"ACH" (space) message & send to 7575

ناکامیوں سے سیکھنا کتنا ضروری ہے؟

دنیا میں جتنے بھی کامیاب اور معروف بزنس مین‘ موجد‘ سائنسدان‘ استاد‘ صحافی‘ مصنف‘ شاعر‘ ادیب‘ کھلاڑی‘ اداکار‘ موسیقار اور گلوکار گزرے ہیں‘ ان میں سے کوئی بھی پہلی کوشش میں کامیاب نہیں ہوا۔ یہ سب اپنے اپنے کام سے جنون کی حد تک محبت کرتے تھے۔ وہ بھی ناکام ہوتے تھے لیکن وہ ہر ناکامی سے سیکھتے اور ایک نئے عزم اور جوش کے ساتھ اسی طرح مسلسل کوشش کرتے رہے جس طرح کوئی چیونٹی دیوار پر چڑھنے کی کوشش کرتی ہے لیکن بار بار پھسل کر گر جاتی ہے اور متعدد بار کوششوں کے بعد بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ 
آج کا نوجوان‘ جو پہلی ہی کوشش میں چاند پر جست لگانا چاہتا ہے‘ چند مثالیں دیکھ لے اور پھر فیصلہ کرے کہ کیا وہ اس طرح کامیابی کی کوشش کرتا ہے جس طرح یہ لوگ کیا کرتے تھے۔ وہ ہنری فورڈ کو دیکھ لے جو گاڑیوں کے کاروبار میں پانچ مرتبہ ناکام اور دیوالیہ تک ہو گیا تھا لیکن اس کی چھٹی کوشش نے امریکہ میں سب سے بڑی کمپنی فورڈ گاڑیوں کی بنیاد رکھ دی۔ امریکہ میں آر ایچ میسی کو کون نہیں جانتا۔ اسے ابتدا میں سات مرتبہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا لیکن آٹھویں بار نیویارک میں بالآخر اس نے میسی گارمنٹس سٹور کا کامیابی سے آغاز کر دیا اور میسی امریکہ کا سب سے بڑا گارمنٹس برانڈ بن گیا۔ ایف ایچ وول ورتھ امریکہ میں ڈیپارٹمنٹل سٹورز کی سے بڑی چین شروع کرنے سے قبل ایک دکان میں ملازم تھا اور اس کا مالک بہانے بہانے سے اس کے پیسے کاٹ لیتا تھا لیکن وہ بہرحال ایک ملازم سے مالک بنا۔ سوئچر ہنڈا کی ٹویوٹا موٹرز میں نوکری کی درخواست کو مسترد کیاگیا۔ اس نے قرضہ لیا اور گھر میں سکوٹر بنانے شروع کر دئیے اور یوں ہنڈا موٹرز کا آغاز ہوا۔ اکیوتا نے پریشر ککر بنائے۔ یہ ناکام ہوگئے لیکن اسی نے بعد ازاں سونی کارپوریشن کی ایمپائر کھڑی کر دی۔ کمپیوٹر کی دنیا کا رخ موڑنے والے بل گیٹس کو ہارورڈ یونیورسٹی سے نکالا گیا تھا۔ اس کا پہلا بزنس بھی پال ایلن کے ساتھ فلاپ ہوا لیکن اگلی کوشش مائیکروسافٹ کی تھی جس نے اسے دنیا کا امیر ترین شخص بنا دیا۔ ہارلینڈ ڈیوڈ سینڈر کی مرغی تلنے کی ترکیب ایک ہزار نو ہوٹلوں نے رد کی تھی لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور اگلے ریستوران نے اسے موقع دے دیا اور یوں کینٹکی فرائیڈ چکن کا آغاز ہو گیا۔ والٹ ڈزنی کو ایک اخبارسے اس لئے نکال دیا گیا کہ اس کے پاس تخلیقی آئیڈیاز نہ تھے۔ آئن سٹائن چار برس کی عمر تک ایک لفظ نہ بول سکا تھا‘ اسے سکول سے نکالا گیا اور کئی برس تک اسے داخلہ نہ ملا۔ اسی شخص نے فزکس کی دنیا کا رخ موڑ دیا اور نوبیل پرائز لیا۔ رابرٹ گوڈرڈ خلائی جہاز کے راکٹ کا موجد تھا لیکن کالج کے دنوں میں اسے خفت کا سامنا کرنا پڑتا جب اسے نالائقی پر بینچ پر کھڑا کر دیا جاتا۔ آئزک نیوٹن سکول میں عام طالبعلم تھا۔ وہ ایک فارم ہائوس کی نگرانی بھی کرتا لیکن اس کا مالک اسے اکثر تنخواہ نہ دیتا۔ اسی نیوٹن نے بعد ازاں قوانینِ حرکت وضع کئے۔ رابرٹ سٹینبرگ کو کالج کے پہلے سائیکالوجی ٹیسٹ میں سی گریڈ ملا لیکن یہی رابرٹ بعد میں امریکن سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن کا صدر بنا۔ تھامس ایڈیسن کو استاد بیوقوف اور نالائق کہتے تھے۔ یہ پہلی دونوں نوکریوں میں نکال دیا گیا۔ بلب بنانے سے قبل اس کی ایک ہزار کوششیں ناکام ہوئیں۔ رائٹ برادران کا سائیکل بنانے کا کاروبار بری طرح فلاپ ہوا لیکن وہ سینکڑوں کوششوں کے بعد ہوا میں اڑنے والی مشین بنانے میں کامیاب ہوگئے اور اس کا نام ہوائی جہاز رکھا۔ ونسٹن چرچل دو مرتبہ برطانیہ کا وزیراعظم رہا لیکن یہ چھٹی کلاس میں دو مرتبہ فیل ہوا تھا۔ یہ ہر سطح کے انتخابات اور سیاست میں ناکام ہوا یہاں تک کہ باسٹھ برس کی عمر میں کامیاب ہو کر وزیراعظم بن گیا۔ ابراہام لنکن فوج میں ناکام ہوا‘ اس کی کاروبار کی ایک درجن کوششیں بھی فیل ہوئیں لیکن یہ شخص امریکہ کا عظیم لیڈر بنا۔ اوپرا ونفری کو ایک ٹی وی چینل سے صرف اس وجہ سے دھتکار دیا گیا کہ اس کا رنگ کالا تھا اور شخصیت ٹی وی سکرین سے موافق نہ تھی۔ یہی اوپرا بعد میں سب سے کامیاب اینکر بنی اور اس کے اوپرا شو نے امریکی ٹاک شوز کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ ہیری ٹرومین نے ریشمی شرٹس کا سٹور شروع کیا مگر چند ہی برس بعد دیوالیہ ہو گیا۔ یہی ٹرومین بعد ازاں امریکہ کا صدر بنا۔ ڈک چینی کو امریکہ کی ییل یونیورسٹی نے دو مرتبہ نکالا لیکن یہ امریکہ کا نائب صدر بن گیا۔ ہالی ووڈ سٹار جیری سینفلڈ جب سٹیج پر جاتا تو اس کی ٹانگیں کانپتیں‘ یہ سکرپٹ بھول جاتا اور ڈر کر آنکھیں بند کر لیتا تھا۔ یہی شخص امریکہ کا سب سے مزاحیہ سٹیج ایکٹر بنا۔ فریڈ اسٹائر کو پہلے آڈیشن میں کہہ دیا گیا کہ یہ نہ اچھا گلوکار‘ نہ اداکار اور نہ ہی ڈانسر بن سکتا ہے۔ یہی شخص بیورلی ہلز کا سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا گلوکار‘ اداکار اور ڈانسر بنا۔ سڈنی پوئٹر کو صاف کہہ دیا گیا: جائو جا کر کسی ریستوران میں برتن دھوئو۔ سڈنی پوئٹر بعد ازاں آسکر ایوارڈ جیتا۔ جینی مورے کو اس کے ڈائریکٹر نے اس کی بدصورتی کی وجہ سے چانس دینے سے انکار کیا۔ یہی جینی مورے بعد میں ہالی وڈ کی ایک سو فلموں میں کاسٹ ہوئی اور صف اول کی اداکارہ بنی۔ چارلی چپلن کو فلمی دنیا میں ایک عرصے تک غیرسنجیدہ لیا جاتا رہا لیکن اس شخص کے بغیر آج ہالی ووڈ کا نام تک ادھورا ہے۔ مایہ ناز ادیب سٹیفن کنگ کی پہلی کتاب کو تیس پبلشرز نے مسترد کیا‘ تنگ آ کر اس نے اپنے تمام مسودے ردی کی ٹوکری میں پھینک دئیے۔ سٹیفن کی بیوی نے یہ مسودے نکالے‘ حوصلہ دیا اور یہی سٹیفن پھر سب سے زیادہ پڑھا جانے والا مصنف بنا۔ زین گرے دانتوں کا ڈاکٹر نہ بن سکا تو کتابیں لکھنے لگا اور اس کی نوے کتابوں کی پانچ کروڑ کاپیاں تقسیم ہوئیں۔ جے کے رولنگ کی کہانیوں کی سیریز ابتدا میں ناکام ہوگئی۔ اسی معاملے پر اسے طلاق بھی ہوئی۔ یہی جے کے رولنگ صرف پانچ برس بعد ارب پتی ہو گئی اور اس کے ناول ہیری پوٹر نے چالیس کروڑ کاپیوں کی فروخت کے ساتھ سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ شہرت یافتہ گلوکار اور موسیقار ایلویس پریسلے کو اس کی پہلی پرفارمنس کے بعد اس کے منیجر نے نکالتے ہوئے کہا: جائو بھائی جا کر ٹرک چلائو‘ گانا تمہارے بس کا کام نہیں۔ یہی ایلویس پریسلے بعد میں امریکہ کا ''کنگ آف راک اینڈ رول‘‘ کہلایا۔ جرمنی کا وین بیتو تیس برس کی عمر میں مکمل طور پر بہرا ہو گیا تھا۔ بعد ازاں یہی شخص جرمنی کا بہترین موسیقار بنا۔ ایتھلیٹ مائیکل جارڈن کو سکول کی باسکٹ بال ٹیم سے نکالا گیا۔ یہ بہترین باسکٹ بال پلیئر بھی بنا اور اسی نے امریکہ کی سب سے بڑی باسکٹ بال ٹیم چارلٹ باب کیٹس بھی خرید لی‘ اور سٹین سمتھ کو تو اس کے کوچ نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ اسے ریکٹ تک پکڑنا نہیں آتا اور یہی سمتھ بعد ازاں ومبلڈن‘ یو ایس اوپن اور آٹھ مرتبہ ڈیوس کپ کا فاتح بنا۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ کامیاب لوگ اپنی اپنی ناکامیوں پر خاموش ہو کر بیٹھ جاتے۔ اگر انہیں سکول سے نہ نکالا جاتا۔ اگر یہ دیوالیہ نہ ہوتے۔ اگر ان کے آئیڈیاز مسترد نہ ہوتے۔ اور اگر ان کی کوششیں ضائع نہ ہوتیں۔ اگر یہ مایوس ہو جاتے اور اگر یہ اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتے تو کوئی ان کا نام تک نہ جانتا اور یہ بھی آج عام انسان ہوتے اور ہمیں آج دنیا میں کوئی کامیاب شخص ایسا نہیں ملے گا جو کہے: میں نے ہمیشہ اپنی کامیابی سے سیکھا۔ وہ یہی کہے گا: اگر میں فلاں مرتبہ ناکام نہ ہوا ہوتا‘ اگر مجھے فلاں نوکری سے نہ نکالا گیا ہوتا‘ اگر فلاں نے میری تذلیل نہ کی ہوتی‘ اگر میرا فلاں سکرپٹ مسترد نہ ہوا ہوتا اور اگر میری فلاں جگہ ٹرانسفر نہ ہوئی ہوتی تو میں شاید آج بھی اسی جگہ موجود ہوتا اور اسی تنخواہ اور اسی سکیل میں گزارہ کر رہا ہوتا۔ ہر ناکامی کے بعد انسان کے پاس دو راستے ہوتے ہیں۔ ناکامی کے سامنے ہتھیار ڈال دے اور پرانی تنخواہ یا پرانے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرکے باقی ماندہ زندگی گزار دے یا پھر اپنی ناکامیوں سے سیکھے اور پہلے سے زیادہ جوش اور جذبے کے ساتھ کوشش کرے۔ اس نیت کے ساتھ کہ خدا کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔ خدا کے ہاں دیر تو ہو سکتی ہے اندھیر نہیں اور مسلسل کوشش کا پھل بہرحال انسان کو مل کر ہی رہتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں