اگر ہم عمران خان کو ایک منٹ کے لئے سرجن تصور کر لیں ‘ اس ملک کو زخمی جسم اور اس میں موجود پھیلنے والے زہر کو منی لانڈرنگ مافیا تصو رکر لیں تو بات سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ تحریک انصاف کے قیادت سنبھالنے سے اب تک جتنے دن گزرے ہیں‘ اس میں آپ کو ملک بھر سے چیخیں سنائی دی ہوں گی‘ ان میں ننانوے فیصد وہ لوگ تھے‘ جن کے لئے کرپشن‘ رشوت ستانی ‘ ٹیکس چوری اور دھوکہ دہی معمول کی بات تھی۔ ان کا خیال تھا زرداری اور نواز شریف ایک دوسرے کے بعد یونہی اقتدار سنبھالتے رہیں گے اور دونوں کی بنیادیں چونکہ جڑوں تک کرپشن سے داغدار ہیں ‘اس لئے یہ کسی کو بھی کرپشن کرنے سے روکیں گے‘ نہ ہی اسے سزا دیں گے اور اگر کوئی لمبا مال کمانے کی کوشش کرے گا تو زیادہ سے زیادہ یہ اس سے اپنا کمیشن یا کک بیک وصول کر لیں گے‘ لیکن اس کے خلاف کبھی بھی ایکشن نہیں لیں گے۔یہی وجہ ہے کہ ماضی میں آپ کو کرپشن کے خلاف اس طرح کی زور دار مہم چلتی دکھائی نہیں دی ہو گی۔ اِکا دُکا کیس اگر بنے بھی ہوں گے ‘تو وہ صرف ذاتی یا سیاسی عناد کے باعث بنے ہوں گے ‘وگرنہ کرپشن کو تو حکومتی اور سیاسی نظام میں باقاعدہ باعزت درجہ حاصل رہا اور ہر حکومت اور اس کے کارندے اس سے کماحقہ مستفید ہوتے رہے۔ ماضی میں بھی نیب اور اس کے افسران دفاتر میں جاتے تھے‘ لیکن یہ اپنی حکومتوں کے زیراثر تھے؛ چنانچہ یہ خاموشی سے دن پورے کرتے رہے۔ اب صورت حال مگر بدل چکی ہے۔
عمران خان جب اپوزیشن میں تھے؛ حتیٰ کہ جب بائیس برس قبل انہوں نے اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی تھی‘ آپ تب سے اٹھا کر ان کی ویڈیوز دیکھ لیں‘ وہ اپنے خطاب میںایاک نعبد و ایاک نستعین کے بعد اگر کوئی بعد کرتے رہے ہیں ‘تو وہ کرپشن کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنا تھی۔ انہوں نے اسلام آباد میں تین‘ چار مہینے دھرنا دیا اس میں بھی روزانہ یہ بات دھراتے کہ اس ملک کو سب سے زیادہ اگر کسی چیز نے نقصان پہنچایا ہے تو وہ کرپشن ہے اور جب تک کرپشن کو اس کی جڑ سے ختم نہیں کیا جائے گا‘ تب تک یہ ملک دوبارہ اٹھنے کے قابل نہیں ہو سکے گا۔ گزشتہ چند دنوں سے منی لانڈرنگ مافیا کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں‘ یہ بھی ان کی کرپشن کے خلاف جنگ کے نتیجے میں نکل رہی ہیں اور ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے اور آج نئے سال کا پہلا دن ہے‘ آپ میری یہ بات لکھ کر رکھ لیں عمران خان ہر بات پر سمجھوتہ کر لیں گے‘ لیکن ان لوگوں کے ساتھ کرپشن چھپانے اور منی لانڈرنگ کو تحفظ دینے کے لئے کبھی ہاتھ نہیں ملائیں گے ‘کیونکہ اسی نعرے پر تو عوام انہیں اقتدار میں لائے تھے اور اگر انہوں نے بھی زرداری اور نواز شریف کی طرح مک مکا کی سیاست شروع کر دی تو پھر عوام کی نظر میں وہ کیسے سرخرو ہو سکیں گے۔ وہ اس لئے ایسا نہیں کریں گے کیونکہ عمران خان کو بیرون ملک دولت جمع کرنے یا اپنے بچوں کو اقتدار میں لانے سے کوئی بھی دلچسپی نہیں ہے۔ اس کے برعکس شریف خاندان اور زردارمافیا نے اگلی تین تین نسلوں کے لئے اپنی سیاسی جماعت کو استعمال کرنے اور اقتدار میں لانے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ ان سب کی دولت کا نوے فیصد بیرون ملک پڑا ہوا ہے‘ جبکہ عمران خان کی ایک پائی بھی ملک سے باہر نہیں ہے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ زرداری نے اپنے بیٹے کو بھی معاف نہیں کیا اور اس بے چارے کو شاید معلوم ہی نہ ہو کہ اس کے نام پر کتنی ناجائز کمپنیاں اور دولت دنیا میں پھیلی ہوئی ہے جو سامنے آئی تو خود بلاول سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ بلاول بھی اسی جگہ سے پڑھے ہیں جہاں سے عمران خان پڑھے تھے ‘تاہم آکسفرڈ یونیورسٹی میں ایسی کوئی چیز نہیں پڑھائی جاتی کہ آپ ڈگری لے کر اپنے ملک جائیں اور وہاں کے عوام کا پیسہ خردبرد کر کے ماڈلوں کے ذریعے باہر بھیجنا شروع کر دیں۔ ظاہر ہے اخلاقیات کا سبق انسان کو سب سے پہلے اپنے گھر‘ اپنے والدین سے ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے ورلڈ کپ جیتا تو سب سے پہلے اپنی والدہ کی کینسر سے وفات کا درد محسوس کرتے ہوئے غریبوں کے لئے ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا‘ جبکہ بلاول بھٹو کے سندھ میں آج بھی لوگوں کو سر درد کی گولی تک میسر نہیں اور انسان اور جانور ایک ہی جوہڑ سے پانی پینے پر مجبور ہیں اور جہاں انور مجید جیسے لوگ ڈھٹائی کے ساتھ ملکی خزانہ لوٹنے لگے تھے۔ یہ اخلاقیات کا درس ہی ہے‘ جو انسان کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے‘ جبھی تو عمران خان اقتدار میں آئے تو انہوں نے پہلے سو دن کے اندر سرد راتوں کو سڑک کنارے پڑے بے سہارا افراد کے لئے مسافر خانے تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔مجھے اپنے سابق کولیگ اور معروف شاعر اسلم کولسری اس موقع پر بہت یاد آتے ہیں ۔ وہ جب بھی میٹرو یا تعمیراتی منصوبوں کی بازگشت سنتے تو انتہائی جذباتی ہو کر کہتے کہ ایسے پلوں کو کسی نے سر میں مارنا ہے‘ جب ملک میں اسی فیصد آبادی کے پاس گاڑی ہی نہ ہو اور اگر ہو تو اس میں تیل ڈالنے کے پیسے نہ ہوں۔ وہ کہتے تھے کہ لاکھوں لوگ ان پلوں کے نیچے راتوں کو ٹھٹھرکر نمونیے میں مبتلا ہو کر بیمار ہو جاتے ہیں اور کئی ایک اسی عالم میں انتقال کر جاتے ہیں‘ جن کی لاشیں ایدھی کو لاوارث سمجھ کر اٹھانا اور تدفین کرنا پڑتی ہیں؛ اگر یہ حکمران اور یہ ملک ایسے لوگوں کو روٹی کپڑا صحت اور مکان نہیں دے سکتا تو پھر یہ بڑے بڑے منصوبے ان لوگوں کے کس کام کے۔ آج اگر اسلم کولسری صاحب زندہ ہوتے تو ان مسافر خانوں کو دیکھ کر انہیں اطمینان ہوتا کہ کوئی تو ہے‘ جو انسانوں کے لئے بھی سوچتا ہے‘ وگرنہ تو یہاں جو بھی آیا اس نے بڑے تعمیراتی منصوبوں یا ٹیکسی سکیموں کے ذریعے کک بیکس اور منی لانڈرنگ کو ہی اپنا مشغلہ بنا لیا۔ سابق دور میں نواز شریف اقتدار میں آئے تو انہوں نے آتے ہی ساڑھے چار سو ارب روپے آئی پی پیز کو گردشی قرضے کے نام پر دئیے جس کے ذریعے اپنے ہی لوگوں کو نوازا گیا اور گردشی قرضے چند ماہ بعد دوگنا ہو گئے۔ اسی طرح زرداری صاحب جب بھی اقتدار میں آئے تو انہوں نے پہلے سو دنوں میں اپنے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی فری ہینڈ دے دیا جو اپنے خاندان اور ملازموں سمیت کرپشن اور اقربا پروری کے نئے ریکارڈ قائم کرتے رہے۔اب یہ سب لوگ ایک طرف ہیں اور عمران خان دوسری طرف۔
عمران خان کی جنگ کسی سیاسی خاندان سے نہیں ‘بلکہ ہر اس شخص اور ادارے سے ہے جو کرپشن کو عبادت سمجھ کر مال بٹورنے میں لگا ہے؛ حالانکہ ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ روزِ قیامت اسی ناجائز کمائے ہوئے مال اور سونے چاندی کو پگھلاکر ان کے جسموں کو داغا جائے گا‘ تب انہیں معلوم ہو گا کہ کسی کا حق مارنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔آج سڑکوں پر جو لوگ بھوکے ننگے نظر آتے ہیں‘ آج جو لاکھوں نوجوان بیروزگار ہیں‘ ملک پر جو اتنا قرض موجود ہے یہ سب منی لانڈرنگ کرنے والی انہی جونکوں کا کیا دھرا ہے‘ جو ہماری نسلوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہ ایان علی جیسی ایک سو ماڈل گرلز نے ماضی میں کس کے کہنے پر کیا کیا گل کھلائے ہیں یہ سب بھی آئندہ چند دنوں میں کھلنے والا ہے اور یاد رکھیں کہ کرپشن کے خلاف یہ جنگ عمران خان کی زرداروں کے خلاف نہیںبلکہ ملک کے ہر شخص کی ہر اس میٹر ریڈر کے خلاف بھی ہے‘ جو متوسط طبقے کو ناجائز یونٹ ڈالتا ہے اور ان زرداروں اور نوازوں کے خلاف بھی ہے‘ جو اس ملک کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹتے رہے‘ آج ان سب کے برے دن آن پہنچے ہیں۔
کرپشن کیخلاف یہ جنگ عمران خان کی زرداروں کے خلاف نہیںبلکہ ملک کے ہر شخص کی ہر اس میٹر ریڈر کے خلاف بھی ہے جو متوسط طبقے کو ناجائز یونٹ ڈالتا ہے اور ان زرداروں اور نوازوں کے خلاف ہے۔