آپ سوشل میڈیا پر جس کسی کی پگڑی چاہے اچھالتے رہیں‘ چاہیں تو سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید بنا کر پیش کر دیں اور کسی کا گناہ کسی کے سر ڈال دیں آپ کو سات خون معاف ہوں گے لیکن اگر آپ کشمیر کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں‘ آپ مظلوم کشمیریوں پر گزرنے والی مشکلات اور بھارتی ظلم و ستم کا رونا روتے ہیں تو پھر تیار رہیں کہ آپ کا ٹویٹر اکائونٹ کبھی بھی بند کیا جا سکتا ہے۔ آج کی خبر کے مطابق پاکستان سے چلنے والے دو سو ٹویٹر اکائونٹس گزشتہ چند دنوں کے دوران بند کئے جا چکے ہیں۔ ان میں سے کئی سرکاری عہدیداران کے ہیں جنہوں نے کشمیر میں آرٹیکل تین سو ستر کے خاتمے اور بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ ان اکائونٹس کو ٹویٹر کی جانب سے یہ کہہ کر معطل کیا گیا کہ ان اکائونٹس نے ٹویٹر ضابطۂ اخلاق کی پاسداری نہیں کی۔ درحقیقت ان اکائونٹس سے نہ تو کسی پر ذاتی حملہ کیا گیا اور نہ ہی کوئی غیر اخلاقی پوسٹ کی گئی تھی۔ قصور صرف بھارت کے خلاف اور بے گناہ کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھانا تھا۔ آپ یہاں سے سوشل میڈیا پر بڑھتے ہوئے بھارتی اثر و رسوخ اور بھارتی سیکولرازم کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بھی ایک جنگ جاری ہے۔ بھارت کی جانب سے ایک پورا گروہ کشمیر مخالف ویڈیوز اور پوسٹس بنا کر دنیا کو من چاہا چہرہ دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارتی انتہا پسند کشمیر اور پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف ہیں لیکن یہ سب کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔ ان کی پالیسی صرف یہ ہے کہ کشمیر کے حق میں جہاں جہاں سے آواز اٹھے اسے خاموش کر دیا جائے۔ اب اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ وہ بھی سن لیں۔ آپ صرف گوگل کی بات کر لیں تو پندرہ سال قبل جب اسے لانچ کیا گیا تو اس کی مارکیٹ ویلیو 23 ارب ڈالر تھی جبکہ گزشتہ سال یہ بڑھ کر 823 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ یہ صرف ایک امریکی کمپنی کی بات ہے۔ ایسی سینکڑوں کمپنیاں اربوں ڈالر کما رہی ہیں اور ان میں بڑی تیزی سے بھارتی شہری اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ گوگل کا سی ای او اس وقت ایک بھارتی سندر پچائی ہے جو پانچ سال قبل بیالیس برس کی عمر میں اس کا چیف ایگزیکٹو بنا تھا۔ دنیا میں دو سو ممالک ہیں لیکن صرف ایک بھارتی کا اتنا عروج پانا غیرمعمولی بات تھی۔ بھارت اس بات کو سمجھ چکا ہے کہ آئندہ جنگیں میدانوں سے زیادہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر لڑی جائیں گی اس لئے اس نے اپنے لوگوں کو ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے لانے کے لئے مراعات بھی دیں‘ بھارت میں سیلی کون ویلی کی طرز پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شہر بھی بسائے گئے‘ اور بھارت اسرائیل اور امریکہ کی بڑی کمپنیوں کے مابین آئی ٹی کے بڑے معاہدے بھی کئے گئے‘ جن کے نتیجے میں بھارت میں آئی ٹی کی لاکھوں نوکریاں پیدا ہوئیں‘ آئی ٹی کی عالمی کمپنیوں نے سرمایہ کاری کے لئے بھارت کا رخ کیا‘ حتیٰ کہ فیس بک اور ٹویٹر جیسی سینکڑوں کمپنیوں نے ایشیا میں اپنا مرکزی دفتر کھولنے کے لئے بھارت کو ہی منتخب کیا۔ گوگل کے بعد سوشل میڈیا کی تمام بڑی کمپنیوں میں اعلیٰ ترین عہدوں پر بھارتی شہری فائز ہو چکے ہیں‘ وہ نہ صرف اس سے اپنے ملک کے لئے خطیر زر مبادلہ کما رہے ہیں بلکہ ان کمپنیوں کی آفیشل پالیسی کی تیاری اور ترمیم کا بھی اختیار رکھتے ہیں۔ ان سارے اقدامات کا نتیجہ آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ جب بھی مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ اجاگر ہوتا ہے اور دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو سوشل میڈیا پر بھارت کی پالیسی اثر انداز ہوتی صاف دکھائی دیتی ہے۔ آپ غور کریں کہ گزشتہ دنوں جو اکائونٹ بند ہوئے ان میں نوے فیصد پاکستان کے سرکاری عہدیداروں کے اکائونٹ تھے‘ آخر انہیں ہی کیوں ٹارگٹ کیا گیا اور اس کے پیچھے کون سے ذہن کارفرما تھے۔ آپ بھارتی حکومت کے وزیروں اور مشیروں کے اکائونٹس بھی دیکھ لیں‘ جہاں سے پاکستان اور کشمیریوں کے خلاف مسلسل زہر اگلا جا رہا ہے لیکن مجال ہے کہ کسی کا اکائونٹ بند ہوا ہو۔
