ملک پر جب بھی کڑا وقت آتا ہے تو ہر حکومت اوورسیز پاکستانیوں کی طرف دیکھنا شروع کر دیتی اور یہ بھی درست ہے کہ اوورسیز پاکستانی ہمیشہ ہر امتحان میں پورا اترتے ہیں۔ دنیا بھر میں اسی لاکھ سے زائد پاکستانی مقیم ہیں جن سے ہر حکومت نے قربانی مانگی اور انہوں نے ہر مشکل وقت میں ملک کو سپورٹ بھی کیا۔ یہ اور بات ہے کہ ماضی میں کسی حکومت نے انہیں ووٹ ڈالنے کا حق دینے تک کا بھی نہیں سوچا۔ حتیٰ کہ ایئر پورٹ اترنے سے لے کر ملک میں سرمایہ کاری لانے تک ان کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا جاتا رہا۔ اب البتہ صورت حال بدلتی دکھائی دے رہی ہے اور تبدیلی کا آغاز اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے کر کیا جا چکا ہے۔ اداروں کو نہ صرف کرپشن سے پاک کرنے بلکہ فعال اور نفع بخش بنانے کے لئے بھی کوششیں جاری ہیں۔ اوورسیز پاکستانی ملک کے لئے زرمبادلہ بھیجتے ہیں جس سے فارن ایکسچینج ریزرو بڑھتے ہیں۔ ایک عرصے سے اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ ان کے مسائل سنے جائیں اور انہیں ووٹ کا حق دیا جائے۔ وہ بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے کہ وطن کی سرزمین پر موجود دیگر ۔ یہ اپنی سرزمین سے دور انتہائی کٹھن زندگی کاٹتے ہیں اور اپنی جمع پونجی واپس بھیج دیتے ہیں۔موجودہ حکومت نے سرکاری و نجی املاک کوقابضین سے چھڑانے کے لئے جو ملک گیر آپریشن شروع کیا ہوا ہے اس سے بھی اوورسیز پاکستانیوں کو بہت زیادہ ریلیف ملا ہے۔ کئی کئی عشروں سے ان کی زمین پر لوگ قابض تھے اور اب یہ زمینیں انہیں واپس مل رہی ہیں۔ حکومت کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ اس نے پہلی مرتبہ انٹرنیٹ ووٹنگ کے مسئلے کو ڈٹ کر اٹھایا اور سمندرپار بسنے والے پاکستانیوں کو اپنے ملک کا مستقبل روشن کرنے کا حق دلا کر چھوڑا۔پیپلزپارٹی اور ن لیگ جیسی جماعتوں پر کف افسوس ہی ملا جا سکتا ہے جنہوں نے اس عمل پر بھی سیاست کی اور سپریم کورٹ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اس عمل سے دھاندلی کا خدشہ ہے اس لئے یہ ووٹنگ نہ کرائی جائے۔ شاید انہیں خدشہ تھا کہ اوورسیز پاکستانی چونکہ زیادہ تر پڑھے لکھے ہیں اور انہیں بریانی کی پلیٹ سے خریدا نہیں جا سکتا اس لئے یہ ووٹ لامحالہ تحریک انصاف کو ہی جائیں گے۔ تاہم ان کی کوششیں رائیگاں گئیں اور الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم پر اپریل میں انٹرنیٹ ووٹنگ ٹاسک فورس تشکیل دی جس کا کام نادرا کے آئی ووٹنگ سافٹ ویئر کا تکنیکی جائزہ لینا تھا۔ٹاسک فورس میں ملکی و غیر ملکی ماہرین شامل تھے۔ اس ٹاسک فورس نے سپریم کورٹ کو ایک رپورٹ بنا کر دی جس کی بنا پر سترہ اگست کو سپریم کورٹ نے ایک حکم کے ذریعے ضمنی انتخابات میں اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی اجازت دے دی۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر نادرا کو مبارکباد دی جس نے پائلٹ پراجیکٹ بنانے اور اسے محفوظ بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے کام کیا۔ اکتوبر میں پینتیس حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے جن میں سات ہزار سے زائد سمندر پار پاکستانیوں کو پاس کوڈ جاری کئے گئے جن میں سے تقریباً چھ ہزار نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آن لائن ووٹ کاسٹ کیا جس سے انہیں یہ احساس اور پیغام ملا کہ یہ ملک ان سے صرف قربانیاں ہی نہیں مانگے گا بلکہ بدلے میں ان کے حقوق بھی فراہم کرے گا۔ انٹرنیٹ ووٹنگ کو قابل عمل بنانا آسان کام نہیں تھا تاہم نادرا نے یہ کام کر دکھایا۔ اس کے علاوہ نادرا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے حوالے سے جدید سروسز بھی مہیا کر رہا ہے بلکہ وزیراعظم کے پہلے سو دنوں کے حوالے سے اس نے غیرمعمولی کارکردگی دکھائی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کا ایک بڑا مشن پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر ہے۔ا س مقصد کے لئے نادرا کی خدمات حاصل کی گئیں اور اسے یہ ٹاسک ملا کہ وہ ایک ایسا فارم جاری کرے جس کے ذریعے گھروں کے خواہشمند افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا سکے تاکہ اس کے ذریعے یہ اندازہ لگایا جائے کہ ملک کے کس علاقے میں کتنے افراد کس سائز کا گھر چاہتے ہیں‘ وہ کتنی ماہانہ قسط افورڈ کر سکتے ہیں اور ان کے کنبے میں کتنے افراد موجود ہیں۔ یہ انتہائی بڑا ڈیٹا بیس تھا جسے جمع کرنا اور اس میں سے نتائج اخذ کرنا اہم مرحلہ تھا تاہم نادرا نے یہ مرحلہ بھی بخوبی سرانجام دیا اور نیا پاکستان ہائوسنگ سکیم کے لئے ساڑھے تین لاکھ فارم وصول کئے اور انہیں ڈیٹا بیس کا حصہ بنایا۔
