بزرگوں سے سنا تھا‘ جب سارے چوروں کو اکٹھا ہوتے دیکھو تو سمجھ جانا کہ تھانیدار ایماندار آ گیا ہے۔
ملکی صورت حال پر نظر دوڑائیں تو ایسا ہی منظر دکھائی دے رہا ہے۔ وہ جو اپنی اپنی استعداد کے مطابق لوٹ مار میں لگے تھے‘ اب عمران خان کے وزیر اعظم بنتے ہی اکٹھے ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ احتساب کے ڈر نے دو بڑی سیاسی جماعتوں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو ایک میز پر بٹھا دیا ہے۔ ویسے تو یہ دونوں پہلے بھی برائے نام ہی ایک دوسرے کی حریف بنتی رہی ہیں‘ لیکن اس مرتبہ کا اکٹھ عوام کی بہتری نہیں بلکہ اپنا اپنا لوٹا ہوا مال بچانے کیلئے کیا گیا ہے۔ اگر یہ اتحاد عوام کے لیے کیا گیا ہوتا تو ملک کو مشکل حالات سے نکالنے کی تدبیریں اسمبلی کے فلور پر کی جاتیں۔ سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم نے تو برملا کہہ دیا کہ شہباز شریف اور آصف زرداری نے کرپشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرتی آ رہی ہیں اور اگر انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف کوئی کیس بنائے بھی تو ان کا مقصد کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک دوسرے کو محض دبائو میں لانا تھا۔ اگر مقصد کرپشن کا خاتمہ ہوتا تو شریف برادران اور زرداری کے پاس بھی اتنا ہی اختیار تھا جتنا آج وزیر اعظم عمران خان کے پاس ہے۔ خان صاحب کو تو پہلی مرتبہ حکومت ملی ہے‘ لیکن یہ دونوں جماعتیں تو تیس چالیس برس تک اقتدار میں رہی ہیں۔ آج جب اومنی گروپ کے سکینڈل‘ پانامہ کمپنیاں اور لندن فلیٹ سامنے آ رہے ہیں تو پتہ چل رہا ہے کہ ان تیس چالیس برسوں میں کیا کیا محنتیں کی جاتی رہی ہیں۔ یہ وہ کڑوے بیج تھے جو اس وقت بوئے گئے اور آج یہ زہر بن کر ملکی معیشت کو چاٹ رہے ہیں اور ملبہ خان پر ڈالا جا رہا ہے۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ یہ تمام بہترین سیاسی اداکار بھی تھے۔ عوامی جذبات سے کھیلنا انہیں خوب آتا تھا۔ مجمعوں میں کس طرح اُچھل اُچھل کر تقریریں کرنی ہیں‘ کس طرح عوام کا دل لبھانا ہے اور کس طرح حبیب جالب کے شعر سنا کر داد وصول کرنی ہے‘ یہ سب ان شاطرین کا خاصا تھا۔ جذبات کو مزید انگیخت کرنا مقصود ہوتا تو شہباز شریف جیسے ہاتھ مار کر ٹی وی چینل کے مائیک تک گرا دیتے۔ یوں عوام کو باور کرایا جاتا کہ حکمران کس قدر ان کے درد میں مبتلا ہیں۔ بلاول بھٹو جیسے نومولود لیڈروں کو سکھایا جاتا کہ بیٹا سندھ کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دینا کہ یہاں تمہارے نانا ابو کو پوجنے والے آج بھی زندہ ہیں۔ انہیں بھٹو کے دو چار نعرے اور جذباتی جملے سنا دو تو ان کی سات نسلیں بھی تمہیں ووٹ دیں گی‘ چاہے وہ اور ان کے بچے کسی ایسے جوہڑ سے پانی پیتے رہیں جہاں ڈنگر منہ مارتے ہوں‘ بس تم نے ایسی اداکاری کرنی ہے کہ ان سندھیوں کا دل پسیج جائے۔ بلاول کو پنجاب کا ماڈل سمجھایا گیا کہ سیکھو‘ شہباز شریف سے سیکھو کہ جو بھرے مجمع میں تمہارے والد گرامی کا پیٹ پھاڑ کر دولت نکلوانے کی باتیں کرتے تھے‘ لیکن اپنے ادوار میں انہوں نے چپ سادھے رکھی۔
لوگ پوچھتے ہیں: شہباز شریف اگر آج زرداری سے گلے مل رہے ہیں‘ تو ان کے ماضی میں کیے گئے پیٹ پھاڑنے کے اعلانات کو کس نظر سے دیکھا جائے۔ کیا وہ عوام کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جب چاہیں آپس کے مفاد کے لیے ایک ہو سکتے ہیں اور جب چاہیں عوام کے جذبات سے کھیلنے کے لیے جذباتی تقریریں کر سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوںنے قومی اسمبلی سے واک آئوٹ کیا‘ جس پر وزیر اعظم عمران خان کا ایک ٹویٹ سامنے آیا جس میں انہوں نے واضح کیا کہ یہ واک آئوٹ دراصل حکومت پر دبائو ڈال کر این آر او لینے کا حربہ ہے۔ انہوں نے صاف کہا کہ وہ پارلیمنٹ کو کرپشن چھپانے کے لیے استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ لوگ کہتے ہیں: عمران خان ابھی تک اپوزیشن سٹائل میں بات کرتے ہیں اور انہیں اب بدل جانا چاہیے۔ میں ایسے لوگوں سے پوچھتا ہوں‘ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ عمران خان نواز شریف یا زرداری بن جائیں اور ایسے لوگوں کے دبائو میں آ کر فیصلے کرنے لگیں؟ خان کا یہی تو وہ سٹائل تھا جس پر پوری قوم ان کی دیوانی ہوئی تھی۔ آج اگر وہ کرپشن کے دیوتائوں کے سامنے جھک گئے تو کل کو کون انہیں اچھے لفظوں سے یاد کرے گا۔ تاحال ایک ہی تو لیڈر ایسا آیا ہے جو مخالفین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔ بیس برس قبل جب خان نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی‘ تب بھی وہ کرپشن کو اس ملک کا سب سے بڑا ناسور سمجھتے تھے‘ اور آج بھی سمجھتے ہیں۔ وہ اگر اپنے بیس برس قبل کے مشن کو نہیں بھولے تو پھر دو تین سال قبل دھرنے میں کرپشن کے خلاف کیے گئے عزم کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ خان کے اوپر یہ وقت نیا نہیں۔ اس سے قبل جب دھرنے میں تمام سیاسی جماعتیں ایک طرف اور تحریک انصاف دوسری طرف تھی تب بھی انہوں نے اس قسم کے دبائو کا بھرپور انداز میں مقابلہ کیا تھا اور تب تو وہ حکومت میں بھی نہیں تھے۔ آج جب ان کے پاس اقتدار ہے‘ طاقت اور اختیار ہے تو وہ کیوں ان سیاسی جماعتوں سے گھبرا جائیں گے۔ ان کا وہ دبنگ انداز بھی سب کو یاد ہو گا‘ جب وہ اکیلے الطاف حسین کے خلاف کھڑے ہوئے تھے۔ تب اس کے خلاف کوئی اشارتاً بات کرنے کو تیار نہ تھا۔ وہ اس وقت کراچی گئے جب ایم کیو ایم نے کراچی میں ہر جانب لاشیں بچھائی ہوئی تھیں اور خان کو کراچی آنے سے روکنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ اگر خان صاحب اس وقت نہیں ڈرے‘ وہ اس وقت نہیں گھبرائے جب ان کے پاس اقتدار نہ تھا تو اب وہ کیوں کر ان بلیک میلروں کو من مانی کرنے دیں گے۔ ویسے بھی زرداری پر جتنے کیس چل رہے ہیں وہ سارے تو ن لیگ کے دور میں بنے‘ اور ان پر ایکشن نیب کا ادارہ لے رہا ہے۔ لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ احتساب کا ادارہ تو پہلے بھی تھا تو پہلے اس طرح کے ایکشن کیوں نہ لیے گئے۔ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ جب ریاست کا حکمران بے خوف اور نڈر ہو اور کرپشن کے خلاف جنگ کا عزم رکھتا ہو تو نیچے موجود تمام اداروں اور عمال میں ہمت‘ حوصلہ اور طاقت خود بخود پیدا ہو جاتی ہے۔ انہیں یہ یقین ہو جاتا ہے کہ وہ کسی کرپٹ کے خلاف ایکشن لیں گے تو اقتدار کے ایوانوں کی جانب سے کوئی رکاوٹ ڈالی جائے گا‘ اور نہ ہی دبائو؛ چنانچہ احتساب کا ادارہ اگر اپنا کام دلیری کے ساتھ کر رہا ہے تو اس کا کریڈٹ بھی وزیر اعظم عمران خان کو جاتا ہے۔
رہی بات میڈیا کے اُس حصے کی جو خان کے خلاف لٹھ لے کر کھڑا ہے تو اس کی وجوہ واضح ہیں۔ میں خان صاحب کو دھرنے سے لے کر اب تک سپورٹ کرتا آیا ہوں‘ اور اس کی وجہ ان کا کرپشن کے خلاف وہ عزم ہے‘ جس پر وہ سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ فرض کریں میں اگر خان سے ملاقات کے لیے وقت مانگوں اور مجھے وقت نہ دیا جائے تو ظاہر ہے میں اسے اپنی تضحیک سمجھوں گا اور پھر مجھے یہ حکومت‘ تحریک انصاف اور خان سب کچھ برا لگنے لگے گا اور میں اس مایوسی کا اظہار یوں کروں گا کہ خان کی حکومت تو ناکام ہو چکی ہے۔ میڈیا کے بعض اینکرز اور صحافیوں کا مسئلہ بھی یہی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ خان صاحب حکومت میں آئے بھی ان کی سپورٹ کی وجہ سے ہیں اور حکومت کرنے کے لیے بھی انہیں انہی صحافیوں کی ضرورت ہے؛ چنانچہ خان صاحب مصروفیت کی وجہ سے ایسے جن لوگوں کو وقت نہیں دے پاتے یا جن کے مشورے قبول کرنے کو تیار نہیں‘ وہ سب ایک ایک کرکے خان کے خلاف کھڑے ہوتے جا رہے ہیں اور ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو خان کے مخالفین کے ساتھ مل کر احتساب کی گاڑی روکنے کی کوشش میں ہیں لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ خان کا مقصد اور جدوجہد کا کینوس ان صحافتی بونوں کی خواہشات اور اَنا کے مقابلے میں بہت وسیع او وقیع ہے اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ احتساب کی یہ گاڑی رُک جائے گی تو یہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی بھول ہے۔