بات یقین سے شروع ہوئی اور یقین پر آ کر ختم ہو گئی۔ میرا دوست بضد رہا۔ اس کا خیال تھا کہ انسان کی کامیابی میں اس کا اپنا کوئی ہاتھ نہیں‘ اگر اس کی قسمت میں لکھا ہو گا تو وہ ضرور کامیاب ہو گا‘ ورنہ لاکھ کوشش کر لے کامیابی کے قریب بھی نہیں جا سکتا۔ میں اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کا اسے یقین ہوتا ہے۔ جس بات کا انسان کو یقین نہ ہو اور انسان بے دلی کا مظاہرہ کرے وہ چیز اسے حاصل نہیں ہوتی۔ میں نے اسے مثال دیتے ہوئے کہا‘ تم لاہور سے اسلام آباد جانا چاہتے ہو اگر تم جی ٹی روڈ یا موٹر وے پر اسلام آباد کی سمت میں سفر کرو گے تو تمہیں یقین ہو گا کہ تم چار پانچ گھنٹے میں اپنی منزل پر پہنچ جائو گے لیکن اگر تمہیں یہ یقین نہ ہو کہ یہ دونوں راستے اسلام آباد کی جانب جاتے ہیں تو تم سفر کر پائو گے اور نہ ہی منزل پر پہنچ سکو گے۔ میں نے کہا: یقین کیا ہے اس کی مثال قائد اعظم کے فرمودات کے حوالے سے دی جا سکتی ہے۔ اتحاد‘ یقین محکم‘ تنظیم۔ ہم قائد کا یہ فرمان بچپن سے سنتے آ رہے ہیں مگر کم لوگ ہی اس کو گہرائی میں جا کر دیکھتے ہیں۔ قائد اعظم اور ہماری زندگی کے مقاصد میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہم صبح اٹھتے ہیں‘ ناشتہ کرتے ہیں اور کام پر چلے جاتے ہیں۔ واپس آتے ہیں‘ بچوں سے کھیلتے ہیں‘ آئوٹنگ کرتے ہیں اور کھا پی کر سو جاتے ہیں۔ قائد کی زندگی اس سے بہت مختلف تھی۔ انہوں نے کروڑوں مسلمانوں کو ہندو کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے الگ ملک کا خواب دیکھا۔ اپنی صحت اور اپنی ساری زندگی اس خواب کی تعبیر پانے کیلئے دائو پر لگا دی۔ یہ خواب ایک تنہا شخص کس طرح پورا کر سکا؟ اس کے پیچھے انہی تین الفاظ کی طاقت تھی اتحاد‘ یقین اور تنظیم۔ قائد اعظم جانتے تھے کہ مسلمان کی سب سے بڑی دولت اس کا ایمان ہے۔ جو مسلمان اپنا ایمان بچا لیتا ہے خدا اسے ہر مشکل سے نکال لیتا ہے۔ یہ ایمان ہی ہے جو مسلمان کو جہنم کی بجائے جنت میں لے جانے کا باعث بنتا ہے اور یہ ایمان ہی ہے جس کی وجہ سے ایک مسلمان شہادت کو اپنے لئے اعزاز سمجھتا ہے۔ قائد جانتے تھے کہ ایمان کے ساتھ اتحاد بھی اتنا ہی ضروری ہے کیونکہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں‘ جس کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو دوسرا اس کی تکلیف محسوس کرتا ہے؛ چنانچہ قائد نے دوسرا درس جو بر صغیر کے مسلمانوں کو دیا‘ وہ اتحاد کا تھا۔ انہیں علم تھا ہندو کبھی بھی بر صغیر کی تقسیم نہیں چاہیں گے‘ وہ اس کے لئے ہر حد تک جائیں گے اور مسلمانوں میں انتشار اور تفرقہ پھیلانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ انہوں نے مسلمانوں کو یک جان ہو کر ایک جھنڈے تلے جمع کیا اور انہیں ایک زنجیر میں پرو دیا۔ تیسرا اور اہم ترین نکتہ جو جناح نے مسلمانوں کو سمجھایا وہ یقین محکم کا تھا۔ کوئی بھی مسلمان جو ایمان اور اتحاد کا مظاہرہ تو کرتا ہو لیکن اگر اسے یقین نہ ہو کہ اس کی سمت درست ہے‘ وہ کامیاب ہو جائے گا تو پھر اس کے نہ صرف قدم ڈگمگا جائیں گے بلکہ وہ اپنی منزل سے بھی بھٹک جائے گا۔ مومن کبھی بھی ڈبل مائنڈ کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ شرح صدر کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا۔ جب تک کسی فیصلے کے لئے اس کا سینہ نہیں کھلتا تب تک وہ اس جانب قدم نہیں اٹھاتا اور جب وہ الم نشرح پڑھ لیتا ہے تو اس کا سینہ کھل جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر کبھی وہ یقین کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ اسے یقین محکم اور یقین کامل ہوتا ہے کہ جس سمت میں اس نے قدم اٹھایا ہے وہ درست ہے اور اس راستے میں مشکلات اور تکلیفیں تو آ سکتی ہیں لیکن اسے یقین ہوتا ہے یہ رات ایک دن تمام ہو گی اور ایک خوشگوار صبح اس کا استقبال کرے گی؛ چنانچہ قائد اعظم نے جتنی بھی جدوجہد کی‘ جتنی بھی تقاریر اور جلسے کئے‘ مسلمانوں سے جتنی بھی ملاقاتیں کیں انہیں اس بات کا یقین دلایا کہ ایمان اور اتحاد کے ساتھ یقین کی طاقت سے ہی وہ نئے وطن کی تعبیر پا سکتے ہیں۔
آج صرف میرا دوست ہی نہیں ہر دوسرا شخص بے یقینی کا شکار ہے۔ بے یقینی سے کیا گیا کوئی کام بھی ڈھنگ سے مکمل نہیں ہو پاتا جبکہ یقین ایک ایسی قوت ہے جو انسان کو کامیابی کے بہت قریب کر دیتی ہے۔ آپ گھر سے دفتر جانے کے لئے نکلتے ہیں تو آپ کو یقین ہوتا ہے کہ آپ دفتر پہنچ جائیں گے اور یوں آپ روزانہ چند منٹ میں دفتر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے اس میں کبھی تعطل نہیں آیا۔ آپ نے اپنی اولاد کی اچھی تربیت کی ہے۔ کسی دن بچہ شام کو دیر تک گھر نہیں آتا۔ آپ کی بیوی پریشان ہے۔ آپ اسے یقین دلاتے ہیں بچہ کسی وجہ سے لیٹ ہو گیا ہو گا‘ ابھی آ جائے گا۔ آپ کو اپنی تربیت پر یقین ہے؛ چنانچہ آپ کو اپنے بچے پر بھی یقین اور اعتبار ہے کہ وہ کسی غلط سوسائٹی کا شکار نہیں ہوا ہو گا۔ یہ یقین آپ کی امیدوں کو اس وقت تک زندہ رکھتا ہے جب تک آپ کا بیٹا بخیر گھر نہیں آ جاتا۔ آپ کے پاس پرانی موٹر سائیکل ہے‘ پرانی گاڑی ہے اس میں بہت سی خرابیاں بھی ہیں جنہیں آپ بخوبی جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے آپ جب بھی کہیں جانے کے لئے نکلتے ہیں تو آپ کو یقین ہوتا ہے کہ یہ موٹرسائیکل‘ یہ گاڑی جیسی بھی ہے یہ مجھے اتنا خراب نہیں کرے گی کہ میں اپنی منزل پر بروقت نہ پہنچ سکوں۔ اس کے برعکس اگر آپ کا دوست آپ سے آپ کی وہی گاڑی یا بائیک مانگے اور آپ اسے بتائیں کہ اس میں فلاں فلاں خرابیاں ہیں تو ممکن ہے وہ اسے لے جانے سے انکار کر دے کیونکہ اسے یقین ہو گا کہ یہ خرابیاں اس کے سفر کو مشکل سے دوچار کر سکتی ہیں اس لئے وہ اس پر سفر کرنے سے ہی رُک جائے گا۔ یقین کی طاقت کے بغیر انسان ایک شہر سے دوسرے شہر تو کیا ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک بھی نہیں جا سکتا۔ اگر انسان کو یہ یقین ہو کہ دروازہ کھلتے ہی اس کا اگلا قدم ہوا یا کھائی میں ہو گا تو وہ کبھی بھی کمرے سے باہر نہ نکلے گا۔ یہ یقین ہی ہے جو دنیا کے تمام مذاہب کے انسانوں کو جینے کی امنگ دکھلاتا ہے۔ ایک مسلمان کو اس بات پر یقین ہے ایک دنیا یہ ہے اور اس کے بعد ایک اور زندگی اس کی منتظر ہے جہاں وہ دوبارہ اٹھایا جائے گا اور حساب و کتاب کے بعد جزا و سزا پائے گا۔ ہندو‘ عیسائی اور یہودی حتیٰ کہ دہریے بھی یقین کا کوئی نہ کوئی نظریہ رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ زندگی کے مختلف مراحل پورے کرتے ہیں۔ اگر ان مراحل کے درمیان سے یقین نکل جائے تو زندگیاں جامد ہو جائیں‘ کوئی بھی شخص اپنا کام ذمہ داری سے انجام نہ دے اور زندگی یونہی بے لگام‘ بے ہنگم اور بے سمت گزرنے لگے۔
زندگی کی باقی چیزوں کی طرح کاروبار بھی یقین کی بنیاد پر کامیاب یا ناکام ہوتے ہیں۔ آپ کوئی کاروبار شروع کرنے کا سوچتے ہیں اگر آپ کا ذہن آغاز میں ہی ایسے وسوسوں کا شکار ہو جائے کہ نجانے میرا کاروبار چلے گا یا نہیں‘ آج کل تو ہر طرف مندا ہے‘ یہ چیز تو ہزاروں اور لوگ بھی بیچ رہے ہیں یہ سارے ایسے خدشات ہیں جو آپ کو آگے بڑھنے سے روکیں گے اور اگر آپ ان کاروبار کے لوازمات اور تمام ضروریات پوری کر بھی چکے ہوں لیکن ان وہموں کا شکار ہو گئے تو پھر اس طرح کی کمزوری اور بے دلی کے ساتھ شروع کیا گیا کاروبار کبھی بھی نفع بخش اور نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا کیونکہ کاروبار ایک دن یا ایک رات میں کامیابی کا نام نہیں‘ اس میں آپ کو قدم قدم پر مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور جب تک آپ کو خود پر یقین نہیں ہو گا تب تک آپ ان مسائل کو شکست نہیں دے سکیں گے اور بالآخر ناکام ہو جائیں گے۔ کامیاب ہونے کے لئے آپ کو اسی طرح کا یقین رکھنا ہو گا جس طرح آپ زندگی کے دیگر شعبوں اور کاموں کیلئے رکھتے ہیں؛ چنانچہ اپنی زندگی میں یقین کی طاقت اپنانے کی عادت ڈالیں‘ یہ مسلمان کے ایمان کا لازمی جزو ہے‘ اس کے بغیر ایمان بھی مکمل نہیں ہوتا۔ یقین کے ساتھ کوئی قدم اٹھائیں‘ کوئی کام‘ کوئی کاروبار شروع کریں‘ پھر دیکھیں اللہ کیسے برکت ڈالتا ہے۔