الیکشن سے قبل جب عمران خان وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کے اعلانات کرتے تھے تو یہ کہا جاتا تھا کہ ماضی میں بھی مختلف حکمرانوں نے ایسے اعلانات کئے لیکن کوئی وعدہ وفا نہ ہو سکا۔ حلف اٹھانے کے بعد قوم سے خطاب میں عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اس عزم کو دہرایا کہ وہ وزیراعظم ہائوس کے محل میں رہنے کی بجائے اس سے منسلک دو کمروں والے گھر میں رہیں گے اور وزیراعظم ہائوس کو ایک شاندار بین الاقوامی یونیورسٹی میں تبدیل کر دیں گے تو یار دوستوں نے ایک مرتبہ پھر مایوسی کے بادل اڑانے شروع کر دئیے اور کہا کہ ایسا عملی طور پر ممکن نہیں اور وزیراعظم کو اپنا یہ اعلان واپس لینا پڑے گا؛ تاہم سب نے دیکھا کہ عمران خان نے وزیراعظم ہائوس کی بجائے ملحقہ ملٹری سیکرٹری کی رہائش گاہ میں قیام‘ اور ساتھ ہی وزیراعظم ہائوس کے چار سو ملازمین کو دیگر محکموں میں بھیجنے کا بھی فیصلہ کیا۔ انہوں نے وزیراعظم ہائوس کے زیراستعمال سینکڑوں گاڑیاں ‘ہیلی کاپٹر اور بھینسیں بھی نیلام کر دیں جس کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا گیا کہ اس سے ملکی خزانے میںکوئی بڑی رقم جمع نہیں ہوئی۔ ایسا کہنے والوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ عمران خان نے دراصل یہ اقدام صرف خزانہ بھرنے کے لئے نہیں اٹھایا تھا بلکہ ایسا کر کے پوری قوم اور دنیا کو اصل پیغام یہ دینا مقصود تھا کہ ملک کے سب سے اہم عہدے پر بیٹھ کر بھی انسان کو انسان ہی رہنا چاہیے‘ اسے خدا نہیں بن جانا چاہیے اور ایک ایک پائی کو احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے کیونکہ حکمرانوں کو ملنے والا اختیار اور پیسہ ان کے باپ کی جاگیر نہیں ہوتی بلکہ یہ پیسہ اور اقتدار ان کے پاس عوام کی امانت ہوتا ہے جس کی حفاظت حکمرانوں کا فرض ہے اور جب اقتدار کی سب سے بڑی مسند پر بیٹھا حکمران کفایت شعاری کا مظاہرہ کرے گا تو لامحالہ نیچے تک یہ پیغام سرایت کرے گا کہ فضول خرچی اور اسراف سے پرہیز ہر چھوٹے بڑے کے لئے لازم ہو چکا ‘ اسی لئے ہم نے دیکھا کہ بعد میں پورے ملک سے وزرائے اعلیٰ‘ وزرا اور بیوروکریسی کی طرف سے ایسے فیصلے اور خبریں سامنے آئیں کہ وہ سرکاری گھر اور گاڑی استعمال نہیں کریں گے‘ اور عوام کی ایک ایک پائی کا خیال رکھیں گے۔ ذرا سوچیں اگر عمران خان نے ایسا نہ کیا ہوتا تو کیا نیچے سے ایسا ردعمل آتا؟ اگر ہم ماضی میں جھانکیں تو اوپر سے لے کر نیچے تک 'لوٹ لو جتنا لوٹ سکتے ہو‘ کا نعرہ عام ہو چکا تھا۔ نواز شریف ہوں یا آصف زرداری‘ ان لوگوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ جب وہ اقتدار میں آ کر عوام کے پیسے کو ذاتی عیاشیوں کے لئے استعمال کرتے ہیں تو اس کے منفی اثرات نیچے وزرائے اعلیٰ سے شروع ہو کر ایک عام کلرک تک تیزی سے سرایت کرتے ہیں۔آپ گورنر ہائوس مری کی ہی مثال لے لیں۔ شریف برادران کو مری سے ایک خاص انس تھا۔ وہ اپنا ویک اینڈ رائے ونڈ محل یا پھر مری میں گزارنا پسند کرتے تھے۔ اس مقصد کے لئے سابق دور میں بال بال قرض میں ڈوبے ملک کے ان حکمرانوں کی عیاشیوں کی چشم کشا داستان سن کر آج بھی ہوش اڑ جاتے ہیں۔ خدا کی پناہ ‘ تزئین و آرائش کے نام پر مری کے گورنر ہائوس پر دو چار نہیں بلکہ پورے پچپن کروڑ روپے خرچ کر دئیے گئے ۔ میڈیا نے جب باتھ روموں میں سونے سے بنے کموڈ، ٹوٹیاں اور دیگر سینٹری کی چیزیں دکھائیں تو عوام کے بھی ہوش اڑ گئے۔مری کے گورنر ہائوس کے وسیع و عریض واش روم میں جب کیمرہ پہنچا تو وہاں کا منظر ہی مختلف تھا۔حکمرانوں نے اپنی رفع حاجت کیلئے مخصوص جگہوں کو بھی عشرت کدہ بنا رکھا تھا، گولڈ پلیٹڈ کموڈ، سونے کی ٹوٹیاں، ہینڈل اور سینیٹری کی گولڈ پلیٹڈ دیگر اشیا نے عوام کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ جو حکمران ملک کی تقدیر بدلنے اور نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا وعدہ کر کے اقتدار میں آئے‘ انہوں نے اپنی عیاشیوں کیلئے کیا کیا جنتیں بنا رکھی تھیں۔
