میٹرک کا رزلٹ دیکھ کر سبھی حیران ہیں۔ نمبروں کی لُوٹ سیل۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ گیارہ سو میں سے ایک ہزار بانوے نمبر کیسے آ جاتے ہیں۔ صرف آٹھ نمبرکم۔ یہ رٹا سسٹم کا کمال ہے یا پھر کھلی مارکنگ ہوئی ہے‘مسئلہ کچھ بھی ہو گزشتہ دس بارہ برس سے ہر سال ہر بورڈ کا یہی رزلٹ آ رہا ہے۔ مجھے یاد ہے آج سے اٹھائیس برس قبل ہم نے میٹرک کا امتحان دیا تو مارکنگ کتنی سخت تھی۔ اس وقت کل نمبر ساڑھے آٹھ سو ہوتے تھے۔ ایک نمبر پر آٹھ آٹھ دس دس امیدوار کامیاب ہوتے ۔ آج کل تو ایک نمبر پر سینکڑوں لڑکے کامیاب ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میرٹ بھی دن بدن اونچا ہی اُڑا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس ایک بچے نے نویں جماعت میں اردو کے پرچے کی ری مارکنگ کروانے کی درخواست دی۔ پرچے میں دیکھا تو ایک سوال میں دس کے دس نمبر کٹے ہوئے تھے ‘حالانکہ جواب بالکل درست تھا۔ کسی موضوع پر ایک کہانی لکھنی تھی اور لکھی بھی ٹھیک ہوئی تھی۔ چیلنج کیا گیا تو پتہ چلا کہ بچے نے کہانی اپنے الفاظ میں لکھی ہے لہٰذا ہوبہو کتاب کے الفاظ نہ لکھنے پر اس کے نمبر کاٹے گئے ہیں۔ ایسے میں بچہ تو سر پکڑ ہی لیتا ہے ماں باپ بھی توبہ توبہ کر اٹھتے ہیں۔
ہم کہنے کو اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں لیکن تعلیم کے معاملے میں شاید دو سو سال پیچھے ہیں۔ رٹا سسٹم کو فروغ دینے سے بیروزگاری کا سیلاب بھی امڈ آیا ہے۔ طالب علموں نے دماغ کو ایک طرف رکھ دیا ہے۔ نئی تخلیقی سوچ کہیں سے پیدا ہی نہیں ہو رہی۔ جو سوچنے کی کوشش کرتا ہے اسے دبا دیا جاتا ہے۔ میٹرک کے نتائج کی تقریب میں صوبائی وزیرمراد راس خود حیران تھے کہ کیسے اتنے زیادہ نمبر لئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ عندیہ دیا کہ اس نظام کو گریڈنگ سسٹم میں تبدیل کیا جائے گا جو بہرحال درست اقدام ہو گا۔ آپ دنیا کے جتنے بھی جدید ممالک کا تعلیمی نظام اٹھا کر دیکھ لیں‘ وہ سب رٹا سسٹم سے ہزاروں میل دور آ چکے ہیں۔ وہ بچوں کو لکھنے پڑھنے اور سوچنے کی آزادی دینا سکھاتے ہیں۔ ان کا نظام تعلیم کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ وہ ایک جماعت میں بچوں کے سامنے ایک کرسی میز کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر طالب علم اپنے اپنے الفاظ میں اس کرسی میز پر دس جملے لکھے۔ اب ہر طالب علم کا لکھنے کا اپنا اپنا انداز ہو گا۔ کوئی کرسی کا رنگ بتائے گا۔ اس کی بناوٹ کی بات کرے گا۔ کوئی میز کی خوبصورتی کا ذکر کر ے گا۔ یوں ہر طالب علم کے زندگی کے مشاہدات سامنے آئیں گے۔ جبکہ ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے۔ آپ کرسی اور میز پر دس جملے کتاب میں لکھ دیتے ہیں۔ بچے سارا سال یہ دس جملے چباتے گزار دیتے ہیں اور جو یہ دس فقرے فوٹوکاپی کی طرح امتحان میں جا کر لکھ دیتا ہے اسے پورے نمبر مل جاتے ہیں اور جو اپنے زاویے سے کچھ زیادہ یا کچھ کم میں بات مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ اس کے نمبر کاٹ لئے جاتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ انتہائی کم عمر میں بچوںکا سکول داخلہ ہے۔ پہلے بچوں کو پانچ برس کی عمر میں سکول داخل کروایا جاتا تھا۔ اب دو سال کے بچوں کو بھی داخلے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ جاپان میں تیسری جماعت تک بچوں کو کوئی نصابی یا درسی کتب نہیں پڑھائی جاتی بلکہ انہیں آداب اور اخلاقیات سکھائی جاتی ہیں۔انہیں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے بڑوں اور چھوٹوں کو کیسے سلام کرنا ہے۔ کھانا کیسے کھانا ہے‘ اساتذہ اور والدین کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے اور اپنی جسمانی اور ذہنی تربیت کا اہتمام کیسے کرنا ہے۔ ہمارے ہاں بچے ایم اے کر جاتے ہیں لیکن انہیں یہ چیزیں معلوم نہیں ہوتیں۔ کسی فائیو سٹار ہوٹل میں چلے جائیں تو انہیں کانٹے اور چھری کا استعمال نہیں آتا۔ حتیٰ کہ ٹائی تک لگانی نہیں آتی۔ فن لینڈ دنیا کے بہترین تعلیمی نظام کے باعث معروف ہے۔ یہاں ریاضی کے ایک استاد سے پوچھا گیا کہ آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں تو وہ بولے میں بچوں کو خوش رہنا اور خوش رکھنا سکھاتا ہوں کیونکہ اس طرح وہ زندگی کے سب سوال بآسانی حل کر سکتے ہیں۔ بچے اپنی ابتدائی زندگی میں جتنا زیادہ ذہنی دبائو کا شکار ہوں گے اس کے اثرات ان کی آنے والی زندگی پر بھی پڑیں گے۔ بچوں اور بڑوں کو جو چیزیں سکھائی جانی چاہئیں ان میں سب سے زیادہ ٹائم مینجمنٹ ہے۔ یہ ایسا مضمون یا پہلو ہے جس کی ہر انسان کوسمجھنے کی ضرورت ہے۔ وقت کا بہترین استعمال سیکھے بغیر کوئی شخص کسی بھی شعبے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ایک شخص کے پاس چھ گھنٹے ہیں اور اسے چھ اہم امور نمٹانے ہیں۔ اگر وہ ٹائم مینجمنٹ کے بنیادی اصولوں سے واقف ہو گا تو وہ چھ گھنٹوں میں نہ صرف چھ کے چھ کام مکمل کر لے گا بلکہ کچھ وقت بچانے کی بھی کوشش کرے گا۔ تاہم ایسا شخص جسے وقت کی اہمیت اور اس کے استعمال کا ادراک نہیں وہ پہلے تو چھ کاموں کی لسٹ کو دیکھ کر ہی گھبرا جائے گا۔ اس کی کوشش ہو گی کہ وہ یہ کہہ کر انکار کر دے کہ اتنے کم وقت میں تو اتنے کام نہیں ہو سکتے۔ وہ بے دلی سے آغاز کرے گا اور ایک دو کام ہی کر پائے گا کہ مقررہ وقت ختم ہو جائے گا۔
دوسرا اہم پہلو جو ہمارے طالب علموں کو سمجھنا ہے وہ ترجیحات کا تعین ہے۔ ہمیشہ وہ کام پہلے کریں جو زیادہ ضروری ہے۔ ہم لوگ بعض اوقات غیر ضروری کاموں کو خود سے ارجنٹ ڈکلیئر کر دیتے ہیں اور ان پر گھنٹوں ضائع کر دیتے ہیں۔آج کل وقت جتنا تیزی سے گزر رہا ہے کبھی نہ گزرا تھا۔ نیا سال شروع ہوتا ہے۔ لوگ نئے گول بناتے ہیں لیکن نوے فیصد لوگ سال کے ابتدائی پندرہ دنوںمیں ہی ان اہداف پر عمل کرتے ہیں۔ بعد میں وہ بھی جمود کا شکار ہو جاتے ہیں اور غیر اہم مصروفیات انہیں اپنے حصار میں لے لیتی ہیں۔ تیسرا اہم پہلو ناکامی کا خوف ہے۔ زیادہ تر بچے سمجھتے ہیں کہ سکولوں میں امتحان پاس کرنا ہی کامیابی ہے۔ وہ عملی زندگی کے لئے خود کو تیار کرتے ہیں نہ ہی ان کے والدین اس طرف کوئی توجہ دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو ایک نئی دنیا ان کے سامنے کھل جاتی ہے اور ان کے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں۔ناکام ہونا اتنی بری بات نہیں جتنا کہ ناکامی سے نہ سیکھنا ہے۔ ناکامی انسان کی کامیابی کی جانب دراصل پہلا قدم ہوتا ہے۔
فن لینڈ‘ سنگاپور اور جاپان‘ یہ تین ملک ایسے ہیں جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ متذکرہ بالا پہلوئوں پر ابتدا سے ہی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہاں کے طالب علم دنیا بھر کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں اور مناصب پر براجمان ہیں۔ وہ کھل کر آزادانہ فیصلے کر سکتے ہیں۔ ان میں جھجک نام کی کوئی چیز نہیں۔ وہ کسی بھی نئی اور اچانک صورتحال کا سامنا کر سکتے ہیں۔ نئے آئیڈیاز پیش کر سکتے ہیں اور مسائل کے حل کے لئے تجاویز پیش کر سکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں رٹہ سسٹم ایک ایسی فصل تیار کر رہا ہے جس میں بچوں کو ایک چھوٹے سے دائرے میں قید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انہیں کنوئیں سے باہر جھانکنے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے ان میں تخلیقی اور فیصلہ سازی کی صلاحیتیں نمودار نہیں ہو پاتیں۔ ایسے طلبا کو بعد ازاں اندرون و بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا رہتا ہے کیونکہ میٹرک اور ایف ایس سی کے بعد تعلیمی نظام یکسر بدل جاتا ہے۔ انہیں اسائنمنٹس بنانا ہوتی ہیں‘ پریذنٹیشنز تیار کرنا ہوتی ہیں اور کاپی پیسٹ کئے بغیر اپنی رائے اور اپنا نقطہ نظر پیش کرنا ہوگا ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ یہی کام شروع سے کر لیا جائے اور ابتدائی جماعتوں سے بچوں کے چیزوں کو سمجھ کر پڑھنے اور سیکھنے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں بچے نمبر تو لے جاتے ہیں لیکن دنیا سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں جس کا احساس انہیں عملی زندگی میں جا کر ہوتا ہے۔ اگر موجودہ حکومت تمام طبقات کی مشاورت سے ایک ایسا نظام لے آئے جس میں بچوں کو رٹہ لگانے سے نجات مل جائے اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں نمایاں ہو سکیں تو یہ ایک عظیم کاوش ہو گی۔