جہاں تک پاکستانی طالب علموں کی بات ہے تو یہ اس وقت پوری دنیا میں اپنا نام روشن کر رہے ہیں۔ آئے روز اس حوالے سے کوئی نہ کوئی اچھوتی خبر سامنے آ جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں امریکہ میں پاکستانی نوجوانوں نے بیس لاکھ روپے لاگت والا وینٹی لیٹر تین لاکھ میں بنا لیا۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اچھی اور مثبت خبریں اس انداز سے اجاگر نہیں ہوتیں‘ جس طرح ہونی چاہئیں‘ جبکہ بھارت میں نوجوانوں کی بالخصوص ٹیکنالوجی اور سائنس کے میدان میں حاصل کی گئی چھوٹی سے چھوٹی کامیابی کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت صرف کمپیوٹر اور اس سے جڑی مشینری کی برآمدات کی مد میں سالانہ بیس ارب ڈالر ‘ گاڑیوں کی برآمد ات کی مد میں اٹھارہ ارب ڈالر اور فارما سیوٹیکل آلات کی مد میں چودہ ارب ڈالر کما رہا ہے۔ یہ 190ممالک کو ساڑھے سات ہزار مصنوعات بنا کر برآمد کر رہا ہے‘ جبکہ اس کی کل برآمدات تین سو ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہیں۔ پاکستان؛ اگرچہ بھارت کے مقابلے میں چھوٹا ملک ہے‘ لیکن اس کی برآمدات اس کی آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کئی گنا کم ہیں۔سنگاپور تو پاکستان کے شہر کراچی سے بھی چھوٹا ملک ہے لیکن اس کی برآمدات چار سو ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہیں اور اس کی وجہ وہاں کا تعلیمی معیار‘ بہترین یونیورسٹیاں اور برقرار رہنے والی معاشی پالیسیاں ہیں۔پاکستان میں اگرچہ رفتار سست ہے‘ لیکن اس کی سمت درست ہے اور اس کی تازہ مثال یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی ہے‘ جس کا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چند روز قبل افتتاح کیا۔اس طرح کی چند یونیورسٹیاں اور بن گئیں‘ تو پاکستان بھی تعلیم کے میدان میں جدید ممالک کی صف میں کھڑا نظر آئیگا۔
دوسرا مسئلہ جو فوری توجہ کا متقاضی ہے اور جس کی وجہ سے غریب طبقہ تو دور کی بات درمیانے طبقے کیلئے بھی بچوں کو پڑھانا مشکل ہو گیا ہے‘ وہ مہنگائی ہے۔اسی طرح تعلیم کا معیار کیا ہے‘ بچے صرف سکولوں میں وقت گزار رہے ہیں اور کیا وہ علم کے زیور سے واقعی مستفید ہو رہے ہیں‘ اس بارے میں والدین بھی لا علم اور اندھیرے میں ہیں اور متعلقہ محکمے تو آنکھیں ہی بند کیے ہوئے ہیں۔ ہمارے آئین میں تعلیم بنیادی حقوق میں شامل ہے ‘لیکن سرکاری سکولوں کا معیار اس حد تک گر چکا ہے کہ کوئی بھی پیسے والا یا سرکاری افسر سرکاری سکول میں بچے کو داخل نہیں کرواتا۔ اگر ایسا قانون بنا دیا جائے کہ جس میں سرکاری افسران کے لئے سرکاری سکولوں میں بچوں کے داخلے کو لازمی قرار دے دیا جائے تو چھ مہینے کے اندر اندر سرکاری سکولوں کا معیار بہترہو جائے۔ اب تو سرکاری سکولوں میں صرف چپڑاسیوں‘ مالیوں اور انتہائی غریب طبقے کے بچے ہی جاتے ہیں او ر ان میں سے ایک قلیل تعداد انتہائی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میٹرک میں اچھے نمبر بھی لے لیتی ہے‘ لیکن آگے کالج میں داخلہ اور تعلیمی اخراجات برداشت کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ ایک دریا پار کرتے ہیں تو ایک اور دریا ان کا منتظر ہوتا ہے۔کچھ کالج ایسے ہیں جو سکالر شپ آفر کرتے ہیں اور چند ہونہار غریب بچے ایسے کالجوں میں داخلہ لے لیتے ہیں لیکن شہر میں ہاسٹل‘ سفر‘ کتابوں اور طعام کے اخراجات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ ان کے لئے بعض اوقات سکالر شپ کے باوجود تعلیم جاری رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے طلبا کی پریشانیوں کا مسئلہ جلد از جلد حل ہونا چاہیے اورایسے ادارے بننے چاہئیں‘ جہاں پورے ملک سے نادار طالب علم نا صرف کالج سے یونیورسٹی تک مفت تعلیم حاصل کرسکیں بلکہ انہیں رہائش‘ طعام‘ کتب و دیگر متعلقہ سہولیات بھی مفت حاصل ہوں اورجہاں تمام مذاہب‘ صوبوں اور طبقات کے بچے زیرتعلیم ہوں۔ ہندو‘ سکھ‘ عیسائی‘ مسلمان سبھی ایک ہی جگہ پیاس بجھا رہے ہوں۔ دو سال قبل جب قصور کے قریب اخوت کالج کا افتتاح ہوا تو یہ پاکستان کی تاریخ میں ایک منفرد اور شاندار کارنامہ تھا‘ کیونکہ اس سے قبل ملکی تاریخ میں ایسے تعلیمی ماڈل کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ یونیورسٹی کے طلبا کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام ہوا تو بہت کچھ سننے سمجھنے کا موقع ملا۔ تھرپارکر‘ ڈیرہ غازی خان‘شمالی وزیرستان‘ سوات‘ گلگت بلتستان اور مظفرآباد کے دو دو بچے ہمارے سامنے بیٹھے تھے۔ یہ سب میٹرک میں اسی فیصد سے زیادہ نمبر لے کر آئے تھے۔ ہر صوبے کے کوٹے کے مطابق بچے یہاں داخل ہیں۔یہ بچے جب یہاں آئے تھے تو انہیں ٹھیک سے بات بھی کرنا نہ آتی تھی لیکن یہ بہت کم وقت میں بہت کچھ سیکھ گئے تھے۔ ان بچوں کو باتیں کرتے دیکھ کر میں نے سوچا کہ اگر انہیں موقع نہ ملتا تو یہ بچے وہیں اپنے علاقوں میں چھوٹی موٹی نوکری یا دیہاڑی کرتے کیونکہ جن علاقوں سے یہ بچے آئے ہیں وہاں پر کالج تو دور کی بات سکول بھی ٹھیک سے موجود نہیں۔ شمالی وزیرستان سے آئے بچے تو دہرے امتحان سے گزر چکے تھے۔ ان کے علاقے ایک عشرے تک دہشت گردی کی لپیٹ میں رہے۔ انہیں بارہا اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے۔ اس کے باوجود ان کے اندر سے تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کم یا ختم نہیں ہوئی۔ ان کے علاقے ابھی پوری طرح آباد نہیں ہوئے تاہم یہ پڑھ لکھ کر اپنے علاقوں کی خوشحالی کے لئے کام کرنے کی خواہش کا اظہار کررہے تھے۔