حیرت انگیز طور پر موجودہ دور حکومت کے پہلے سو روز میں شناختی کارڈ بنوانے والے افراد کی تعداد میں بھی غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا اور یکم ستمبر سے اب تک چالیس لاکھ افراد کو نیشنل ڈیٹا بیس سے منسلک کیا گیا‘ جس سے چوبیس لاکھ عام شناختی کارڈ‘ پندرہ ہزار اوورسیز شناختی کارڈز وغیرہ بنائے گئے۔ اس اضافے کی ایک وجہ حکومت کی کرپشن کے خلاف مہم نظر آتی ہے اور ہر شخص اور ادارہ خود کو ایک سسٹم کے اندر لانے کے لئے کوشش کر رہا ہے۔ قومی شناختی کارڈ چونکہ ہر شخص کی بنیادی شناختی علامت ہے اس لئے یہ کسی بھی ادارے ‘ تقریب یا کسی سکیورٹی ادارے کی جانب سے کسی بھی وقت طلب کیا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی جتنے زیادہ لوگ شناختی کارڈ بنوائیں گے اتنی ہی ملکی وسائل اور آبادی بارے بہتر اور جامع منصوبہ بندی کی جا سکے گی۔ اب تو ٹیکس دہندہ کا شناختی کارڈ نمبر بھی بطور ٹیکس نمبر شمار کیا جاتا ہے اس لئے شناختی کارڈ بنوانا ہر کسی کے لئے سود مند ہے۔ حکومت کے پہلے سو دنوں میں نادرا نے کچھ ممالک کے ساتھ کئی نئے منصوبے بھی سائن کئے جن میں کینیا کے ساتھ ساڑھے سات ہزار ڈالر کا کنٹریکٹ بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ نائیجیریا کے ساتھ چھ ہزار ڈالر اور سوڈان کے ساتھ چار لاکھ ڈالر کا منصوبہ سائن ہوا۔ اگلے سال نادرا کراچی لاہور اور اسلام آباد راولپنڈی میں چھ میگا سنٹرز شروع کرے گا جس سے شناختی بنوانا اور بھی آسان ہو جائے گا۔ لاہور میں پہلا میگا سنٹر شملہ پہاڑی کے قریب واقع ہے جہاں چوبیس گھنٹے تین شفٹوں میں کام جاری رہتا ہے اور بغیر قطار اور انتظار کے شناختی کارڈ بنوایا جا سکتا ہے۔اس طرح کی سہولیات عام آدمی کی زندگی میں ریلیف لاتی ہیں۔ اس لئے انہیں زیادہ سے زیادہ پھیلایا جانا چاہیے۔ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ ہمارے قومی ادارے دنیا کے دیگر ممالک کو جدید سروسز فراہم کر رہے ہیں۔ اگلے سال نادرا کینیا کے لئے ای پاسپورٹ سسٹم کی تیاری پر کام شروع کر دے گا۔ اسی طرح ویزہ لینے کے مشکل اور پیچیدہ عمل کو آسان کرنے کے لئے آن لائن ویزا سسٹم بھی شروع ہونے والا ہے اور چونکہ وزارت داخلہ خود وزیراعظم عمران خان کے پاس ہے اور انہوں نے ہی اس سروس کے آغاز کا حکم دیا ہے اس لئے وہ اس میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیںتاکہ عوام کو ویزا کا حصول کہیں جائے بغیر آن لائن ممکن ہو سکے۔ اسی طرح پہلے سو دنوں میں پرائم منسٹر ڈیلیوری یونٹ کے ذریعے جو تیرہ سو شکایات موصول ہوئیں ان میں سے بارہ سو نوے پر عمل درآمد بھی کیا گیا۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف نادرا بلکہ حکومت کے پہلے سو دن کی کارکردگی خود بتا رہے ہیں۔ گزشتہ روز یو اے ای سے تین ارب ڈالر آنے کی خبر سے معیشت میں خاطرخواہ بہتری آنے کے امکانات نظر آ رہے ہیں اور ممکن ہے حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی نہ پڑے اور اگر گئے بھی تو بادل نخواستہ اور انتہائی محدود قرض کے لئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف حکومت کی ترجیح نہیں بلکہ آخری آپشن تھا جسے استعمال کرنے کی کم سے کم کوشش کی گئی۔وزیراعظم نے وزارت داخلہ کا قلمدان اپنے پاس رکھ کر اسے نظر انداز نہیں کیا بلکہ نادرا کی پہلے سو دن کی کارکردگی ظاہر کرتی ہے کہ انہوں نے اب تک جو صرف تین چھٹیاں کی ہیں اس کے علاوہ وہ صرف کام کرتے دکھائی دئیے ہیں یہاں تک کہ وزیر ریلوے شیخ رشید کو یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ وزیراعظم چھ چھ گھنٹے مسلسل کابینہ کا اجلاس کرتے ہیں مگر اس میں کھانے کا ذکر تک نہیں ہوتا۔ ان عوامل سے نئے پاکستان کا عکس واضح ہوتا نظر آ رہا ہے اور ساتھ میں شیخ رشید بھی سمارٹ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ وزیراعظم نے صاف کہہ دیا ہے کہ انہیں کھانے کی نہیں ڈائٹنگ کی ضرورت ہے۔