"ACH" (space) message & send to 7575

سوچنے کا وقت گزر چکا!

دنیا میں اس وقت چار بڑی عالمی آئی ٹی کمپنیاں ہیں۔ گوگل‘ ایپل‘ فیس بک اور ایمیزون۔ یہ چاروں کمپنیاں دنیا بھر میں چھائی ہوئی ہیں۔ یہ بگ فور کے نام سے جانی جاتی ہیں اور ان کمپنیوں کا کل معاشی حجم دنیا کے ایک سو بائیس ممالک کے سالانہ جی ڈی پی سے بھی زیادہ ہے۔ ہم میں سے اکثر گوگل‘ ایپل اور فیس بک سے واقف ہیں۔ ہم روزانہ گوگل کی ویب سائٹس‘ اس کی ای میل اور مختلف ایپلی کیشنز استعمال کرتے ہیں‘ کچھ لوگوں کے پاس ایپل کا موبائل فون بھی ہے اور ہم روزانہ کئی گھنٹے فیس بک پر بھی گزارتے ہیں‘ لیکن ہم میں سے اکثر لوگ ایمیزون سے واقف نہیں‘ اور جو واقف ہیں وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے کیونکہ ایمیزون پاکستان میں آپریٹ ہی نہیں کرتا۔ ایمیزون پاکستان میں کیوں نہیں آ سکا‘ یہ ہے کیا اور اس کے پاکستان آنے کے کیا فائدے ہو سکتے ہیں؟ یہ بتانے سے قبل میں آپ کو بھارتی شہر حیدر آباد لئے چلتا ہوں جہاں تین ہفتے قبل ایمیزون کی امریکہ سے باہر سب سے بڑی عمارت کا افتتاح ہوا جو ساڑھے نو ایکڑ یا اٹھارہ لاکھ مربع فٹ پر کھڑی ہے۔ تین سو فٹ بلند یہ عمارت پندرہ ہزار ملازمین کی گنجائش رکھتی ہے۔ اس میں کل انچاس لفٹس ہیں جو ایک سیکنڈ فی منزل کی رفتار سے بیک وقت 972 لوگوں کو لے جانے کی گنجائش رکھتی ہیں۔ 39 ماہ میں تعمیر ہونے والی اس عمارت میں روزانہ دو ہزار سے زائد مزدوروں نے حصہ لیا۔ ایمیزون کے علاوہ گوگل‘ ایپل‘ فیس بک اور دنیا کی دیگر بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے علاقائی مرکزی دفاتر بھی حیدر آبا د میں ہی قائم ہیں۔ اس عمارت کے بعد گوگل بھی حیدر آباد میں امریکہ سے باہر اپنا سب سے بڑا دفتر بنانے والا ہے‘ جس سے بھارت کے آئی ٹی کے شعبے میں زبردست ہلچل مچ جائے گی‘ ہزاروں بلکہ لاکھوں نوکریاں پیدا ہوں گی اور بھارت کا زر مبادلہ اربوں ڈالر بڑھ جائے گا۔ ہم اب ایمیزون کی جانب آتے ہیں۔ ایمیزون ایک امریکی شہری جیف بیزوس نے 1996ء میں آن لائن بک سٹور کے طور پر لانچ کیا۔ ایمیزون جنوبی امریکہ میں بہت بڑا دریا بھی ہے۔ جیف بیزوس نے اپنے آن لائن بک سٹور کو ایمیزون دریا سے کہیں بڑا کتابوں اور بعد ازاں الیکٹرانکس اور دیگر اشیا کا سمندر بنا دیا۔ جیف نے ایمیزون کی شروعات اپنے گھر کے گیراج میں رکھے تین کمپیوٹرز سے کی۔ جیف کے والد نے جیف کو ابتدائی سرمایہ کاری کے لئے تین لاکھ ڈالر دیتے ہوئے اس کی ماں سے پوچھا تھا کہ انٹرنیٹ کیا ہوتا ہے۔ جیف کی والدہ بولی‘ ہم یہ پیسہ انٹرنیٹ نہیں بلکہ اپنے بیٹے کے اعتماد پر لگا رہے ہیں۔ جیف کے والدین کمپنی کے چھ فیصد کے مالک تھے اور 2000ء میں کمپنی کے عروج کے باعث ارب پتی بن گئے۔ ابتدا میں جیف گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کتابوں کے پیکٹ بناتا اور خود کوریئر کمپنی کے دفاتر تک پہنچاتا۔ ایمیزون کے لئے ٹرننگ پوائنٹ 2007ء میں اس وقت آیا جب ایمیزون نے کِنڈل سافٹ ویئر لانچ کیا۔ اس سافٹ ویئر کے ذریعے کتابیں ڈائون لوڈ کرکے موبائل‘ کمپیوٹر اور ٹیب میں بھی پڑھی جا سکتی تھیں۔ کِنڈل کے مارکیٹ میں لانچ ہوتے ہی چھ گھنٹے میں اس کا سارا ریکارڈ فروخت ہو گیا۔ یہ اتنی بڑی کامیابی تھی جس کا خود جیف بیزوس کو اندازہ نہ تھا۔ کِنڈل ریڈر کے ذریعے ایمیزون نے امریکہ کے پچانوے فیصد ای ریڈرز شیئر پر قبضہ کر لیا۔ یہ کمپنی اتنی تیزی سے اُٹھی کہ آج 1996ء میں تین لوگوں سے شروع ہونے والی کمپنی میں پانچ لاکھ چھیاسٹھ ہزار ملازمین ہیں اور جیف بیزوس 112 بلین ڈالر کے ساتھ دنیا کے سب سے امیر آدمی بن چکے ہیں۔ ایمیزون کے اس وقت پوری دنیا میں سولہ کروڑ کسٹمر ہیں۔ ایمیزون واحد کمپنی ہے جو زیرو مارکیٹنگ بجٹ کے ساتھ اس مقام تک پہنچی۔ جیف نے خریداری کو اتنا آسان بنا دیا کہ لوگ دیگر آن لائن سٹورز چھوڑ کر ایمیزون پر آ گئے۔ یہاں انہیں آرڈر کرنے میں کم وقت لگتا‘ ان کا آرڈر انہیں بروقت ملتا اور وہی چیز ملتی جو نیٹ پر دکھائی جاتی۔ ان خصوصیات کی بنا پر صارفین اپنے دوستوں اور رشتے داروں میں ایمیزون کا چرچا کرنے لگے۔ گزشتہ دنوں جیف بیزوس کی آمدنی کی تفصیل شائع ہوئی۔ آپ حیران ہوں گے یہ سن کر کہ جیف بیزوس کی آمدن میں 70 کروڑ روپے فی گھنٹہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ یومیہ 16ارب اور ماہانہ پانچ کھرب بنتے ہیں۔ اس حساب سے جیف بیزوس سالانہ ساٹھ کھرب روپے کما رہا ہے۔ یہ گزشتہ برس آمدن میں دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ یہ سب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے باعث ممکن ہوا۔ جیف بیزوس اگر کتابوں کو آن لائن فروخت نہ کرتا تو وہ چاہے پورے امریکہ میں ایک ہزار کتابوں کی دکانیں بنا دیتا تب اس آمدن کا سواں حصہ بھی حاصل نہ کر پاتا؛ چنانچہ آج اگر بھارت میں ایمیزون اتنی بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے‘ وہ بھارتی نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے مواقع دے رہا ہے تو اس سے بھارت کی معیشت میں بھی زبردست تبدیلی آئے گی۔
اب ہم پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ پاکستان میں ایمیزون نہ آنے کی ایک بڑی وجہ پے پال کا نہ ہونا ہے۔ پے پال آن لائن پے منٹ کا مقبول ترین عالمی ذریعہ ہے جسے کروڑوں صارفین بغیر کسی جھجک کے آن لائن خریداری کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ پے پال کے پاکستان نہ آنے کی وجہ سے صرف ایمیزون ہی پاکستان نہیں آ سکا بلکہ اس سے فری لانسنگ کرنے والے دو سے تین لاکھ پاکستانیوں کو بھی بڑی مشکلات درپیش ہیں۔ وہ بیرون ملک کمپنیوں کیلئے کام کرتے ہیں لیکن اپنے کام کی رقم وصول کرنے کیلئے انہیں ایک لمبا چکر کاٹنا پڑتا ہے۔ بہت کم عالمی کمپنیاں پاکستان کے ساتھ آن لائن ادائیگی کیلئے منسلک ہیں اور جو ہیں وہ بہت زیادہ کٹوتی کرتی ہیں۔ اگر پے پال جیسے مسائل دور کر لئے جاتے ہیں تو ایمیزون اور دیگر عالمی کمپنیاں بھارت کی طرح پاکستان کو بھی اپنے لئے سازگار سمجھ سکتی ہیں اور اس سے پاکستان کی اس نوجوان نسل کو بہت فائدہ ہو گا جو بیروزگاری کی وجہ سے دربدر بھٹک رہی ہے۔ ان مسائل کے ہوتے ہوئے بھی پی آئی ٹی بی کے پلان نائن جیسے پلیٹ فارمز سے ایک سو ساٹھ سٹارٹ اپس اربوں روپے کا ریونیو اکٹھا کر چکے ہیں اور ذرا سوچیں کہ اگر یہ مسائل حل ہو گئے تو یہ ریونیو کہاں جائے گا۔ حکومت کو بھی یہ بات سمجھنا ہو گی کہ اس وقت آئی ٹی کے علاوہ کوئی بھی سیکٹر ایسا نہیں جہاں نوجوانوں کو بڑی تعداد میں نوکریاں دی جا سکیں۔ پاکستان میں ٹیکنالوجی کے بغیر نہ تو معیشت بہتر ہو گی اور نہ روزگار مل سکے گا۔ یہاں گزشتہ دو تین برسوں سے دہشتگردی بھی تقریباً ختم ہو چکی ہے جس کی وجہ سے دنیا یہاں کا رخ نہیں کرتی تھی۔ لوڈشیڈنگ کی صورتحال بھی خاصی بہتر ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ بگ فور میں شامل کوئی بھی کمپنی پاکستان میں کام کرنے اور یہاں بڑی سرمایہ کاری کیلئے تیار نہیں۔ اس کیلئے حکومت کوئی ٹاسک فورس بنائے یا پھر کمیٹی بنا کر کوئی فوکل پرسن مقرر کرے اور اس ٹاسک فورس میں ملک کے نامی گرامی آئی ٹی کے ماہرین کو شامل کیا جائے۔ بیرون ملک گوگل جیسے اداروں یا عالمی یونیورسٹیوں سے جو پاکستانی منسلک ہیں انہیں بلایا جائے اور ان کی مشاورت سے اس مسئلے پر غور کیا جائے کہ اکیسیوں صدی کے بیس سال گزر جانے کے بعد بھی دنیا کی کوئی آئی ٹی کمپنی آخر پاکستان آنے کو کیوں تیار نہیں؟ وہ کون سی وجوہ اور مسائل ہیں جنہیں دور کیا جائے تو پاکستان بھی بھارت کی طرح خطے میں آئی ٹی اور دنیا کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔ جب ہمارے پاس ٹیلنٹ بھی ہے‘ انٹرنیٹ بھی عام ہو چکا ہے‘ قدم قدم پر یونیورسٹیاں‘ کالج اور اکیڈمیاں ہیں‘ ارفع کریم رندھاوا جیسی سینکڑوں مثالیں بھی ہیں اور ہماری باسٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو آئی ٹی کا بہترین استعمال جانتے ہیں اور دنیا بھر میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم ان انفرادی کامیابیوں کو قومی اور اجتماعی کامیابی میں نہیں بدل سکے؟ کیوں ہم آج تک قومی آئی ٹی پالیسی نہیں بنا سکے جس میں آئی ٹی کے اہداف مقرر ہوں‘ جس کے آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘ ڈیٹا سائنس‘ انٹرنیٹ آف تھنگز‘ فری لانسنگ اور سافٹ ویئر ایکسپورٹ جیسے شعبوں میں پاکستان کو بھی نامور کیا جا سکے۔ ویسے سچ پوچھیں تو اب سوچنے کا وقت گزر چکا ہے‘ یہ عمل کرنے کا وقت ہے اور جو ملک اب بھی ان امور سے لاتعلق رہے گا اس کی معیشت میں کبھی اٹھان نہیں آسکے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں