سیدہ بے مثال زہرا نے جنوبی پنجاب کے بیروزگار نوجوانوں کے لیے شاندار مثال قائم کی ہے۔
سیدہ زہرا کا تعلق ملتان سے ہے۔ زہرا نے چار سال قبل بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ٹیلی کام انجینئرنگ مکمل کی ۔ اگلا مرحلہ روزگار کا تھا۔ ٹیلی کام میں زیادہ تر نوکریاں فیلڈ سے متعلقہ تھیں اور لڑکوں کے لیے زیادہ بہتر سمجھی جاتی تھیں؛ چنانچہ زہرا کے لیے یہ سوال پیدا ہو گیا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو کہاں اور کیسے آزمائے۔اپنے آخری سمسٹر میں زہرا نے انگریزی میں بہت سے مضامین لکھے۔ یہ مضامین اس کی ایک دوست اس سے لکھوایا کرتی اور اسے انتہائی کم معاوضہ دیتی لیکن زہرا کو لکھنے کا بہت زیادہ تجربہ حاصل ہو گیا‘ جو بعدازاں جنون میں بدل گیا۔ زہرا کے والد شاہد ندیم رضوی بہت اچھے مضمون نگار ہیں اور زہرا کو لکھنے کا شوق انہی سے پیدا ہوا۔ زہرا ان لڑکیوں میں سے تھی جو نئی دنیائیں مسخر کرنے کے خواب دیکھتی ہیں وگرنہ تو ہمارے معاشرے میں بچے جتنے مرضی بڑے ہو جائیں‘ والدین پر ہی انحصار کرتے ہیں اور خود کچھ کردکھانے کا جذبہ کم ہی رکھتے ہیں۔ خودی کا یہی جذبہ زہرا کو اس راہ پر لے آیا جو آج لاکھوں بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کا بے چینی سے منتظر ہے۔ ایک سال قبل زہرا کو معلوم ہوا کہ ملتان میں نیشنل فرٹیلائزر کارپوریشن انسٹی ٹیوٹ میں ای روزگار سنٹر قائم ہواہے‘ جہاں آن لائن آمدنی کے حصول کیلئے تین ماہ کا مفت سرکاری تربیتی پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ زہرا نے پروگرام میں ٹیسٹ اور انٹرویو پاس کرنے کے بعد داخلہ لے لیا۔ وہاں اس کے ساتھ سو سے زائد دیگر بے روزگار ماسٹرز ڈگری ہولڈر حتیٰ کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی لڑکے لڑکیاں بھی موجود تھے۔ زہرا نے غیر تکنیکی کورس میں داخلہ لیا تھا‘ اور یہاںبھی اس نے کانٹینٹ رائٹنگ کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کو پالش کرنا شروع کیا۔ اس نے فائیور ڈاٹ کام پر اپنا اکائونٹ بنا لیا اور بہت جلد دوسرے لیول تک جا پہنچی۔ اسے پہلا آرڈر دس ڈالر کا ملا۔ اس نے مختلف موضوعات پر انگریزی میں تحریریں لکھ کر بھیجیں جو پسند کی گئیں‘ جس کے بعد زہرا کو دوبارہ آرڈر ملنا شروع ہو گئے۔ وہ واحد طالبہ تھی جس نے دوران تربیت ہی چار سو ڈالر کما لیے۔ اس کی دو وجوہات تھیں‘ ایک تو یہ کہ زہرا نے اسی شعبے کا انتخاب کیا جو اس کا پسندیدہ تھا اور جس میں اسے مہارت حاصل تھی اور دوسرا یہ کہ وہ اپنے انسٹرکٹر کی باتوں کو بہت غور سے سنتی اور ایک ایک لفظ پر عمل کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے پہلا آرڈر بھی بہت جلد مل گیا وگرنہ نوجوان بہت جلد مایوس ہو کر فری لانسنگ کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ زہرا نے اپنے انسٹرکٹر کے کہنے کے مطابق اپنی پروفائل کو بہتر انداز میں پیش کیا‘ اور اپنے کلائنٹ کے ساتھ گفتگو اور اس کے کام کو سمجھنے میں بہت سنجیدگی دکھائی ۔ اسے آسٹریلیا‘ سوئٹزرلینڈ‘ برطانیہ ہر طرف سے کام ملنے لگا حتیٰ کہ ایک روز اسے ایک ایسا کلائنٹ بھی ملا جس نے اسے مزید افراد ہائر کرنے کو کہا تاکہ وہ ان سے کام لے کر اس کے لیے بڑا پراجیکٹ مکمل کر سکے۔ زہرا نے پانچ چھ افراد کی ٹیم بنائی اور اپنے کلائنٹ کی طلب کے مطابق پراجیکٹ شروع کر دیا۔ اسی دوران اس نے فیس بک پر پاکستانی فری لانسرز کمیونٹی پر بھی اندراج کر لیا‘ جہاں سے اسے پاکستانی ویب سائٹس اور اداروں سے بھی کام ملنے لگا۔ میں نے زہرا سے پوچھا:'آپ نے ایک سال میں کتنے پیسے کما لیے ہیں؟ ۔''ساڑھے چھ ہزار ڈالر‘‘زہرا نے جواب دیا۔ میرا اگلا سوال تھا: اگر آپ فری لانسنگ نہ کرتیںاور اگر ملتان میں ای روزگار سنٹر نہ کھلتا تو آپ کیا کرتیں؟ زہرا نے کہا کہ وہ یقینا ایک بے مقصد زندگی گزار رہی ہوتی۔ کہنے لگی: فری لانسنگ لڑکیوں کے لیے آئیڈیل پیشہ ہے اور اس کے لیے تعلیم‘ عمر یا علاقے کی کوئی قید نہیں۔ آپ میٹرک پاس ہیں‘ اگر آپ کو کمپیوٹر آتا ہے‘ آپ کی انگریزی اچھی یا بہت اچھی ہے تو آپ پاکستان کے کسی دور دراز گائوںمیں ہی کیوںنہ مقیم ہوں‘ اگر وہاں انٹرنیٹ چلتا ہے تو پھر آپ بھی فری لانسنگ کے لیے اہل ہیں۔ ایک روایتی جاب سے ہٹ کر فری لانسنگ میں آپ کو کسی دفتر جانے کی ضرورت نہیں۔ طویل سفر‘ کرایہ اور خجل خواری سے بھی آپ بچ جاتے ہیں اور نوکری چھوٹنے کی تلوار بھی آپ کے سر پر نہیں لٹکتی۔ زہرا نے بتایا:آن لائن آمدنی کے کئی طریقے ہیں‘ مثلاً خواتین سکائپ پر آن لائن بچوں کو قرآن پاک پڑھا سکتی ہیں‘ انہیں مختلف کھانے بنانے آتے ہیںتو وہ اپنا یوٹیوب چینل کھول سکتی ہیں‘ پروگرامنگ آتی ہے تو موبائل ایپلی کیشنز اور سافٹ ویئر بنا سکتی ہیں‘ اکائونٹنگ آتی ہے تو حساب کتاب سے متعلقہ کام لے سکتی ہیں‘فوٹو شاپ سیکھ لیں تو گرافکس ڈیزائننگ کی دنیا میں داخل ہو سکتی ہیں جہاں وہ کمپنی لوگوز‘ ویب سائٹس‘کتابوں کے ٹائٹل‘ اشتہار‘ بینرز کچھ بھی ڈیزائن کر کے پانچ دس یا سو ڈالر فی آرڈر سے بھی زیادہ کما سکتی ہیں‘مختلف زبانوں میں تراجم کر سکتی ہیں‘ ریسرچ آتی ہے تو مختلف ویب سائٹس کو مطلوبہ مواد تلاش کر کے دے سکتی ہیں‘ کوئی ڈاکٹر یا فارماسسٹ ہے تو وہ میڈیکل سے متعلقہ امور سرانجام دے سکتا ہے‘ طبی آپریشنز‘ سیمینارز یا میٹنگز کی آڈیو سن کر اسے تحریری شکل دے سکتا ہے‘ آرکیٹیکٹ یا سول انجینئر ہے تو عمارتوں کے نقشے ڈیزائن کر سکتا ہے غرض کہ انٹرنیٹ پر مرد و خواتین سب کیلئے اتنا کام موجود ہے کہ جس سے انتہائی قلیل سرمائے کے ساتھ باوقار اور محفوظ روزگار حاصل ہو سکتا ہے۔
