کیلیفورنیا میں مارشل نامی بڑھئی رہتا تھا۔ ایک دن اسے زمین پر چھوٹا سا زرد پتھر دکھائی دیا۔ اس نے وہ پتھر ابلتے ہوئے پانی میں ڈال دیا۔ دو گھنٹے بعد وہ پتھر شیر کی آنکھوں کی طرح چمکنے لگا۔ مارشل نے پتھر اٹھایا اور علاقے کے سب سے بڑے جاگیردار جون اے سوتر کے پاس لے گیا۔ پتھر کو دیکھ کر سوتر کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ پہچان گیا کہ یہ عام پتھر نہیں بلکہ خالص سونا ہے۔ سوتر کی زمینیں اور جاگیریںکئی قصبوں تک پھیلی ہوئی تھیں‘ یوں وہ ان زمینوں میں موجود لاکھوں ٹن سونے کا مالک بن چکاتھا۔ سوتر کے پاس ضرورت کی ہر چیز موجود تھی لیکن سونا دیکھ کر اس کی رال بہنے لگی۔ بڑھئی کو بھی اپنے خواب شرمندہ تعبیر ہوتے نظرآئے اور اس نے بھی کام کاج چھوڑ کر سونا اکٹھاکرنے کا فیصلہ کر لیا۔ دونوںسمجھ رہے تھے کہ اب ان کی زندگی خوشیوں سے بھر جائے گی اور وہ پیسے سے سکون‘ آرام اور خوشی سب کچھ خرید لیں گے۔ انہوں نے طے کر لیا کہ دونوں ہی اس سونے کے مالک بنیں گے اور کسی اور کو ایک ڈلی بھی نہ دیں گے۔ لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ یہ راز لوگوں کو بھی معلوم ہوگیا اورانہوں نے سونے کے لالچ میں سارے کام چھوڑ دئیے۔ لوگ سارا سارا دن زمینیں کھودتے رہتے اور ہزاروں پونڈ سونا نکالنے میں کامیاب ہو جاتے۔ آہستہ آہستہ یہ خبر سارے امریکہ میں پھیل گئی۔ مزدوروں نے مزدوری چھوڑ دی‘ دکانداروں نے دکانیں بند کر دیں اورسپاہی فوج سے بھاگ کر آ گئے۔ ایک ہجوم سوتر کی جاگیر پر جمع ہو گیا‘ یہ لوگ سونے کی تلاش میں سوتر کے سرسبز کھیتوں کو پائوں تلے روندتے‘ اس کے مویشی ہلاک کرتے اور ان کا گوشت کھا جاتے۔ سونا حاصل کرنے کے بعد ہر شخص کے پاس بے انتہا رقم جمع ہو گئی اور انہوں نے سوتر کی جاگیر پر بغیر اجازت مکان تعمیر کرنا شروع کر دئیے۔ وہ اتنے طاقتور ہو گئے کہ جاگیردار کی زمین کی بھی کھلے بندوں خریدوفروخت کرنے لگے۔ جب کیلیفورنیا کو امریکہ میں شامل کر لیا گیا تو وہاں کے بحران زدہ علاقوں پر قانون کا دور دورہ ہو گیا۔ تب سوتر نے ناجائز قابضین کیخلاف تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہ دائر کردیا۔ عدالت نے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس سنسنی خیز فیصلے پر یہ لوگ مشتعل ہو گئے۔ انہوں نے بندوقیں‘ کلہاڑے اور مشعلیں اٹھائیں‘ گلیوں بازاروں میں نکل آئے اور قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر دیا۔ انہوں نے عدالت کو آگ لگا دی‘ تمام دستاویزات جلا دیں اور جج کوپھانسی دینے کی کوشش کی۔ پھر انہوں نے سوتر کے مکان کے نیچے بارود رکھ کر اسے دھماکے سے اڑا دیا‘ اس کا سارا سونا لوٹ لیا اور اس کے مویشیوں کو گولیاں مار دیں۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے سوتر کا ایک بیٹا بھی ہلاک کر دیا‘ دوسرے کو خودکشی پر مجبور کر دیا اور تیسرا فرار ہونے کی کوشش میں سمندر میں ڈوب گیا۔ اپنی جاگیر کھو کر اوربیٹوں کو مرتا دیکھ کر سوتردماغی توازن کھو بیٹھا اور ایک روز واشنگٹن کے ایک تاریک کمرے میں وفات پا گیا۔ مرتے وقت سوتر کی جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہ تھی۔ اس کہانی کا دوسرا مرکزی کردار بڑھئی تھا‘ جس کی دریافت سے لوگوں نے کروڑوں پونڈ بنائے تھے‘ لیکن سوتر کی طرح بڑھئی کیلئے بھی یہ سونا بربادی کی وجہ بن گیا۔ سوتر کی طرح مارشل بھی مفلسی کی موت مر گیا اورآخری عمر میں اپنے لئے کفن کے پیسے بھی نہ چھوڑ کر گیا۔
سوتر اور مارشل کی کہانی ان لوگوں کیلئے ایک مثال ہے جو ساری زندگی دولت جمع کرتے کرتے تھک جاتے ہیں لیکن یہ دولت ان کے لئے وبال جان بن جاتی ہے اور ان کا بڑھاپا اسی دولت کی وجہ سے بے سکونی اور عبرت کا نشان ہو جاتا ہے اور وہ اسی دولت کی وجہ سے ذلت کی موت تک مر جاتے ہیں۔ دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سکون اور دولت کے تعلق کو جوانی میں سمجھ جاتے ہیں اور ساری زندگی دولت کے پیچھے بھاگنے اور کئی نسلوں کیلئے دولت جمع کرنے کی بجائے میانہ روی میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی میکسیکو کے ایک ملاح کی ہے جو زندگی کو بھرپور انجوائے کرنے کا گُر جانتا تھا۔ ایک مرتبہ اس ملاح کے گائوں میں ایک سیاح تفریح کیلئے پہنچا اور کشتی میں سوار ہو گیا۔ کشتی گہرے پانی میں پہنچی تو ملاح نے کشتی روک کر ایک چھوٹا سا جال نکالا‘ اسے کھولا اور پانی میں اچھال دیا۔ سیاح بڑے انہماک سے اسے ایسا کرتے دیکھ رہا تھا۔ بولا‘ ''یہ کام بہت محنت طلب ہے‘ تم اس سے حاصل کیا کرتے ہو؟‘‘ ملاح مسکرایا اور بولا‘ ''بہت کچھ‘ اتنا کچھ کہ تم اندازہ نہیں کر سکتے‘‘۔ سیاح نے ملاح کے میلے کچیلے کپڑوں کی جانب نگاہ ڈالی اور پوچھا‘ ''تم کتنا وقت جال پانی میں ڈالتے ہو‘‘۔ ملاح بولا‘ ''کوئی پانچ چھ گھنٹے‘‘۔ سیاح بہت حیران ہوا‘ بولا‘ ''اتنا کم وقت لگائو گے تو ڈھیر ساری مچھلیاں اور ڈھیر سارا پیسہ کیسے کمائو گے‘‘۔ ملاح خاموشی سے سیاح کی بات سن رہا تھا۔ اس کی نظر جال پر تھی جو پانی کی بانہوں میں بچھا ہوا تھا۔ وہ بولا‘ ''میں جتنا بھی کماتا ہوں یہ میری اور فیملی کی ضروریات کیلئے کافی ہے‘ ہم اس میں بہترین گزارہ کر رہے ہیں‘ ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں یہ خوشیاں پانے کیلئے میرا اتنا ہی وقت کافی ہے جتنا میں دے رہا ہوں‘‘۔ ملاح نے اپنی بات جاری رکھی‘ ''میں سورج نکلنے سے پہلے اٹھتا ہوں‘ جال اٹھاتا ہوں اور پانی میں نکل جاتا ہوں‘ جب سورج سوا نیزے پر ہوتا ہے میں جال سمیٹنا شروع کر دیتا ہوں‘ مچھلیاں لیکر بازار جاتا ہوں‘ ان کے عوض معقول دام حاصل کرتا ہوں اور واپس آ جاتا ہوں۔ میری بیوی دروازے پر میری منتظر ہوتی ہے‘ اس دوران بچے بھی سکول سے آ جاتے ہیں‘ وہ بھی کھانے میں شریک ہوتے ہیں‘ ہم ہر روز لذیذ مچھلی بھون کر کھاتے ہیں‘ اس کا ذائقہ اور خوشبو‘ دونوں للچا دینے والے ہوتے ہیں‘ بچے مچھلی چاول کے ساتھ جبکہ میری بیوی اور میں تلوں والے نان اور پودینے کی چٹنی کے ساتھ پسند کرتے ہیں‘ شام کو ہم گائوں میں نکلتے ہیں‘ میں اپنے دوستوں کے ساتھ گٹار بجاتا ہوں‘ ہم ہر مرتبہ نئی دھنیں بجاتے ہیں‘ کبھی کبھار ہم مقابلہ بھی کرتے ہیں اور جیتنے والے کو پول کرکے رقم دیتے ہیں۔ اس رقم سے وہ ہم سب کی ایک شاندار دعوت کرتا ہے‘ رات کو ہم پانی کی دلکش لہروں کو دیکھتے ہیں‘ ان کی آوازیں مسحور کن ہوتی ہیں‘ ہم دائرے کی شکل میں بیٹھ جاتے ہیں‘ کافی کے سپ لیتے ہیں اور تاش کھیلتے ہیں‘ اتنی دیر میں ہمارے بیوی بچے بھی آ جاتے ہیں‘ ہم سب مل کر خوشی کے گیت گاتے ہیں اور پھر گھر جا کر سو جاتے ہیں‘ ہماری یہی چھوٹی سی زندگی ہمارا سب کچھ ہے‘‘۔ سیاح بولا‘ ''مگر میں تم سے متفق نہیں‘ میں امریکہ کی بہترین یونیورسٹی ہارورڈ سے کاروباری ڈگری لے چکا ہوں‘ میرا مشورہ مانو تو صبح سے شام تک مچھلیاں پکڑا کرو‘ اس طرح کچھ فالتو مچھلیاں بیچ کر اضافی پیسے کما لو گے اور ان اضافی پیسوں سے ایک بڑی کشتی خرید سکو گے‘‘۔ ملاح نے بڑی بیتابی سے پوچھا‘ ''بڑی کشتی‘ پھر‘ پھر کیا ہو گا؟‘‘ سیاح بولا‘ ''بڑی کشتی ہو گی تو جال بھی بڑا ہو گا اور جال بڑا ہو گا تو مچھلیاں بھی زیادہ آئیں گی اور زیادہ مچھلیاں آئیں گی تو تمہیں کہیں زیادہ رقم ملے گی اور تم بلینیئر بن جائو گے‘‘۔ ''بلینیئر!!‘‘ ملاح نے چیخ کر پوچھا۔ سیاح نے جواب دیا‘ ''ہاں بلینیئر‘ ایک معمولی فشرمین سے امریکہ کا بلینیئر‘‘۔ ملاح بولا‘ ''اچھا‘ تو اس کے بعد کیا ہو گا‘‘ سیاح بولا‘ ''اس کے بعد تم ریٹائر ہو جانا اور کسی دریا کے پاس کسی چھوٹے سے پرسکون گائوں میں رہائش کر لینا‘ رات کو جب مرضی سونا‘ بچوں کو وقت دینا‘ بیوی کے ساتھ اٹکھیلیاں کرنا‘ دوستوں کے ساتھ آئوٹنگ کرنا‘ گپ شپ کرنا اور لائف کو بھرپور انجوائے کرنا‘‘۔ ملاح پر اعتماد لہجے میں بولا‘ ''تو تمہارا کیا خیال ہے میں اس وقت کیا کر رہا ہوں‘‘۔ یہ سن کر سیاح کا جوش ماند پڑ گیا۔ ملاح بولا‘ ''جو کچھ مجھے بیس پچیس سال بعد ملے گا وہ آج بھی میرے پاس ہے تو پھر میں پچیس سال کیونکر ضائع کروں‘‘۔
آپ خود بتائیں کامیاب کون ہے‘ دنیا بھر کے حکمران‘ سیاستدان‘ پراپرٹی ٹائیکونز اور اشرافیہ یا پھر میکسیکو کا وہ ملاح جو مچھلیاں پکڑتا ہے اور اپنے پیاروں کے ساتھ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھرپور انداز میں انجوائے کر رہا ہے؟