کچھ دنوں سے ایک اور خطرناک کام ہو رہا ہے اور وہ یہ کہ کچھ بھارتی انتہا پسندوں کی جانب سے بنائی گئی ویڈیوز کو جان بوجھ کر پاکستان اور دیگر دنیا میں شیئر کیا جا رہا ہے حالانکہ سب لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر زیادہ تر وہی چیزیں سامنے آتی ہیں جیسی آپ دیکھتے ہیں۔ اگر آپ کے دوستوں میں بھارت سے کوئی ہندو شامل ہے اور آپ اسے اور وہ آپ کو پوسٹس بھیجتا رہتا ہے تو یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ اچانک سے کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بھی شخص جیسے ہی سوشل میڈیا کھولتا ہے وہاں پر آگے سے کسی ہندو کی ویڈیو آ جاتی ہے جو اسلام‘ پاکستان اور کشمیر کے خلاف بکواس کر رہا ہوتا ہے۔ یہ سب بھی پاکستان‘ کشمیر اور مسلمان دشمن پالیسی کا حصہ ہے اور وہ ففتھ جنریشن وار ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جنگ کی خطرناک ترین قسم ہے اور اس میں سبقت لے جانے والا ہی اصل فاتح ہو گا۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی ایک خبر تھی کہ سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے ہمارے موبائل فون کے مائیک سے ہماری گفتگو ریکارڈ کی جاتی ہے حتیٰ کہ ہمارا موبائل فون بند بھی ہو تب بھی یہ کام ہوتا رہتا ہے؛ چنانچہ بھارت اس وقت انتہائی خوفناک کھیل کھیل رہا ہے اور کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستانی سرکاری اور عسکری اکائونٹس کو بالخصوص بہت باریکی سے مانیٹر کیا جا رہا ہے۔ رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لئے ہر جگہ اب سوشل میڈیا کا سہارا لیا جانے لگا ہے‘ بھارت بھی یہی کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو ہر طرف بھارتی موقف ہی نظر آئے گا۔ تمام پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ جس ملک میں بھی ہیں کشمیر پر زیادہ سے زیادہ مواد کو شیئر کریں کیونکہ سفارتی جنگ اب سوشل میڈیا کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی۔ پاکستان میں نو دس کروڑ لوگ موبائل فون استعمال کرتے ہیں‘ اسی طرح ایک کروڑ پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں۔ یہ سب روزانہ کم از دو پوسٹس کشمیر پر ضرور لکھیں اور انہیں بڑے گروپس میں بھی شیئر کریں تو بیس پچیس پوسٹس یکدم پھیل جائیں گی۔ بھارت کتنے اکائونٹ بند کرا دے گا، اگر یکدم لاکھوں اکائونٹس سے کروڑوں پوسٹس اور ٹویٹس کشمیر کے حق میں آنا شروع ہو گئے تو بھارت کچھ بھی نہیں کر سکے گا اور نہ ہی ٹویٹر اتنے سارے اکائونٹ بلا وجہ بند کر سکے گا کیونکہ بہرحال یہ کمپنیاں کاروبار کر رہی ہیں اور کوئی بھی بلا وجہ اپنے کاروبار کی اسی شاخ پر بیٹھ کر اسے نہیں کاٹ سکتا۔ جو نوجوان سوشل میڈیا پر ن لیگ بمقابلہ تحریک انصاف جنگ لڑ رہے ہیں وہ بھی کچھ عرصے کے لئے سیز فائر کر لیں اور اپنی توپوں کا رُخ بھارت کی جانب موڑ دیں کیونکہ یہ ملک رہے گا تو ہم سب رہیں گے‘ سیاسی مخالفتیں تو بعد میں بھی چلتی رہیں گی لیکن کشمیر میں جس طرح ایک کروڑ کی آبادی کو سولہ روز سے بھوکا پیاسا مارا جا رہا ہے ان کی مدد کون کرے گا؟ تحریک انصاف کے ٹائیگرز سوشل میڈیا کو استعمال کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ وہ بھارت کو سوشل میڈیا پر ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں۔ اس کے لئے نہ کوئی پیسہ چاہیے نہ انفراسٹرکچر۔ ہر شخص کے پاس انٹرنیٹ اور موبائل فون موجود ہے اور ساتھ میں ڈھیر سارا وقت بھی۔ یہ وقت‘ یہ انٹرنیٹ اور یہ موبائل کچھ عرصے کے لئے ان مسلمانوں کے لئے وقف کر دیں جن پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ یہ بھی ایک طرح کا جہاد ہے بلکہ ہر وہ کوشش جس سے کسی مظلوم کو فائدہ ہو‘ وہ جہاد ہی کہلاتی ہے۔ زیادہ بہتر ہو گا کہ ہر شخص ایک پوسٹ انگریزی اور ایک اردو میں بنائے تاکہ عالمی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے اور مسئلہ کشمیر موثر انداز میں اُجاگر کرنے میں مدد مل سکے۔ دوسرا کام حکومت کو کرنا ہے۔ پاکستان میں آئی ٹی کا بے انتہا ٹیلنٹ موجود ہے۔ جنگی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے پاکستان میں آئی ٹی کی سیلی کون ویلی بنائی جائے تاکہ یہ ساری عالمی سوشل میڈیا کمپنیاں جو اس وقت بھارت کی جھولی میں گرتی جا رہی ہیں‘ پاکستانی اکائونٹس کے ساتھ امتیازی سلوک سے باز رہیں اور کشمیر اور دیگر سلگتے معاملات پر پاکستان کے موقف کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ رُک سکے۔