ایک اطلاع کے مطابق امریکی انتظامیہ نے خصوصی طور پر انتہائی چھوٹے مگر نگرانی کا تیز ترین نظام رکھنے والے نو ہزار ڈرونز کی خریداری کا آرڈر دے دیا ہے جو بہت جلد افغانستان میں امریکی افواج کو دے دئیے جائیں گے۔ فلربلیک ہارنٹ تھری نامی دو کیمروں والے ان ڈرونز کی مدد سے میدان جنگ میں موجود فوجی اپنے اہداف پر کڑی نظر رکھ سکیں گے اور خود پر ہونے والے حملوں سے پیشگی محفوظ رہنے کی صلاحیت حاصل کر لیں گے۔ یہ ڈرون دو کلومیٹر دور تک فضا میں خود کار طریقے سے پرواز کر سکتے ہیں اور دوران پرواز براہ راست ویڈیو اور تصاویر زمین پر بھجوانے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہر ڈرون فضا میں تیرہ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیس منٹ تک اڑان بھر سکتا ہے اور چھوٹے غاروں اور گڑھوں کے اندر گھس کر بھی تصاویر اور ویڈیوز بنا سکتا ہے۔ گلوبل پوزیشننگ سسٹم کی خصوصیت کے حامل یہ ڈرونز طوفان‘ تیز ہوا اور رات کے اندھیرے میں بھی بخوبی آپریشن سر انجام دے سکتے ہیں۔ امریکہ کی افواج کو افغانستان کے محاذ پر جن اچانک حملوں کا خدشہ رہتا ہے‘ ڈرونز ملنے کے بعد ان میں خاصی کمی آ جائے گی کیونکہ انہیں بہت سی معلومات پیشگی میسر ہوں گی۔ امریکی فوج جانی نقصانات کو کم سے کم سطح پر رکھنے کے لئے ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ انحصار کر رہی ہے۔ ہر روایتی ہتھیار کو ٹیکنالوجی سے منسلک کرنے پر کام جاری ہے اور ہر قسم کے خود کار ہتھیاروں کو لیزر‘ جی پی ایس اور انٹرنیٹ سے منسلک کیا جا رہا ہے۔ ہتھیاروں کو انٹرنیٹ سے منسلک کرنے کا مقصد ان کی چوری یا گمشدگی پر انہیں ناکارہ بنانا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے حملوں میں جب امریکی فوجی مارے جاتے ہیں تو طالبان ان کے اسلحے کو استعمال کرتے ہیں۔ اس استعمال کو انٹرنیٹ کے ذریعے روکنے کے لئے ٹیکنالوجی کی مدد لی جا رہی ہے تاکہ مخالفین کے قبضے میں جیسے ہی یہ ہتھیار آئیں‘ انہیں تکنیکی طور پر فوری ناکارہ بنایا جا سکے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ غیر ملکی فوجیوں میں موت کا خوف نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ یہ مسلمان ہی ہے جو شہادت کا نعرہ لگا کر میدان جنگ میں اترتا ہے۔ غازی ہوتا ہے تب بھی خوش اور شہید ہوتا ہے تو خود کو خوش نصیب سمجھتا ہے۔ کچھ ممالک کی افواج میں خود کشی کا رجحان پایا جاتا ہے‘ جیسے بھارتی افواج۔ اس کی وجہ نفسیاتی مسائل ہیں۔ بھارتی فوجیوں میں بھی جنگ کا جذبہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں زبردستی اور سزا کے طور پر ان کی مرضی کے خلاف جنگ میں دھکیلا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں درجنوں بھارتی فوجی خود کو گولی مار کو یعنی خود کشی کر کے جہنم واصل ہو چکے ہیں‘ کیونکہ انہیں ایک ایسی جنگ میں دھکا دیا جاتا ہے جس کا ان کے نزدیک کوئی مطلب مقصد نہیں ہے۔ انہیں مخالفین کی بہو بیٹیوں‘ نوجوانوں اور بچوں پر مظالم ڈھانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ مخالفین پر ظلم ڈھاتے وقت لا محالہ ان کے ذہن میں اپنے بیوی بچے بھی آتے ہوں گے۔ اسی وجہ سے وہ نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں۔ ان کی نسبت امریکی افواج کے پاس زیادہ جدید اسلحہ اور دیگر سازوسامان ہے‘ اس کے باوجود وہ افغانستان کی سرزمین پر اب تک کامیاب نہیں ہو سکے اور اب بھی نئے سہاروں کی تلاش میں ہیں‘ جیسے یہ ڈرونز۔ آج بھی انہیں اتنی ہی مزاحمت کا سامنا ہے جتنا کہ دس برس قبل۔
اپنے فوجیوں کے جنگ کے اس کمزور جذبے کو دیکھتے ہوئے واشنگٹن نے متبادل جنگی پالیسی پر غور اور تیاری شروع کر دی ہے‘ جس کے تحت فوجیوں کو جنگی محاذ پر بھیجنے کی بجائے کنٹرول سنٹرز سے ہی جنگ لڑنے کی حکمت عملی وضع کی جا رہی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ویڈیو گیم کھیلتے ہوئے دشمنوں کے ٹھکانوں پر بم گرائے جاتے ہیں‘ اسی طرح کے طریقے اصلی جنگ میں آزمانے کے لئے کام کیا جا رہا ہے۔ افغان جنگ میں فضائی حملے خاصی حد تک اسی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر کئے گئے‘ لیکن مکمل کامیابی اس وقت تک نہیں ملتی جب تک زمین پر فوج موجود اور مستحکم صورتحال میں نہ ہو۔ اسی استحکام کے حصول کے لئے واشنگٹن انتظامیہ نے ایسے جنگی روبوٹ بھی تیار کرنے شروع کر دئیے ہیں جو عام فوجیوں کی طرح زمین پر مخالفین سے لڑیں گے۔ انہیں نقصان سے بچانے کے لئے ان پر مختلف قسم کی شیلڈز چڑھائی جائیں گی تاکہ یہ گولیوں سے محفوظ رہ سکیں۔ حتیٰ کہ ایسے روبوٹ بھی تیاری کے مراحل میں ہیں جن پر چھوٹا موٹا بم یا راکٹ اثر نہیں کرتا۔ ایسے روبوٹ آرٹی فیشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت کے ساتھ ساتھ کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹرز سے براہ راست منسلک ہوں گے۔ اس جدید جنگی پالیسی کے مطابق کسی بھی جگہ پر حملہ کرنا ہو گا تو سب سے پہلے اس جگہ پر فضائی ڈرون یا ہوائی جہاز سے میزائل حملہ کیا جائے گا۔ اس کے بعد یہ جنگی روبوٹ ایک قطار کی صورت میں آگے بڑھیں گے جبکہ انسانی فوجی دستے ان کے پیچھے ہوں گے۔ ان جنگی روبوٹس پر مخالف سمت سے گولیاں برسانے والوں کے ٹھکانوں کی اطلاع وہ ڈرون براہ راست ویڈیو اور تصاویر کی شکل میں کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر میں کرے گا‘ جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا۔ نشاندہی پر فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ روبوٹس کی جانب سے گولیاں اور چھوٹے راکٹ فائر کئے جائیں گے اور یوں اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے لئے ٹیکنالوجی کا بھرپور سہارا لیا جائے گا تاکہ انسانی نقصان کم سے کم ہو سکے۔
فی الوقت روبوٹس مختلف اشکال میں دنیا کی کئی ملٹری قوتوں کے زیر استعمال ہیں۔ یہ میدانِ جنگ میں زیرِ زمین بارودی سرنگوں کا پتہ چلاتے ہیں‘ فوجی دستوں کو آگے بڑھنے کے لئے شیلڈ فراہم کرتے ہیں‘ انہیں اسلحہ اور بارودی مواد پہنچاتے ہیں اور ان کے لئے جاسوسی کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ ٹیکنالوجی جس طرح زندگی کے دیگر شعبوں میں تیزی سے سرایت کر رہی ہے‘ اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ صرف بیس سے تیس سال کے عرصے میں جنگوں کے انداز بھی مکمل طور پر بدل جائیں گے۔ ترقی پذیر ممالک معاشی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے روایتی جنگوں پر ہی انحصار کریں گے لیکن جدید ممالک بین البراعظمی جنگیں لڑنے کے قابل ہو جائیں گے۔ روبوٹس نہ صرف زمین پر جنگیں لڑیں گے بلکہ یہ ہیلی کاپٹر اور جہازوں کی طرح اڑ بھی سکیں گے اور اپنے اہداف کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی صلاحیت حاصل کر لیں گے۔ پہلے زمانوں میں اڑن طشتریوں کے جو افسانے گھڑے جاتے تھے‘ وہ سب اب حقیقت بننے والے ہیں۔ اس دنیا میں ٹیکنالوجی کا استعمال جتنا بڑھے گا اتنا ہی دنیا پر سے اعتماد اٹھ جائے گا کیونکہ ہر چیز کو وائرلیس‘ انٹرنیٹ اور جی پی ایس سے منسلک کرنے سے ہیکرز کا خطرہ بھی بڑھ جائے گا۔ جس طرح آج مخالف ممالک کی ویب سائٹ ہیک کر لی جاتی ہیں‘ اور ان پر مرضی کا مواد شامل کر دیا جاتا ہے اسی طرح ان روبوٹس کو بھی اگر ہیک کر لیا گیا اور ان کی گولیاں اور بم انہی کی فوج پر برسا دئیے گئے تو اس جنگ کا کیا نتیجہ نکلے گا‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ دنیا کا مستقبل روبوٹس کے ہاتھ میں دینے سے پہلے واشنگٹن اور دیگر طاقتوں کو یہ سوچنا ہو گا کہ کہیں دنیا کو فتح کرنے کی خواہش میں یہ روبوٹس اور یہ ٹیکنالوجی پوری دنیا کی تباہی کا باعث ہی نہ بن جائے کیونکہ اگر روبوٹس کو خود کار انداز میں کام کرنے کی اجازت دے دی گئی اور ان کی پروگرامنگ میں کوئی گڑبڑ واقع ہو گئی تو اس سے ہونے والے نقصان کی ذمہ داری کون اٹھائے گا؟ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ ٹیکنالوجی سے دنیا کو فتح کرنے کا خواب دیکھنے والے ان اربوں غریب لوگوں پر اپنا پیسہ اور توانائی خرچ کریں جنہیں دو وقت کی روٹی‘ صاف پانی‘ چھت اور کپڑے بھی میسر نہیں۔ میں روانڈا‘ افریقہ‘ ایتھوپیا کی بات نہیں کرتا‘ امریکہ انتظامیہ اگر اپنی ہی کئی ریاستوں میں سڑکوں پر سونے والے بے آسرا‘ بے حال افراد پر ایک نظر ڈال لے تو اسے اندازہ ہو جائے گا کہ دہشت گردی کا شور مچانے کے علاوہ بھی دنیا میں کئی مسائل موجود ہیں۔ نہ جانے اسے کب سمجھ آئے گی کہ انسانیت کی خدمت سے بڑی خدمت کوئی اور نہیں ہو سکتی اور جتنا پیسہ وہ جنگی ٹیکنالوجی اور دنیا کی تسخیر پر لگا رہا ہے‘ اس کا عشرِ عشیر بھی بیماریوں کے خاتمے‘ دوائوں کی ایجادات اور غربت میں کمی لانے پر لگا دے تو اس دنیا سے دہشت گردی‘ جرائم اور انتہا پسندی کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