ایک ایسے ہی طالب علم نے صحافی یا اینکر بننے کی خواہش ظاہر کی تو سب نے حیران سے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ دیگر طالب علم تو ڈاکٹر‘انجینئر اور ٹیچر وغیرہ بننا چاہتے ہیں۔ پراعتماد لہجے میں وہ بولا : زیادہ تر اینکر بڑے شہروں میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے ہیں ‘ وہ مختلف ایشوز پر بات تو کرتے ہیں ‘لیکن پسماندہ ترین اور جنگ زدہ علاقوں کے بارے میں اس گہرائی سے مسائل اجاگر نہیں کرتے جس طرح وہاں کا کوئی مقامی شخص کر سکتا ہے۔ زیادہ تر تبصرہ سطحی انداز میں کیا جاتا ہے ۔ مقامی علاقوں سے جب کوئی طالب علم میڈیا میں آئے گا تو اس کا اپنا مقامی بیک گرائونڈ ہو گا‘ جس کی وجہ سے وہ مقامی مسائل کو بہتر انداز میں سامنے لا سکے گا۔ ایک دو اور طالب علم جو ڈاکٹر بننا چاہتے تھے ان کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب اور دیگر دور دراز علاقوں میں ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے۔ کوئی بھی ڈاکٹر وہاں جانے کو تیار نہیں ہوتا اور مقامی لوگوں کی زندگی ڈسپنسر نما ڈاکٹروں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔ جو انجینئر بننا چاہتے تھے ان کی خواہش تھی کہ ان کے علاقے میں اچھی سڑکیں‘ پل اور سیوریج کے نظام بنیں۔ ان کا کہنا تھا جب تک بہترین انفراسٹرکچر میسر نہیں ہوتا پسماندہ علاقے ترقی نہیں کر سکتے۔ منڈیوں سے شہروںتک سڑکیں اور مقامی صنعتوں کا قیام ہو تاکہ مقامی آبادی کو ان کے علاقے میں روزگار مل سکے۔ طالب علموں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ پسماندہ علاقوں میں تعلیمی وسائل اور روزگار کے مواقعوں کی عدم موجودگی انتہا پسندی اور جرائم کو جنم دے رہی ہے جس طرف حکومت کو توجہ دینی چاہیے۔یہ تمام بچے بنیادی طور پر اپنے اپنے علاقوں کے سفیر تھے اور جب یہ کامیابی کی شاہراہ پر چل پڑیں گے تو پاکستان کی پہچان بنیں گے۔
بہت سے لوگ اس بات پر بھی مغالطے کا شکار ہیں کہ وہی یونیورسٹی بہت اچھی ہوتی ہے جس کا کیمپس کئی سو ایکڑوں پر محیط ہو۔ اگر آپ دنیا کے تکنیکی تعلیم کے ایک سرکردہ مرکز میسا چیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کو دیکھیں تو اس کا کیمپس مختلف عمارتوں میں منقسم ہے۔ کسی شعبے کے چند کمرے کسی عمارت میں تو اس سے دو گلیاں چھوڑ کر مزید کمرے ایک اور عمارت میں قائم ہیں‘ تاہم یہاں سے ماہرین جو آئیڈیاز لے کر نکل رہے ہیں اور جس طرح انسانوں ‘ حیوانوں اور ماحول کے لئے آسانیوں پر مبنی ٹیکنالوجی اور حل پیش کر رہے ہیں‘ انہیں دیکھ کر اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ سب کچھ ایک منقسم قسم کے یونیورسٹی کیمپس میں ہو رہا ہے؛چنانچہ اگر ہم بھی آئندہ دس برس کے لئے تعلیم کے لئے خطیر بجٹ مختص اور مخصوص کر لیں اور پسماندہ علاقوں کو زیادہ اہمیت دینا شروع کر دیں تو ہمارے ملک کے آدھے مسائل تو یہی طالب علم اور نوجوان ہی حل کر دیں گے اور مجھے یقین ہے کہ جس طرح اخوت قرض سکیم کا ماڈل آکسفورڈ اور ہارورڈ جیسی یونیورسٹیوں میں بطور مثال پڑھایا جا رہا ہے ‘ ایک دن آئے گا جب یہ طالب علم یہاں سے نکل کر دنیا بھر میں کامیابی کے جھنڈے گاڑیں گے تو اخوت کا تعلیمی ماڈل بھی دنیا کی عالمی یونیورسٹیوں میں بطور مثال پڑھایا جائے گا اور پاکستان یونیورسٹیوں کے حوالے سے پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن جائے گا۔