اگر ریاست مدینہ بنانی ہے‘اگر واقعتاً انصاف دینا ہے تو مجرموں کو پکڑ کر عین اُسی جگہ لے جایا جائے جہاں یہ سانحہ پیش آیا ‘ وہیں بچوں اور ان کے ورثا کو بھی لایا جائے اور ان کے سامنے اسی چھوٹی گاڑی میں بٹھا کر ان پانچوں اہلکاروں اور ان کے ذمہ داران افسران پر اسی طرح اندھا دھند گولیاں برسا دی جائیں جیسا کہ خلیل ‘اس کے خاندان اور ڈرائیور پر برسائی گئی تھیں اور اس وقت تک برسائی جاتی رہیں جب تک کہ ان کی روح ان کے ظالم ‘بے حس اور نااہل وجود سے علیحدہ نہ ہو جائے اور اس تمام عمل کی عام شہریوں سے ویڈیوز بنوائی جائیں اور اسی طرح سوشل میڈیا پر پھیلا دی جائیں تاکہ جس جس کے اعصاب درندوں کی درندگی دیکھ دیکھ کر اور بچوں کی آہیں دیکھ دیکھ کر شل ہو چکے ہیں وہ انصاف ہوتا دیکھ سکیں اور پورا معاشرہ دوبارہ نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے۔ انصاف دینا مقصود ہے تو پھر قصاص سے کم پر بات ہو ہی نہیں سکتی۔ قصاص سے مراد ہے بدلہ ۔ جان کے بدلے جان‘ آنکھ کے بدلے آنکھ ‘ دانت کے بدلے دانت اور مال کے بدلے مال ۔ جیسا کوئی کسی کے ساتھ جرم کرے ویسی ہی اسے سزا دی جائے۔سورۃ البقرہ میں فرما دیا۔ '' اے ایمان والو! تم پر مقتولین کے معاملے میں قصاص فرض کیا گیا ہے۔آزاد کے بدلے میں وہی آزاد قتل کیا جائے‘غلام کے بدلے میں وہی غلام اور عورت کے بدلے میں وہی عورت‘‘۔ معاشرے کو ظلم سے پاک کرنے‘ پولیس کو لگام ڈالنے اور لواحقین کے غصے اور انتقام کی آگ ٹھنڈا کرنے کا یہ کم از کم عمل ہوگاجو ظالموں کیلئے مثال بنے گا اور آئندہ کسی ایلیٹ فورس ‘کسی سی ٹی ڈی ‘ کسی بھیڑئیے کو ایسی دہشت گردی کی جرأت تک نہ ہو گی اور یہ صرف میں نہیں‘ تحریک انصاف کے وزیر میاں اسلم اقبال بھی تو یہی کہہ رہے ہیں کہ ملزموں کو اسی جگہ لا کر پھانسی دی جانی چاہیے۔ جی ہاں یہ کوئی مذاق کی بات نہیں ہے۔ پانچ برس کی ہادیہ جو ہاتھ میں فیڈر تھامے تصویروں میں کھڑی ہے‘ اس کی آہ ‘اس کی ایک بددعا سے یہ پوری ریاست زمین بوس ہو سکتی ہے‘ آسمان سے قہر ٹوٹ سکتا ہے اور ان ظالموں پر نرم ہاتھ رکھنے اور احتجاج نہ کرنے والے بھی اس قہر کی زد میں آ سکتے ہیں۔ خدا کی پناہ ہے کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ کے مطابق تحقیقات تیس دن سے قبل مکمل نہیں ہو سکتیں۔ ظالمو! اسے اتنا بڑا واقعہ بنایا کس نے ؟ اور یہ اس وقت کیوں نہ سوچا جب تیس سیکنڈ میں پورے خاندان کو ایس ایم جی کی گولیوں سے خون اور بارود میں نہلایا جا رہا تھا۔ کم بختو! تب تین منٹ ہی سوچنے سمجھنے پر لگا دئیے ہوتے کہ ایکشن کیسے کرنا ہے ۔ اس وقت تو پھول مسلنے میں تیس سیکنڈ نہ لگائے اور اب تمہیں تیس دن چاہئیں؟ کیا اس لئے تاکہ خاندان کا غم و غصہ ٹھنڈا ہو جائے اور کوئی نیا بحران آ کر اس بحران کو مسل ڈالے۔ ایک آدھ گولی اِدھر سے اُدھر ہو جاتی تب بھی اتنی بات نہ بنتی لیکن تیرہ سالہ بچی اور اس کی والدہ کو تاک کر درجن بھر گولیاں مار دیں۔ کیوں؟ کیونکہ اگر وہ بچ جاتیں تو عدالت میں بیان دے دیتیں کہ موقع واردات پر اصل میں ہوا کیا تھا؟ ان کی شہادت مضبوط ترین شہادت شمار ہوتی۔ یہ تو اب پتہ چلا ہے کہ ان ظالموں نے تو تین چھوٹے بچوں کو بھی مار ڈالنا تھا مگر ماں ان پر جھک گئی اور ساری گولیاں اپنے بدن پر جھیل ڈالیں۔ عورت پر تو ہاتھ اٹھانے والا بھی بے غیرت مرد کہلاتا ہے تم نے تو ایک ماں اور اس کی بیٹی کا بدن چھلنی چھلنی کر دیا اور اوپر سے دو دن تک کہتے رہے کہ یہ سب دہشت گرد تھے اور اگر راہگیروں کی ویڈیوز نہ آتیں تو تم نے تو فیڈر میں موجود دودھ کو بھی بارود ثابت کر دینا تھا۔ یہ سیدھی سیدھی دہشت گردی تھی اور دہشت گردوں نے خلیل اور اس کی بیوی اور بیٹی کو نہیں بلکہ اپنے بھائی اپنی ماں اور اپنی بیٹی کو قتل کیا ہے۔ انہوںنے تو برسٹ کے برسٹ چلا ڈالے لیکن مارنے والے سے بچانے والا بڑا تھا جس نے تین ننھے پھولوں کو بچا لیا۔ ویسے ان تینوں بچوں کی زندگی موت سے بھی زیادہ دردناک ہو گئی ہے۔ وہ ہر پل جئیں گے ہر پل مریں گے۔ نہ جانے ماں کے بغیر زندگی کیسے گزرے گی۔ کیسے یہ غم بھرے گا۔ چار برس قبل میری ماں کا انتقال ہوا۔ آج تک صدمہ ختم نہیں ہوا۔ کوئی لمحہ ایسا نہیں جب ان کی یاد دل سے جاتی ہو۔ قدرتی اموات تو پھر برداشت ہو جاتی ہیں لیکن اس طر ز کی درندگی؟ وہ بھی ہمارے دئیے گئے ٹیکسوں سے خریدی گئی گولیوں سے؟ کیا انہیں تنخواہیں اس لئے دی جاتی ہیں کہ وہ آ کر ہمارے بچوں کو دن دہاڑے یتیم کر دیں؟ کسی نے کہا سی ٹی ڈی کے سربراہ رائے اعجاز نے گزشتہ دنوں برطانیہ سے کائونٹر ٹیررازم کا کورس مکمل کیا۔ کیا اس کورس میں یہ سکھایا گیا تھا جو کچھ ساہیوال میں لاگو کیا گیا؟ کیا اس سانحے کے ذمہ دار صرف گولیاں چلانے والے پولیس والے ہیں؟ انہیں جو ہدایات دی گئیں وہ سامنے آنی چاہئیں۔ جنہوں نے دیں وہ سامنے لائیں جائیں۔ یہ اہلکار خود سے ایسی درندگی نہیں کر سکتے۔ معلومات دینے والے‘ ایکشن ٹیم کی تربیت کرنے والے سبھی کٹہرے میں لائے جائیں کہ یہ بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔جس طرح سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد اس وقت کی حکومت کا پہیہ اُلٹا چل پڑا تھا اور تنزیلہ اور شازیہ کی تیرہ سالہ بچی نے اس وقت کے حکمرانوں کو بددعائیں دی تھیں اس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے اورآج پانچ برس بعد تاریخ پھر اسی موڑ پر لے آئی ہے۔ یہ مقدمہ فوجی عدالت میں جانا چاہیے۔ اس سے کم پر اتفاق نہیں ہو سکتا۔ جو ابھی کہہ رہے ہیں کہ موقع پر بننے والی ساری ویڈیوز جعلی اور عینی شاہد جھوٹے ہیں ان سے انصاف کی توقع کسے ہے۔رہی بات ذیشان کی تو اب تک اس کی ایک تصویر پر اسے دہشت گرد ثابت کیا جا رہا ہے تو کیا اگر سانحے کی ویڈیوز جھوٹی ہیں تو یہ تصویر فوٹو شاپ نہیں ہو سکتی؟ چلیں فرض کر لیں اگر ذیشان واقعی گنہگار تھا بھی تو اسے زندہ گرفتار کرنا کون سا مشکل تھا۔ پولیس مقابلے میں مارنا قتل عمد ہے۔ اس کی سزا خلیل کے خاندان اور عمر بھر کے لئے انتقام اور غم کی آگ میں جھلسنے والے بچوں کو کیوں دی گئی۔ خدا کا خوف کیجئے۔ یہ حکومتیں‘ یہ اختیار‘ یہ جاہ و جلال آنے جانے والے ہیں۔ پہلے بھی بہت آئے بہت گئے‘ بڑے بڑے بول بولنے والے آج کہاں ہیں۔ مکے لہرانے والے آج اپنی سرزمین پر قدم رکھنے کے قابل نہیں۔ذرا سوچیں انہوں نے ایسا کیا کیا تھا جو تذلیل ان کا مقدر ٹھہری۔ انہیں بھی مظلوموں کی آہیں لے ڈوبیں۔
میں نہیں مانتا یہ واقعہ غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔ سی ٹی ڈی اتنی سادہ نہیں۔ کہانی کچھ اور ہے۔ ممکن ہے موجودہ حکومت پر داغ لگانا اور عوام کی نظروں میں گرانا اصل مقصد ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ صوبائی اتحادی قوتیں پہلے سے موجود صوبائی سربراہوں سے بدظن کر کے طاقت کا مرکز اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہوں وگرنہ ٹی وی دیکھنے والے بچے بچے کو پتہ ہے کہ کسی ایسی مشکوک گاڑی کو کیسے ہینڈل کیا جاتا ہے۔ فیس بک پر ایسی لاتعداد ویڈیوز آتی ہیں جن میں جدید ممالک میں کسی دہشت گرد‘ کسی چور اچکے کی گاڑی کا پیچھا کیا جاتا ہے‘ کس طرح گاڑی روکی جاتی ہے اور ملزم کو تھکا کر گاڑی سے باہر نکلنے اور سر پر ہاتھ رکھ کر زمین پر الٹا لیٹنے کا حکم دیا جاتا ہے اور جب تک وہ گولی نہ چلائے تب تک پولیس کی جانب سے گولی نہیں چلائی جاتی لیکن یہاں تو ایس او پیز کی دھجیاں اڑا دی گئیں اور فائرنگ کا آخری حربہ پہلے نمبر پر آزما لیا گیا۔لیکن اگر اس سانحے کے پیچھے کوئی سازش نہ نکلی اورسانحات کو یونہی غلط انداز میں ہینڈل کیا جاتا رہا تو پھر ہو گیا امن و امان اور بن گیا نیا پاکستان!
پس نوشت: قطر سے واپسی ہو چکی۔ وزیراعظم عمران خان فوری غمزدہ خاندانوں کے گھر جا کر اظہارِ افسوس کریں‘ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا لائحہ عمل واضح کریں اور سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کرانے کا اعلان کریں تاکہ مظلوم خاندان کی صحیح معنوں میں داد رسی ہو سکے کہ انہی غریب عوام کے ووٹوں سے وہ اس ملک کے وزیراعظم بنے ہیں۔