہتا ہے لیکن مزا تو تب ہے کہ انسان اس کا مظاہرہ عملی زندگی میں بھی کرے۔ احتیاط علاج سے لاکھ بلکہ ارب ہا درجہ بہتر ہے۔ ایک مرتبہ بیماری لگ جائے تو پھر اس کا علاج کرانا غریب تو کجا اب امیر کے لئے بھی آسان نہیں رہا۔ گورنر صاحب کے نزدیک ایسے پسماندہ اضلاع میں صاف پانی کی فراہمی اور ہیپاٹائٹس سے بچائو کی آگاہی مہم ان کی اولین ترجیح ہے۔ ان کی فائونڈیشن مریضوں کی مفت ہیپاٹائٹس سکریننگ کا اہتمام کرتی ہے اور مریضوں کا مفت علاج کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جیلوں میں ایسے سینکڑوں‘ ہزاروں لوگ موجود ہیں جن کی سزائیں تقریباً مکمل ہو چکی ہیں‘ اور ان پر ایک لاکھ روپے یا اس سے کم جرمانہ موجود ہے جسے ادا کر کے وہ رہا ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ اتنے غریب لوگ ہیں کہ چند ہزار نہ دے سکنے پر مہینوں یا برسوں کی اضافی قید بھگتنے پر مجبور ہیں‘ اور ان کی فائونڈیشن ایسے قیدیوں کی رہائی کا بھی اہتمام کرتی رہتی ہے۔ صحافیوں سے ملاقات کے بعد انہوں نے اسی مقصد کے لئے کوٹ لکھپت جیل جانا تھا اور وہ گئے بھی‘ جہاں انہوں نے بتیس قیدیوں کے جرمانے کی رقم ادا کر کے انہیں رہائی دلائی۔
تحریک انصاف کے بیشتر رہنمائوں میں یہ قدر مشترک ہے کہ وہ فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان سے لے کر سینئر وزیر عبدالعلیم خان تک اور گورنر چودھری سرور سے لے کر وزیر صحت یاسمین راشد صاحبہ اور ابرارالحق تک‘ سبھی کسی نہ کسی طور پر سماجی و فلاحی ادارے چلا رہے ہیں۔ یاسمین راشد صاحبہ تھیلیسیمیا سوسائٹی آف پاکستان کے تحت دو عشروں سے تھیلیسیما میں مبتلا بچوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کر رہی ہیں۔ عبدالعلیم خان ذہنی معذور بچوں کے لئے لاہور میں دو رفاہی ادارے چلا رہے ہیں‘ گورنر سرور صاف پانی‘ ہیپاٹائٹس سے بچائو اور جیلوں سے غریب قیدیوں کی رہائی اور ابرارالحق اپنے آبائی علاقے میں ہسپتال بنا کر سماج کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس طرح کے اور بھی دردِ دل رکھنے والے موجود ہیں اور یہ سب یقینا وزیر اعظم عمران خان سے متاثر ہو کر ایسا کر رہے ہیں‘ کیونکہ انہوں نے ہی سب سے پہلے کینسر کے غریب مریضوں کے لئے شوکت خانم ہسپتال بنا کر تمام سیاستدانوں اور اہل ثروت حضرات کے لئے ایک مثال قائم کی تھی اور اگر یہی عمران خان کرپشن کو برا نہ سمجھتے‘ یہ بھی لندن اور دبئی میں فلیٹس خریدتے اور اپنی دولت غیر قانونی طور سے بیرون ملک منتقل کرتے تو ان کے نیچے بھی لوگ اس کام کو برا نہ سمجھتے اور اسی دھندے پر لگے ہوتے۔ عوا م کی یہ خوش نصیبی ہے کہ انہیں کرپشن سے نفرت اور جنگ کرنے والا لیڈر ملا جو مہاتیر کی طرح ملک کو تیر کی مانند سیدھا کرنا چاہتا ہے‘ وگرنہ کوئی اور لیڈر ہوتا تو آج بھی عوام کا پیسہ لانچوں‘ ماڈلوں اور فالودے والوں کے بینک اکائونٹس کے ذریعے غیر قانونی طور پر باہر منتقل ہو رہا ہوتا اور ہم بیٹھے وقت کے حکمرانوں کو کوس رہے ہوتے۔ گورنر چودھری سرور کا مشن بھی عوام کی فلاح اور بہبود ہی دکھائی دیتا ہے جس کے لئے انسان کو کسی عہدے یا اقتدار کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بیماری‘ تنگدستی اور غربت کا درد محسوس کرنے والے سبھی لوگ اپنی اپنی دنیائوں میں اپنا سرمایہ‘ وسائل یا اپنا وقت دے کر یہ مشن‘ یہ کارِ خیر انجام دے سکتے ہیں۔