اس سے قبل محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے دور اقتدار میں آصف زرداری نے وزیراعظم ہائوس میں گھوڑے اور اونٹ پال رکھے تھے، آصف زرداری اونٹنی کا دودھ استعمال کرتے تھے جبکہ اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف نے وزیراعظم ہائوس کی ضرورت سے زائد گاڑیوں کے وسیع بیڑے کو نیلام کرنے اعلان کیا جن میں سے متعدد گاڑیوں کی نیلامی ہو چکی ہے جبکہ وزیراعظم ہائوس کے اخراجات جو پہلے کروڑوں روپے میں ہوتے تھے، گھٹ کر چند لاکھ روپے رہ گئے ہیں۔ اس سے بھی بڑا اثر پورے ملک کے وسیع طبقے پر یہ پڑا کہ ادارے اور اشرافیہ وسائل اور روپے کے ضیاع کے معاملے میں محتاط ہو گئے ہیں اور یہ اتنا بڑا پیغام ہے جو آج سے قبل کسی وزیراعظم نے نہیں دیا تھا۔ آپ سیف الملوک کھوکھر کی مثال ہی لے لیں۔ یہ شخص رعب اور دبدبے کی علامت جانا جاتا تھا‘ یہ شریف برادران کا بھی خاص الخاص تھا اور لاہور میں جہاں کہیں قبضہ کرنا ہوتا تو انہی صاحب کی خدمات حاصل کی جاتیں۔ آج یہ شخص عوام کی بددعائوں اور اللہ کی پکڑ کے باعث زوال کی علامت بن چکا ہے۔اس شخص نے ٹھوکر نیاز بیگ پر محل تعمیر کیاجس میں سینکڑوں رہائشی کمرے‘لان‘باغات‘ سوئمنگ پول حتیٰ کہ ہیلی پیڈ تک تعمیر کرایا اور یہ سب کچھ 67کنال سرکاری اراضی پر بنایا گیا جسے کوڑیوں کے دام خریدا گیا۔ سیف الملوک مسلم لیگ ن کے صوبائی رکن اسمبلی ہیں۔ ان کے اس اقدا م پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ انہوںنے وہی کچھ کیا جو ان کے لیڈر اور پارٹی کے صدر نواز شریف کرتے آئے تھے۔ جیسا میں نے شروع میں کہا کہ جب وزیراعظم کے منصب پر بیٹھا شخص رائے ونڈ میں سترہ سو کنال اراضی پر ذاتی محل تعمیر کرے گا اور اس کی سکیورٹی تک کے لئے سینکڑوں پولیس اہلکار عوام کے پیسوں سے ڈیوٹیاں دیں گے تو پھر نیچے وزیر اور ایم پی اے بھی اسی نقش قدم پر چلیں گے جس پر ان کا لیڈر چلتا آیا ہے۔ بہرحال مکافات عمل بھی ایک چیز ہے۔ کھوکھر برادران اس وقت نیب کے شکنجے میں ہیں اور جن کے نقش قدم پر وہ چل رہے تھے وہ ان سے پہلے کوٹ لکھپت جیل میں پہنچ چکے ہیں۔کسی کا مستقبل بھی دوسرے سے مختلف نہیں ہو گا۔ کھوکھر برادران کا معاملہ تو صرف ایک مثال تھی‘ ن لیگ کے کسی بھی ایم پی اے کو اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو کرپشن کی ایسی ہی ہوشربا داستانیں نظر آئیں گی ۔
گزشتہ برس اکیس دسمبر کو وزیراعظم عمران خان نے وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تو ایسے بہت سوں کی امیدوں پر اوس پڑ گئی تھی جو دُور کی کوڑیاں لا کر بتاتے تھے کہ وزیراعظم اپنے اس اعلان پر عمل نہیں کر پائیں گے۔حلف کے بعد جب وزیراعظم نے اس یونیورسٹی کا اعلان کیا تھا تو میں نے چند کالموں میں یہ تجویز دی تھی کہ اس یونیورسٹی کو روایتی ٹیچنگ یونیورسٹیوں کی بجائے سائنس و ٹیکنالوجی کی تحقیقی یونیورسٹی بنایا جائے تاکہ یہ عالمی توجہ اور درجہ حاصل کر سکے۔ مجھے خوشی ہے اس تجویز کو سنجیدہ لیا گیا اور وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے مطابق اسلام آباد نیشنل یونیورسٹی کو ایک ورلڈ کلاس ریسرچ یونیورسٹی کی شکل میں ڈھالا جائے گا تاکہ یہ دنیا کی معروف ریسرچ یونیورسٹیز کی طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں محقق پیدا کر سکیں اور دنیا کے مسائل کو حل کرنے میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ایسا اس لئے بھی ضروری تھا کہ اس وقت دنیا میں جتنی نئی دوائیں دریافت ہو رہی ہیں‘ جتنی موذی بیماریوں کا علاج دریافت ہو رہا ہے اور کرہ ارض پر ماحول کو جو چیلنج درپیش ہیں ان سب کے نئے نئے حل اگر سامنے آ رہے ہیں تو یہ امریکہ کی ہارورڈ ‘ برطانیہ کی آکسفورڈ ‘ جاپان کی ٹوکیو یونیورسٹی‘کینیڈا کی ٹورنٹو یونیورسٹی اورآسٹریلیا کی آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے طلبااور اساتذہ کی تحقیق کے نتیجے میں سامنے آ رہے ہیں ۔ ماضی میں پی ایم ہائوس میں کرپشن اور سازشوں کے جال بُنے جاتے تھے لیکن اب پی ایم ہائوس میں قائم اسلام آباد نیشنل یونیورسٹی سے تحقیق و تجدید کے سوتے پھوٹیں گے اور پاکستان عالمی اُفق پر تابناک ستارہ بن کر اُبھرے گا ۔