جنوبی پنجاب کی پسماندگی اور غربت سے کون واقف نہیں۔ہمارے خالد مسعود خان اور رئوف کلاسرا کا تعلق بھی ملتان اور لیہ سے ہے اور یہ بھی گاہے گاہے اپنے کالموں میں اس دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے رہتے ہیں۔ خود وزیراعلیٰ عثمان بزدار بھی ڈی جی خان کی تحصیل تونسہ سے اُبھرے ہیں اور عمران خان کا ان کے انتخاب کا ایک مقصد جنوبی پنجاب کی دادرسی کرنا تھا ۔ عثمان بزدار نے بھی انہیں مایوس نہیں کیا اور اس بارے میں اچھی خبر یہ ہے کہ تئیس اور چوبیس جنوری کو بہائوالدین زکریایونیورسٹی اور این ایف سی انسٹی ٹیوٹ ملتان میں فری لانسنگ کے دو ای روزگار سنٹرز کا باقاعدہ افتتاح ہونے جا رہا ہے اوریہ اقدام پنجاب حکومت کی جانب سے جنوبی پنجاب کو سیلی کون ویلی کی طرز پر کھڑا کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے تاکہ ملتان‘ دیگر نواحی پسماندہ اضلاع کے طلبا کا ٹیلنٹ ضائع نہ ہو اور انہیں آئی ٹی کی تربیت کے مواقع مقامی سطح پر مل سکیں۔ ملتان کے بعد بہاولپور‘ بہاولنگر‘ لیہ اور دیگر اضلاع کی باری ہے ۔ اس وقت پنجاب بھر میں کل پچیس ای روزگار سنٹرز ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق وزیر برائے امور نوجوانان پنجاب رائے تیمور علی خان بھٹی اس تعداد کو سینکڑوں تک لے جانا چاہتے ہیں اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت اس پروگرام کو پھیلانے کے خواہشمندہیں تاکہ ہر ضلعے اور ہر تحصیل میں نوجوانوں کو تربیت کے مواقع مل سکیں۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ پی آئی ٹی بی کے موجودہ چیئرمین حبیب الرحمن گیلانی نے ای روزگار کی افادیت کو دیکھتے ہوئے فوری طور پر اس کی استعداد کار بڑھانے کا فیصلہ کیاہے اور چند روز قبل پروگرام کا بجٹ 870ملین کرنے اور جون 2020ء تک تربیت پانے والے طلبا کی تعداد 10ہزار سے بڑھا کر 25ہزار کرنے کی منظوری دے دی ہے‘ جس کے لیے سیکرٹری یوتھ افیئرز ندیم محبوب کی کاوشیں بھی قابل تعریف ہیں۔ ای روزگار پروگرام تیزی سے کامیابی کی منازل طے کر رہا ہے تو اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل ای گورنمنٹ ساجد لطیف کی قائدانہ صلاحیتوں کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ ساجد لطیف بلاشبہ پاکستان کے اُن گنتی کے چند افسران میں سے ہیں جو ای گورنمنٹ کے شعبے میں بے پناہ علمی اور تکنیکی مہارت اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وسیع عملی تجربہ رکھتے ہیں اور ای روزگار پروگرام سمیت پچاس سے زائد ای گورنمنٹ پراجیکٹس کے نگران ہیں۔
میں نے آج آپ کے سامنے خاص طور پر جنوبی پنجاب سے سیدہ بے مثال زہرا کی بے مثال کہانی کا انتخاب کیا جو اس خطے کے نوجوانوں کی ٹیکنالوجی کے میدان میں شاندار صلاحیتوں کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔صرف سیدہ زہرا ہی نہیں‘ ہر وہ نوجوان جو بیروزگار ہے‘ اپنی صلاحیتوں کو آزمانا چاہتا ہے اور خوشحالی اور آسودگی کا آرزو مند ہے‘ وہ سیدہ زہرا کی طرح ای روزگار اور فری لانسنگ کے ذریعے خوشحالی کی دہلیز پر قدم رکھ سکتا ہے۔